Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

شکیل جمالی

 یوم پیدائش 01 آگسٹ 1958


وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے

میاں لے لو جو قیمت آ رہی ہے


میں اس سے اتنے وعدے کر چکا ہوں

مجھے اس بار غیرت آ رہی ہے


نہ جانے مجھ میں کیا دیکھا ہے اس نے

مجھے اس پر محبت آ رہی ہے


بدلتا جا رہا ہے جھوٹ سچ میں

کہانی میں صداقت آ رہی ہے


مرا جھگڑا زمانے سے نہیں ہے

مرے آڑے محبت آ رہی ہے


ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ

وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے


مجھے اس کی اداسی نے بتایا

بچھڑ جانے کی ساعت آ رہی ہے


بڑوں کے درمیاں بیٹھا ہوا ہوں

نصیحت پر نصیحت آ رہی ہے


شکیل جمالی


ن م راشد

 یوم پیدائش 01 آگسٹ 1910


جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے

یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے


رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی

نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے


یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے


کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی

اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے


ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا

جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے


ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی

نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے


جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی

وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے


وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ

ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے


ن م راشد


مظفر رزمی

 یوم پیدائش 01 آگسٹ 1936


اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی

ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی


جاگ اے مرے ہمسایہ خوابوں کے تسلسل سے

دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اتر آئی


چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں

یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی


یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی


کیا سانحہ یاد آیا رزمیؔ کی تباہی کا

کیوں آپ کی نازک سی آنکھوں میں نمی آئی


مظفر رزمی


مینا کماری ناز

 یوم پیدائش 01 آگسٹ 1933


یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے

کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے


بیٹھے ہیں راستے میں دل کا کھنڈر سجا کر

شاید اسی طرف سے اک دن بہار گزرے


دار و رسن سے دل تک سب راستے ادھورے

جو ایک بار گزرے وہ بار بار گزرے


بہتی ہوئی یہ ندیا گھلتے ہوئے کنارے

کوئی تو پار اترے کوئی تو پار گزرے


مسجد کے زیر سایہ بیٹھے تو تھک تھکا کر

بولا ہر اک منارہ تجھ سے ہزار گزرے


قربان اس نظر پہ مریم کی سادگی بھی

سائے سے جس نظر کے سو کردگار گزرے


تو نے بھی ہم کو دیکھا ہم نے بھی تجھ کو دیکھا

تو دل ہی ہار گزرا ہم جان ہار گزرے


مینا کماری ناز


عدیم ہاشمی

 یوم پیدائش 01 آگسٹ 1946


راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے

اس نے پوچھا تو ہے اتنا ترا حال اچھا ہے


ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے

پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے


ترے آنے سے کوئی ہوش رہے یا نہ رہے

اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے


یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جائے کوئی

اسے دے دے کوئی اچھی سی مثال اچھا ہے


دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال

بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے


آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں

وہی پانی وہی مچھلی وہی جال اچھا ہے


کوئی دینار نہ درہم نہ ریال اچھا ہے

جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے


کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ

ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہےع

عد


یم ہاشمی

اسلم کولسری

 یوم پیدائش 01 آگسٹ 1946


جب میں اس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا

ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا


مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی

اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا


شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی

بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا


میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے

بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا


شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا


اسلم کولسری


Saturday, July 31, 2021

کامران ترمذی

 یوم پیدائش 31 جولائی 1993


رہبر ہی اگر اپنا, رہزن نہ بنا ہوتا

مقتل یہ سجا ہوتا نہ خون بہا ہوتا


تم پہ بھی اگر واعظ, یہ راز کھلا ہوتا

دیوانہ بنا ہوتا, مستانہ بنا ہوتا


ہم بندگیِ بت سے, ہوتے نہ کبھی کافر

ہر جائے اگر مومن, موجود خدا ہوتا


یہ جامِ فنا جسکو سمجھا ہے ہلاہل تُو

ناصح یہ تو امرِت ہے, دو گھونٹ پیا ہوتا


پل بھر کی کہانی تھی, دم بھر کا فسانہ تھا

ہم اُسکو سنا دیتے, ہمدم جو ملا ہوتا


منظور اگر اسکو تھا مجھ سے جدا ہونا

تیور نہ بدلتا وہ, میں ہنس کے جدا ہوتا


کامران ترمذی


تضمین غزلِ مومن خان مومن


سردار سلیم

 بہت نایاب ہوتی جا رہی ہے

محبت خواب ہوتی جا رہی ہے


مرے الفاظ تارے بن گئے ہیں

غزل مہتاب ہوتی جا رہی ہے


یہ کس کی تشنگی کا ہے کرشمہ

ندی پایاب ہوتی جا رہی ہے


لپیٹے میں نہ لے لے آسماں کو

زمیں گرداب ہوتی جا رہی ہے


سماعت ہو رہی ہے پارہ پارہ

زباں تیزاب ہوتی جا رہی ہے


سلیم اب ہوش مندی بھی تمھاری

جنوں کا باب ہوتی جا رہی ہے


سردار سلیم


علی راحل بورے والا

 چڑھتے ہوٸے سورج کا پرستار ہوا ہے

مسلک یہی دنیا کا مرے یار ہوا ہے


مطلوب رہی خوشیاں زمانے کو ہمیشہ

کب کون یہاں غم کا طلبگار ہوا ہے


جس نے بھی کیا ورد اناالحق کا یہاں پر

دنیا کی نظر میں وہ گنہگار ہوا ہے


جو تاج محل سپنوں میں تعمیر کیا تھا

جب آنکھ کھلی میری وہ مسمار ہوا ہے


کانٹوں کی یہاں داد رسی کون کرے گا

ہر بندہ ہی پھولوں کا طرفدار ہوا ہے


حقدار رعایت کا کسی طور نہیں وہ

جو شخص محبت کا خطاوار ہوا ہے


ہر رستے کی دیوار گراٸی میں نے جس کی

اب وہ ہی مری راہ کی دیوار ہوا ہے

 

کیا پوچھتے ہو اس کے میاں وعدے کا انجام

وہ ہی ہوا انجام جو ہر بار ہوا ہے


سینچا ہے اسےخون جگر سے میں نے رَاِحِلؔ

یونہی تو نہیں پیڑ ثمر بار ہوا ہے


علی رَاحِلؔ بورے والا


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 منشی پریم چند 31 جولائی 1880


اردو ادب کی شان تھے منشی پریم چند

اہل نظر کی جان تھے منشی پریم چند


اردو میں روح عصر ہیں ان کی نگارشات

خوش فکرو خوش بیان تھے منشی پریم چند


اجداد ان کے گرچہ قدامت پسند تھے

پر فکر سے جوان تھے منشی پریم چند


کرداروں کے وسیلے سے ان کی زبان میں

لوگوں کے ترجمان تھے منشی پریم چند


٫گودان ٫ہو ٫ غبن ٫ ہو کہ ٫ بازار حسن ہو

فنکار اک مہان تھے منشی پریم چند


بیحد عزیز تھی انھیں انسان دوستی

انسان مہربان تھے منشی پریم چند


سینے میں جن کے برقی تھا اک دردمند دل

وہ حامی کسان تھے منشی پریم چند


احمد علی برقی اعظمی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...