Urdu Deccan

Monday, July 26, 2021

راجیش ریڈی

 یوم پیدائش 22جولائی 1952


کچھ دن سے یہ جو رہتے ہو خود میں ہی میاں گم

بتلاؤ تو کر آئے ہو اپنے کو کہاں گم 


ساحل پہ بناتے رہے ہم روز گھر وندے

روز آکے انہیں کرتی رہی موجِ رواں گم


اب کیا کہیں کیا حال کِیا ایک جھلک نے

ہم جی بھی لئے، ہو بھی گئی جسم سے جاں گم


ان شوخ نگاہوں میں تھا جادو ہی کچھ ایسا

دو آنکھوں میں اپنے تو ہوئے دونوں جہاں گم


کس کام کا، گردن پہ جو ہو کر بھی نہ ہو سر

 کس کام کی، جو ہو کے بھی منھ میں ہو زباں گم


یہ زندگی حیرت بھرے صحرا کا سفر ہے

ظاہر ہیں جہاں آبلے ,قدموں کےنشاں گم


راجیش ریڈی


سید ریاض رحیم

 یوم پیدائش 21 جولائی 1959


مکاں سے لا مکاں ہوتے ہوئے بھی

کہاں ہم ہیں کہاں ہوتے ہوئے بھی


بہت کچھ اب بھی باقی ہے زمیں پر

بہت کچھ رائیگاں ہوتے ہوئے بھی


سرے سے ہم ہی غائب ہو گئے ہیں

سبھی کے درمیاں ہوتے ہوئے بھی


بھنور کی سمت بڑھتی جا رہی ہے

یہ کشتی بادباں ہوتے ہوئے


بہت ہی مختصر ہوتے گئے ہیں

مکمل داستاں ہوتے ہوئے بھی


بہت گھاٹے میں ہے اردو زباں کیوں

محبت کی زباں ہوتے ہوئے بھی


سید ریاض رحیم


شانتی سروپ بھٹناگر

 یوم پیدائش 21 جولائی 1894

عزم

تیغ سے ڈر اور نہ گھبرا شورشِ زنجیر سے

مشکلوں سے لڑ بغاوت کر غمِ تقدیر سے


گر ہتھیلی پر نہیں مقسوم کی سطریں تو کیا

کھود قسمت کی لکیریں ناخنِ تدبیر سے


اپنے رہبر کو ہکن بننے پر آمادہ تو ہوں

ملک خود ہو جائیگا شاداب جوئے شیر سے


میری چپ سے کاش وہ سمجھیں کہ میں زندہ نہیں

اور میں آزاد ہو جاؤں ہر اک زنجیر سے


وقت شکووں میں گنوانا شانِ مردانہ نہیں

یا لہو کے گھونٹ پی یا کام لے شمشیر سے


شانتی سروپ بھٹناگر


راحت زاہد

 یوم پیدائش 21 جولائی 


رہِ حیات کے رنج و الم مجھے دے دو

تم اپنی روح کے سب سوز و غم مجھے دے دو 


میں بن کے پیار کا ساگر سمیٹ لوں گی انہیں

جو آنسوئوں سے ہو 'پر چشمِ نم مجھے دے دو 


'دکھوں کو آؤ ذرا بانٹنے کی بات کریں 

تمھاری جاں پہ جو گزرے ستم مجھے دے دو 


جو ہاتھ تھام کے منزل قریب ہوجائے

وہ ہاتھ تم کو ہے میری قسم مجھے دے دو 


مٹا کے خود کو میں راحت تمھاری ہو جاؤں 

وفا کا بس یہی اتنا بھرم مجھے دے دو 


راحت زاہد


فوزیہ شیخ

 یوم پیدائش 15 جولائی 1982


پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے

وہ کھینچ لے گیا دریائے غم کے پار مجھے


چراغ راہ محبت ہوں طاق میں رکھنا

غبار قریۂ نفرت میں مت اتار مجھے


میں اس کی یاد میں راتوں کو سو نہیں سکتی

وہ دور رہ کے بھی رکھتا ہے اشک بار مجھے


کٹی پتنگ سی اٹکی ہوں شاخ نازک پر

ہوا کا ہاتھ بھی کرتا ہے تار تار مجھے


مٹا دے مجھ کو یا رکھ لے سمیٹ کر دل میں

تو ہجر جیسی اذیت سے مت گزار مجھے


تو جانتا ہے کہ میں بے گھری سے ڈرتی ہوں

نکال دل سے نہ ایسے تو بار بار مجھے


میں انتظار کے برزخ میں جلتی رہتی ہوں

ہزار وسوسے رکھتے ہیں بے قرار مجھے


میں چاہتی ہوں اسے بھولنا مگر فوزیؔ

قسم خدا کی نہیں خود پہ اختیار مجھے


فوزیہ شیخ


خورشید الا سلام

 یوم پیدائش 21 جولائی 1919


یہ روز و شب ملیں گے کہاں دیکھتے چلیں

آئے ہیں جب یہاں تو جہاں دیکھتے چلیں


