Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

امیر حمزہ ثاقب

 یوم پیدائش 13 نومبر


پانی برسا تھا کہیں آگ کہیں چھائی تھی

خاک چھانی تھی جہاں، خاک وہیں چھائی تھی


آسماں روند دیے پاؤں میں کتنے ہی مگر

اب کہ اپنے سروں پر ایک زمیں چھائی تھی


طعنہ زن رہتے تھے جس پر سبھی منبر والے

ہندو بستی میں وہی ماہ جبیں چھائی تھی


جیسے سیاروں کا سورج کے ہے اطراف حصار

گھر کے مالک پہ اسی طرح مکیں چھائی تھی


اس کے چہرے سے چھلکتا تھا کئی حوروں کا حسن

اس کے سینے کے قریں خلدِ بریں چھائی تھی


مجھ کو معلوم تھی اول سے حقیقت اس کی

سو مرے ذہن پہ اک پل بھی نہیں چھائی تھی


چاہتے تھے جو اگا لیتے تھے آسانی سے

اپنے اطراف میں زرخیز زمیں چھائی تھی


حمزہ میر


Sunday, October 31, 2021

عالم فیضی

 مجھ کو مل کے قرار تم سے ہے

رخ پہ سارا نکھار تم سے ہے 


دیکھ کر الفتوں کی سر شاری

دل و جاں اب فگار تم سے ہے 


 غم نہیں مجھ کو اب ذرا کچھ بھی

میرا سارا وقار تم سے ہے


خستہ دل اب کبھی نہیں ہوں گا

رو کا سارا خمار تم سے ہے

  

سن لو اب پھر سے کہہ رہا ہوں میں 

چین تم سے قرار تم سے ہے

 

