Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

آزاد انصاری

 یوم پیدائش 12 اکتوبر 1871


حق بنا باطل بنا ناقص بنا کامل بنا

جو بنانا ہو بنا لیکن کسی قابل بنا


شوق کے لائق بنا ارمان کے قابل بنا

اہل دل بننے کی حسرت ہے تو دل کو دل بنا


عقدہ تو بے شک کھلا لیکن بہ صد دقت کھلا

کام تو بے شک بنا لیکن بہ صد مشکل بنا


جب ابھارا ہے تو اپنے قرب کی حد تک ابھار

جب بنایا ہے تو اپنے لطف کے قابل بنا


سب جہانوں سے جدا اپنا جہاں تخلیق کر

سب مکانوں سے جدا اپنا مکان دل بنا


پھر نئے سر سے جنون قیس کی بنیاد رکھ

پھر نئی لیلیٰ بنا ناقہ بنا محمل بنا


یہ تو سمجھے آج آزادؔ ایک کامل فرد ہے

یہ نہ سمجھے ایک ناقص کس طرح کامل بنا


آزاد انصاری


اختر سعید خان

 یوم پیدائش 12 اکتوبر 1923


زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے

یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے


راستے چپ ہیں نسیم سحری بھی چپ ہے

جانے کس سمت گئے ٹھوکریں کھانے والے


اجنبی بن کے نہ مل عمر گریزاں ہم سے

تھے کبھی ہم بھی ترے ناز اٹھانے والے


آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا

مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے


ہم تو اک دن نہ جیے اپنی خوشی سے اے دل

اور ہوں گے ترے احسان اٹھانے والے


دل سے اٹھتے ہوئے شعلوں کو کہاں لے جائیں

اپنے ہر زخم کو پہلو میں چھپانے والے


نکہت صبح چمن بھول نہ جانا کہ تجھے

تھے ہمیں نیند سے ہر روز جگانے والے


ہنس کے اب دیکھتے ہیں چاک گریباں میرا

اپنے آنسو مرے دامن میں چھپانے والے


کس سے پوچھوں یہ سیہ رات کٹے گی کس دن

سو گئے جا کے کہاں خواب دکھانے والے


ہر قدم دور ہوئی جاتی ہے منزل ہم سے

راہ گم کردہ ہیں خود راہ دکھانے والے


اب جو روتے ہیں مرے حال زبوں پر اخترؔ

کل یہی تھے مجھے ہنس ہنس کے رلانے والے


اختر سعید خان


ندا فاضلی

 یوم پیدائش 12 اکتوبر 1938


ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے


ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں

آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے


بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری

جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے


ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے


ندا فاضلی 


ہاجرہ نور زریاب

 شاہانہ وصف جب سے سکندر میں آگیا

دنیا پہ قبضہ اس کے مقدرمیں آگیا


دانا ہے جس نے وقت کو چکرکھلا دیے

ناداں ہے جو کہ وقت کے چکرمیں آگیا


دریا سے اب نکل کے تلاطم سےکھیلوں گی

اچھا ہواسفینہ سمندر میں آگیا


کتنی ہی دعوتیں دیں مگر وہ نہ آسکا

اب اتفاق سے وہ مرے گھرمیں آگیا


بے بس تھا اسقدرکہ صفائی نہ دے سکا

"دستک دیے بغیر مرے گھرمیں آگیا"