زمزم پئیں شراب پئیں زہر غم پئیں

ہر ہر نفس کا رقص جواں دیکھتے چلیں


ہو جائیں رفتہ رفتہ حسینوں کی خاک پا

بے نام ہو کے نام و نشاں دیکھتے چلیں


لہجے میں رنگ رخ میں نظر میں خرام میں

اک جان جاں کا لطف نہاں دیکھتے چلیں


آنکھوں سے انگلیوں سے لبوں سے خیال سے

جس جس بدن میں جو ہے سماں دیکھتے چلیں


یہ جان و تن جو پیر ہوئے غم کے بوجھ سے

جاتے ہوئے تو ان کو جواں دیکھتے چلیں


خوشبو سے جن کی اب بھی معطر ہیں بام و در

ان بستیوں میں ان کے نشاں دیکھتے چلیں 


ذوق یقیں کی حسن مروت کی غم کی موت 

جو کچھ دکھائے عمر رواں دیکھتے چلیں


کھائیں فریب روز اٹھائیں نقاب روز

ہر شخص کیا ہے اور کہاں دیکھتے چلیں


مانا کہ رائیگاں ہی گئی عمر بے ثبات

پھر بھی حساب سود و زیاں دیکھتے چلیں


خورشید الاسلام


مرلی دھر شرما طالب

 یوم پیدائش 20 جولائی 1977


مری ڈگر سے بھی اک دن گزر کے دیکھ ذرا

اے آسمان زمیں پر اتر کے دیکھ ذرا


دھڑکنے لگتے ہیں دیوار و در بھی دل کی طرح

کہ سنگ و خشت میں کچھ سانس بھر کے دیکھ ذرا


ہر ایک عیب ہنر میں بدل بھی سکتا ہے

حساب اپنے گناہوں کا کر کے دیکھ ذرا


تو چپ رہے گا ترے ہاتھ پاؤں بولیں

یقیں نہ آئے تو اک روز مر کے دیکھ ذرا


اٹھے جدھر بھی نظر روشنی ادھر جائے

کرشمے کیسے ہیں اس کی نظر کے دیکھ ذرا


مسیحا ہو کے بھی ہوتا نہیں مسیحا کوئی

تو زخم زخم کسی دن بکھر کے دیکھ ذرا


خموشیوں کو بھی طالبؔ زبان ہے کہ نہیں

سکوت دریا کے اندر اتر کے دیکھ ذرا


مرلی دھر شرما طالب


ن م ناصر

 یوم پیدائش 20 جولائی


آج میں کل پِرو لیا جائے 

پیار کھیتوں میں بو لیا جائے


 آ ہی جائے وہ خواب میں شاید

 دو گھڑی کو تو سو لیا جائے

 

 اوڑھ کے رات کی سیہ چادر

 دل کو آنسو سے دھو لیا جائے

 

مخمصہ ہو گئی محبت بھی

پا لیا جائے کھو لیا جائے


عکس ہے، یا مِرا وجود وہاں

آئینہ کھوج تو لیا جائے


آو تارے اتاریں پلکوں پر

 آو ناصر کہ رو لیا جائے

 

ن م ناصر


یونس عظیم

 یوم پیدائش 20 جولائی


تِری صحبت گوارا بھی نہیں ہے

تِری فرقت کا یارا بھی نہیں ہے


ہمیں اُس نے پکارا بھی نہیں ہے

سوائے صبر ، چارا بھی نہیں ہے


ہمارا وہ نہیں ہے ، اِس کا غم ہے

خوشی یہ ہے ، تمہارا بھی نہیں ہے


نہیں ملتا نشان ِ آرزو تک

کوئی رہبر ستارا بھی نہیں ہے


وہی میں ہوں ، وہی ہے گرد ِ اُلفت

کبھی خود کو سنوارا بھی نہیں ہے


خفا اُس سے ہُوا پھرتا ہے ، یونس

بِنا جس کے ، گزارا بھی نہیں ہے


یونس عظیم


شفا کجگاؤنوی

 یوم پیدائش 20 جولائی 1962


جن کے فٹ پاتھ پہ گھر پاؤں میں چھالے ہوں گے

ان کے ذہنوں میں نہ مسجد نہ شوالے ہوں گے


بھوکے بچوں کی امیدیں نہ شکستہ ہو جائیں

ماں نے کچھ اشک بھی پانی میں ابالے ہوں گے


تیرے لشکر میں کوئی ہو تو بلا لے اس کو

میرا دعویٰ ہے کہ اس سمت جیالے ہوں گے


جنگ پر جاتے ہوئے بیٹے کی ماں سے پوچھو

کیسے جذبات کے طوفان سنبھالے ہوں گے


سجدۂ حق کے لئے سینہ سپر تھے غازی

ایسے دنیا میں کہاں چاہنے والے ہوں گے


کچھ نہ ساحل پہ ملے گا کہ شفاؔ اس نے تو

در یکتا کے لیے بحر کھنگالے ہوں گے


شفا کجگاؤنوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...