بن گیے جب سے راہ رو میرے

تب سے سارا ہی پیار تم سے ہے 


خوب دل بستگی کرو عالم 

بزم میں سب بہار تم سے ہے


عالم فیضی


#شعراء #اردودکن #urdudeccan


عابد حسین عابد

 خدا وندا عجب جلوہ گری ہے

ترا مسکن مرے دل کی گلی ہے


تری ہستی برنگِ مُشتری ہے

مری پُر آبلے سی زندگی ہے


تری تاریک شب میں روشنی ہے 

مرے دن میں اجالے کی کمی ہے


گُماں غالب ترا تو کوثری ہے

مرے لب پر وہی اک تشنگی ہے


تری تخلیق کاری گُن بھری ہے

مری پیکر تراشی شاعری ہے


عابد حسین عابد


عادل راہی

 یوم پیدائش 07 اکتوبر


کون ہے اپنا کون پرایا ہوتا ہے

چہرے سے تو اکثر دھوکا ہوتا ہے 


جانے کیسے نزدیکی بڑھ جاتی ہے 

جب جب ہم دونوں میں جھگڑا ہوتا ہے 


دل کی باتیں دل میں ہی رہ جاتی ہے 

ہونٹوں پر بس نام تمھارا ہوتا ہے 


آ نکھ میں آنسو کس کو اچھے لگتے ہیں 

رونے سے تو بس من ہلکا ہوتا ہے 


لے دے کر اک تم تھے تم سے بنتی تھی 

دنیا سے تو روز ہی جھگڑا ہوتا ہے 


ہر مشکل آسان سی لگنے لگتی ہے 

جب جب میرا ساتھ تمھارا ہوتا ہے 


چہرے کی مسکان بتاتی ہے راہؔی

ہنسنے والا کتنا تنہا ہوتا ہے 


عادل راہؔی


سید نوید جعفری حیدرآباد دکن

 نہ جانے ذکر وفا آج کس نے چھیڑ دیا 

ترا خیال ستاتا ہے باربار مجھے 

رفیق جاں ہے مرا درد بے کراں ہی نوید 

دوا کے ذکر سے کیجے نہ شرمسار مجھے

سید نوید جعفری 

حیدرآبا


د دکن

راج نرائن راز

 یوم پیدائش 27 اکتوبر 1930


کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا

پیڑ پھل دار میں اک راہ گزر کا ہوتا


اپنی آواز کے جادو پہ بھروسا کرتے

مور جو نقش تھا دیوار پہ ناچا ہوتا


ایک ہی پل کو ٹھہرنا تھا منڈیروں پہ تری

شام کی دھوپ ہوں میں کاش یہ جانا ہوتا


ایک ہی نقش سے سو عکس نمایاں ہوتے

کچھ سلیقے ہی سے الفاظ کو برتا ہوتا


لذتیں قرب کی اے رازؔ ہمیشہ رہتیں

شاخ صندل سے کوئی سانپ ہی لپٹا ہوتا


راج نرائن راز


جاوید شاہین

 یوم پیدائش 28 اکتوبر 1922


زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد

مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد


میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی

سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد


کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں

کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مکر جانے کے بعد


مل رہا ہے صبح کے تارے سے جاتا ماہتاب

رات کے تاریک زینے سے اتر جانے کے بعد


کیا کروں آخر چلانا ہے مجھے کار جہاں

جمع خود کو کر ہی لیتا ہوں بکھر جانے کے بعد


زخم اک ایسا ہے جس پر کام اب کرتا نہیں

وقت کا مرہم ذرا سا کام کر جانے کے بعد


چپ ہیں یوں چیزیں کہ کھل کر سانس بھی لیتی نہیں

جیسے اک صدمے کی حالت میں ہوں ڈر جانے کے بعد


ہیں نواح دل میں شاہیںؔ کچھ نشیبی بستیاں

ڈوبتا رہتا ہوں ان میں پانی بھر جانے کے بعد


جاوید شاہین


لال جی پانڈے انجان

 یوم پیدائش 28 اکتوبر 1930


کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے

جیسے شمع سے کہیں لو یہ جھلملا کے ملے

کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے

جیسے ساون سے کہیں پیاسی گھٹا چھا کے ملے


بعد مدت کے رات مہکی ہے

دل دھڑکتا ہے، سانس بہکی ہے

پیار چھلکا ہے پیاسی آنکھوں سے

سرخ ہونٹوں پہ آگ دہکی ہے

مہکی ہواؤں میں، بہکی فضاؤں میں، دو پیاسے دل یوں ملے

جیسے مےکش کوئی ساقی سے ڈگمگا کے ملے


دور شہنائی گیت گاتی ہے

دل کے تاروں کو چھیڑ جاتی ہے

یوں سپنوں کے پھول یہاں کھلتے ہیں

یوں دعائیں دل کی رنگ لاتی ہیں

برسوں کے بیگانے، الفت کے دیوانے، انجانے ایسے ملے

جیسے من چاہی دعائیں، برسوں آزما کے ملے


لال جی پانڈے انجان


اسلم فرخی

 یوم پیدائش 23 اکتوبر 1923


زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا

وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا


خود اسے بھی نہیں معلوم ہے منزل اپنی

جانے والے سے نہ پوچھو وہ کدھر جائے گا


آج اندھیرا ہے تو کل کوئی چراغ امید

مطلع وقت پہ سورج سا نکھر جائے گا


اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر دار و رسن

دل وہ دیوانہ کہ جائے گا مگر جائے گا


کوئی منزل نہیں باقی ہے مسافر کے لیے

اب کہیں اور نہیں جائے گا گھر جائے گا


کوئے قاتل میں تہی دست کو جا ملتی نہیں

جو بھی جائے گا لیے ہاتھ میں سر جائے گا


کتنی تاریکی ہے شہر دل و جاں پر طاری

کوئی اندازہ نہیں کون کدھر جائے گا


ایک گلدستہ بنایا تھا پئے راحت جاں

اب یہ اندیشہ ہے ہر پھول بکھر جائے گا


ایک دن ایسا بھی قسمت سے ملے جب اسلمؔ

رقص کرتا ہوا محبوب نگر جائے گا


اسلم فرخی


علیم اطہر

 یوم پیدائش 27 اکتوبر


سر کو کھجائیں کیا نہ ملے جو فراغ بھی

 شیشہ پئیں کہ دیکھتے رقصِ ایاغ بھی


دل، چل پڑا ھے اپنے ہی نقشِ قدم پہ یوں

 چھوڑا ھے دشت اور ملا سبز باغ بھی


آنکھوں نے دلفریب حسینہ سکین کی

کتّوں نے سونگھ سونگھ کے لینا سراغ بھی


حاسد، کمینہ، عیب جُو پہلے ذرا سا تھا

شہرت نے، شاعری نے، کیا بددماغ بھی


پہلے تھا داغ دل میں، گناہوں کا بار تھا

صد شکر بڑھ چلا ھے یہ ماتھے پہ داغ بھی


نوبت کبھی نہ آتی، میں جاؤں خدا کے گھر

سیلفی کے شوق میں ہی جلائے چراغ بھی


علیم اطہر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...