یوم پیدائش 17 اگست 1849
سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو
پھانسی چڑھے جو قیدی زلف رسا نہ ہو
مضموں وہ کیا جو لذت غم سے بھرا نہ ہو
شاعر وہ کیا کلام میں جس کے مزا نہ ہو
بد نام میرے واسطے وہ دل ربا نہ ہو
یارب عدو کے ہاتھ سے میری قضا نہ ہو
جب اپنی کوئی بات بغیر از دعا نہ ہو
دشمن کے کہنے سننے سے ناداں خفا نہ ہو
ہو وہ اگر خلاف موافق ہوا نہ ہو
ڈوبے وہ ناؤ جس کا خدا ناخدا نہ ہو
دلدادگی کو حسن خداداد کم نہیں
ناصح اگر نہیں ہے بتوں میں وفا نہ ہو
روز جزا وہ شوخ ملے ہم کو اے خدا
اس کے سوا کچھ اور عدو کی سزا نہ ہو
مشکل کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہاریے
ہمت ہے شرط صاحب ہمت سے کیا نہ ہو
بت آذران وقت بنائیں اگر ہزار
تیرا نظیر ایک بھی نام خدا نہ ہو
دھوکے میں میرے قتل کیا اس نے غیر کو
قاتل کا کیا قصور جو میری قضا نہ ہو
سچ ہے کہ ہر کمال کو دنیا میں ہے زوال
ایسا بڑا ہے کون جو آخر گھٹا نہ ہو
روز جزا سے واعظ ناداں اسے ڈرا
صدمہ شب فراق کا جس نے سہا نہ ہو
ملتا نہیں پتا ترے چھلے کے چور کا
اے گل بدن یہ شوخی دزد حنا نہ ہو
تیرا گلہ نہ غیر کا شکوہ زباں پہ ہے
کرتا ہوں عرض حال ستم گر خفا نہ ہو
پاتے ہیں کج سرشت جزا اپنے فعل کی
کہتی ہے راستی کہ برے کا بھلا نہ ہو
بلبل نہ پھول خندۂ صبح بہار پر
ناداں کہیں یہ خندۂ دنداں نما نہ ہو
تیری زباں پہ آئے اگر حرف التیام
کیوں کر شکست دل کے لئے مومیا نہ ہو
غافل مریض عشق کی تو نے خبر نہ لی
تھا غیر اس کا حال وہ اب تک ہو یا نہ ہو
شرمندہ اے کریم نہ ہوں عاشقوں میں ہم
پرسش ہمارے قتل کی روز جزا نہ ہو
کرتا ہے اے اثرؔ دل خوں گشتہ کا گلہ
عاشق وہ کیا کہ خستۂ تیغ جفا نہ ہو
امداد امام اثرؔ