Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

اجمل سراج

 یوم پیدائش 14 اگست 1968


دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا

دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا


کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے

دستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا


دنیا کی بے رخی کا گلہ کر رہے تھے لوگ

ہم کو ترا تپاک مگر یاد آ گیا


پھر تیرگئی راہ گزر یاد آ گئی

پھر وہ چراغ راہ گزر یاد آ گیا


اجملؔ سراج ہم اسے بھول ہوئے تو ہیں

کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آ گیا


اجمل سراج


صبا اکبر آبادی

 یوم پیدائش 14 اگست 1908


اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں 

عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں 


ایک دن آپ کی برہم نگہی دیکھ چکے

روز اک تازہ قیامت ہو ضروری تو نہیں


میری شمعوں کو ہواؤں نے بجھایا ہوگا

یہ بھی ان کی ہی شرارت ہو ضروری تو نہیں


اہل دنیا سے مراسم بھی برتنے ہوں گے

ہر نفس صرف عبادت ہو ضروری تو نہیں


دوستی آپ سے لازم ہے مگر اس کے لئے

ساری دنیا سے عداوت ہو ضروری تو نہیں


پرسش حال کو تم آؤ گے اس وقت مجھے

لب ہلانے کی بھی طاقت ہو ضروری تو نہیں

 

سیکڑوں در ہیں زمانے میں گدائی کے لئے

آپ ہی کا در دولت ہو ضروری تو نہیں


باہمی ربط میں رنجش بھی مزا دیتی ہے

بس محبت ہی محبت ہو ضروری تو نہیں


ظلم کے دور سے اکراہ دلی کافی ہے

ایک خوں ریز بغاوت ہو ضروری تو نہیں


ایک مصرعہ بھی جو زندہ رہے کافی ہے صباؔ

میرے ہر شعر کی شہرت ہو ضروری تو نہیں


صبا اکبرآبادی


وقیع منظر

 یوم پیدائش 14 اگست 1963


روشن ہے مرا سینہ سرکار کی سنت سے

میں جیت کے پلٹوں گا نفرت کو محبت سے


تلوار سے کب پھیلا اسلام زمانے میں

اسلام تو پھیلا ہے اخلاق و اخوت سے


ہم ظلم نہیں کرتے ہم ظلم نہیں سہتے

نفرت ہےہمیں لیکن ظالم کی حمایت سے


اے کاش یقین اپنا ہوجائے جو پختہ تو

ہر کام سنور جائے قانون شریعت سے


دل ایک تجوری ہے رکھی ہے جہاں دنیا

بھرنی تھی جسے ہم نے ایمان کی دولت سے


منظر میں پریشاں ہوں مایوس نہیں لیکن

قدرت کی عنایت سے اللہ کی رحمت سے


وقیع منظر


شاہجہان شاد

 یوم پیدائش 14 اگست 1961


تیرا غم اَج پھر حوصلہ دے گیا

میری منزل کو مجھ کو پتا دے گیا


میں نے انگلی اٹھائی تھی اس کی طرف

میرے ہاتھوں میں وہ اَئینہ دے گیا


ایک سکے کی قیمت تو اتنی نہیں

اَج مجھ کو وہ جتنی دعا دے گیا


اس کی چاہت میں تھی ایک مٹھی چبھن

میں سمجھ ہی نہ پایا وہ کیا دے گیا


راہ اس کی تکوں اور وہ اَئے نہیں

وہ محبت کی مجھ کو سزا دے گیا


شاہجہان شاد


اقبال احمد اقبال

 یوم پیدائش 13اگست 1969


حسن جاناں جو نگاہوں میں ٹھہر جائے گا 

پھر اسے چھوڑ کے دیوانہ کدھر جائے گا 


جاں بلب رہتا ہے یہ درد محبت ہر دم 

زخم تلوار نہیں ہے کہ جو بھر جائے گا 


جام الفت ہے اثر ہوگا یقینا دل پر 

" کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا"


وادئ عشق میں آئے ہو سنبھل کر چلنا 

ورنہ یہ دور تلک گرد سفر جائے گا 


دل بیمار کو اک بار نظارہ دے دے 

غم جاناں ہے ذرا اور نکھر جائے گا 


کس کو معلوم تھا آئے گا زمانہ یہ بھی 

آدمی اپنی ہی نظروں سے اتر جائے گا 


لاکھ احساس محبت کو چھپالوں اقبال 

" وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا "


( اقبال احمد اقبال )