اس عشق نے عجب سا کرشمہ دکھادیا

یہ میرا دل جہانِ سخنورمیں آگیا


یہ حسن وعشق لازم وملزوم ہی تو ہیں

یہ راز کائنات کے منظر میں آگیا


اک شخص غیرہوکےبھی اپناسالگتاہے

زریاؔؔب کی تمناکےپیکر میں آگیا


ہاجرہ نور زریاب 


عبید الرحمان

 یوم پیدائش 11 اکتوبر 1965


سوچ رہا ہوں کس سیاہی سے آج کے میں حالات لکھوں

کیسے کرلوں دل پتھر کا کیسے میں جذبات لکھوں


قتل و غارت ، عصمت ریزی ،چوری ڈاکہ، خونی کھیل

آج کے دور کے انسانوں کے کیا کیا میں عادات لکھوں


چہرہ چہرہ ایک کھنڈر ہے آنکھوں میں ہے ویرانی

کس چہرے پر کن آنکھوں پر میں اپنے نغمات لکھوں


آنگن آنگن خون کے چھینٹے چہرہ چہرہ بے چہرہ

کس کس کا ذکر کروں میں کس کس کے صدمات لکھوں


دشمن کو کیا دوست لکھوں میں قاتل کو لکھوں معصوم

زخم ملے ہیں جتنے مجھ کو کیا ان کو سوغات لکھوں


دل کو توڑا ، ذہن کو موڑا ،آگ لگا دی گھر گھر میں

اپنی نسل کی خاطر ان کی کیا کیا میں خدمات لکھوں 


عبید الرحمان 


کرشن کمار طور

 یوم پیدائش 11 اکتوبر 1933


ایک دیا دہلیز پہ رکھا بھول گیا

گھر کو لوٹ کے آنے والا بھول گیا


یہ کیسی بے آب زمیں کا سامنا تھا

خود کو قطرہ قطرے کو دریا بھول گیا


میں تو تھا موجود کتاب کے لفظوں میں

وہ ہی شاید مجھ کو پڑھنا بھول گیا


کس کے جسم کی بارش نے سیراب کیا

کیوں اڑنا موسم کا پرندہ بھول گیا


آخر یہ ہونا تھا آخر یہی ہوا

دنیا مجھ کو اور میں دنیا بھول گیا


میں بھی ہوں منسوب کسی کے قتل سے اب

سورج میری چھت پہ چمکنا بھول گیا


وفا کا کھوٹا سکہ کب تک چلتا طورؔ 

اچھا ہوا جو اپنا پرایا بھول گیا


کرشن کمار طورؔ


کلیم عاجز

 یوم پیدائش 11 اکتوبر 1924


میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو

مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو


دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو


ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام

پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو


ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے

ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو


یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو

جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو


دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو


بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے

دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو


کلیم عاجز


افضل خان

 یوم پیدائش 10 اکتوبر 1975


زیست کے عجب مسائل ہیں حل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں کاندھے بوجھ کی شدت سے شل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں


 اک شب کی چوپال میں کیسے عمر کا نقشہ کھینچیں ہم

 یہ قصے تو یار مکمل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں

 

ہجر کا موسم پت جھڑ جیسا جاتے جاتے جاتا ہے

کرب کے منظر آنکھ سے اوجھل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں


عشق شریعت ہے اور اس کو عقل سے کوئی کام نہیں

پاگل ہیں وہ لوگ جو پاگل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں


لوگ ہی اتنے تھے دل کو خالی ہونے میں وقت لگا

ہنستے بستے شہر بھی جنگل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں


اپنے نام کے پیمانے سے ناپ نہیں اپنے قد کو

لوگ تو اس میدان میں افضل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں


افضل خان


ساجد محمود رانا

 یوم پیدائش 10 اکتوبر


نگینے یونہی مٹی میں ملا کر پھینک دیتے ہیں

ہم اپنے شعر لوگوں کو سنا کر پھینک دیتے 


رعایا تو فقط غم سے یہاں دوچار ہوتی ہے

یہاں حاکم خوشی ہر اک دکھا کر پھینک دیتے ہیں


ستم تو دیکھ اس شہرِ سخن میں ہم ہوئے پیدا

جہاں دیوان چولہوں میں جلا کر پھینک دیتے ہیں 


وہی محبوب جو دل میں بٹھا کر تم کو رکھتے ہیں 

ّوہی محبوب اک دن پھر اٹھا کر پھینک دیتے

 ہیں


یونہی تو بن نہیں جاتے پہاڑوں کے سلاسل بھی

زمیں کی گود کو بنجر بنا کر پھینک دیتے ہیں


گل و گلزار ہوتے ہیں نہیں ہوتے خدا جانے

مگر دہقان بیجوں کو اٹھا کر پھینک دیتے ہیں


جو پیلے زرد پتے بوجھ بن جائیں انہیں ساجد

شجر کمزور شاخوں سے ہلا کر پھینک دیتے ہیں


ساجد محمود رانا


معین شاداب

 یوم پیدائش 10 اکتوبر


کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں 

یہ سنگ ریزے پلک سے اٹھانے پڑتے ہیں 


بہت سے درد تو ہم بانٹ بھی نہیں سکتے 

بہت سے بوجھ اکیلے اٹھانے پڑتے ہیں 


یہ بات اس سے پتا کر جو عشق جانتا ہو 

پلوں کی راہ میں کتنے زمانے پڑتے ہیں 


ہر ایک پیڑ کا سایا نہیں ملا کرتا 

بلا غرض بھی تو پودے لگانے پڑتے ہیں 


کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے 

یہ کپڑے کمرے کے اندر سکھانے پڑتے ہیں 


کہاں سے لاؤ گے تم اس قدر جبین نیاز 

قدم قدم پہ یہاں آستانے پڑتے ہیں


معین شاداب


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...