دوارکا داس شعلہ

 یوم پیدائش 13 اگست 1910


اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد

وہ ہنس کے ذرا بولے تو کچھ بھی نہ رہا یاد 


کیا لطف اٹھائے گا جہان گزراں کا

وہ شخص کہ جس شخص کو رہتی ہو قضا یاد


ہم کاگ اڑا دیتے ہیں بوتل کا اسی وقت

گرمی میں بھی آ جاتی ہے جب کالی گھٹا یاد


محشر میں بھی ہم تیری شکایت نہ کریں گے

آ جائے گی اس دن بھی ہمیں شرط وفا یاد


پی لی تو خدا ایک تماشا نظر آیا

آیا بھی تو آیا ہمیں کس وقت خدا یاد


اللہ ترا شکر کہ امید کرم ہے

اللہ ترا شکر کہ اس نے بھی کیا یاد


کل تک ترے باعث میں اسے بھولا ہوا تھا

کیوں آنے لگا پھر سے مجھے آج خدا یاد


دوارکا داس شعلہ


کرم حیدری

 یوم پیدائش 12اگست 1915


میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے

اک قہقہہ لگایا گزرتی بہار نے


گزرا ہوں جب سلگتے ہوئے نقش چھوڑتا

دیکھا ہے مجھ کو غور سے ہر رہ گزار نے


میکش نے جام زہر ہی منہ سے لگا لیا

پاگل بنا دیا جو نشے کے اتار نے


انسان حد‌ نور سے آگے نکل گیا

چھوڑا مگر نہ اس کو لہو کی پکار نے


ان مہ رخوں کی ہم سے جو یہ بے رخی رہی

جانا پڑے گا چاند پہ کچھ دن گزارنے


کرتے ہیں وہ ستارے بھی اب مجھ پہ چشمکیں

چمکا دیا جنہیں مری شب ہائے تار نے


ان گل کدوں کو بھی کوئی اے کاش دیکھتا

جھلسا ہے جن کو آتش فصل بہار نے


لاؤں کہاں سے ان کے لیے اور غم گسار

جو غم دئے ہیں مجھ کو مرے غم گسار نے


میری سرشت میں تھی محبت کی پرورش

مجھ کو قلم دیا مرے پروردگار نے


بخشا ہے اپنے حسن کا پرتو مجھے کرمؔ

فطرت کے ہر جمیل و حسیں شاہکار نے


کرم حیدری


وحید اختر

 یوم پیدائش 12 اگست 1935


اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے

سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے 


جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی

نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے


جو دیکھنا ہو تو آئینہ خانہ ہے یہ سکوت

ہو آنکھ بند تو اک نقش بھی دکھائی نہ دے 


یہ روحیں اس لیے چہروں سے خود کو ڈھانپے ہیں

ملے ضمیر تو الزام بے وفائی نہ دے


کچھ ایسے لوگ بھی تنہا ہجوم میں ہیں چھپے

کہ زندگی انہیں پہچان کر دہائی نہ دے


ہوں اپنے آپ سے بھی اجنبی زمانے کے ساتھ

اب اتنی سخت سزا دل کی آشنائی نہ دے


سبھی کے ذہن ہیں مقروض کیا قدیم و جدید

خود اپنا نقد دل و جاں کہیں دکھائی نہ دے 


بہت ہے فرصت دیوانگی کی حسرت بھی

وحیدؔ وقت گر اذن غزل سرائی نہ دے


وحید اختر


جمیل ملک

 یوم پیدائش 12اگست 1928


رستے میں لٹ گیا ہے تو کیا قافلہ تو ہے

یارو نئے سفر کا ابھی حوصلہ تو ہے


واماندگی سے اٹھ نہیں سکتا تو کیا ہوا

منزل سے آشنا نہ سہی نقش پا تو ہے


ہاتھوں میں ہاتھ لے کے یہاں سے گزر چلیں

قدموں میں پل صراط سہی راستا تو ہے


مانگے کی روشنی تو کوئی روشنی نہیں

اس دور مستعار میں اپنا دیا تو ہے


یہ کیا ضرور ہے میں کہوں اور تو سنے

جو میرا حال ہے وہ تجھے بھی پتا تو ہے


اپنی شکایتیں نہ سہی تیرا غم سہی

اظہار داستاں کا کوئی سلسلہ تو ہے


ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے

وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے


وہ آئے یا نہ آئے ملاقات ہو نہ ہو

رنگ سحر کے پاس خرام صبا تو ہے


پاؤں کی چاپ سے مری دھڑکن ہے ہم نوا

اس دشت ہول میں کوئی نغمہ سرا تو ہے


سورج ہمارے گھر نہیں آیا تو کیا ہوا

دو چار آنگنوں میں اجالا ہوا تو ہے


کانٹا نکل بھی جائے گا جب وقت آئے گا

کانٹے کے دل میں بھی کوئی کانٹا چبھا تو ہے


میں ریزہ ریزہ اڑتا پھروں گا ہوا کے ساتھ

صدیوں میں جھانک کر بھی مجھے دیکھنا تو ہے


آشوب آگہی کی شب بے کنار میں

تیرے لیے جمیلؔ کوئی سوچتا تو ہے


جمیل ملک


ادہم گوونڈی

 یوم پیدائش 10 اگست 


موسلا دھار ہے برسات چلے آؤ اب

مان بھی جاؤ مِری بات چلے آؤ اب 


آپ سے بچھڑے ہوئے بیت گیا ایک برس

آپ سے کر لوں ملاقات چلے آؤ اب


ہجر کے دن کو شبِ وصل میں تبدیل کرو

سرد پڑ جائیں نہ جذبات چلے آؤ اب


مشورہ دیجیے دل کو میں سنبھالوں کیسے

چاہتا ہے یہ خرافات چلے آؤ اب


اب نہ تڑپاؤ، تمھیں اس رخ زیبا کی قسم

منتظر رہتا ہوں دن رات چلے آؤ اب


آسرا ہے مجھے بس آپ کا میرے ادہمؔ 

 ہر طرف ہیں مِرے صدمات چلے آؤ اب

 

 ادہمؔ گونڈوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...