Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

عطا شاد

 یوم پیدائش 01 نومبر 1939


بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو

یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو


بڑے فریب کھاؤ گے بڑے ستم اٹھاؤ گے

یہ عمر بھر کا ساتھ ہے نبھا سکو تو ساتھ دو


جو تم کہو یہ دل تو کیا میں جان بھی فدا کروں

جو میں کہوں بس اک نظر لٹا سکو تو ساتھ دو


میں اک غریب بے نوا میں اک فقیر بے صدا

مری نظر کی التجا جو پا سکو تو ساتھ دو


ہزار امتحان یہاں ہزار آزمائشیں

ہزار دکھ ہزار غم اٹھا سکو تو ساتھ دو


یہ زندگی یہاں خوشی غموں کا ساتھ ساتھ ہے

رلا سکو تو ساتھ دو ہنسا سکو تو ساتھ دو


عطا شاد


حارث علی

 یوم پیدائش 01 نومبر


نہ بچا بچا کے نگاہ رکھ، یہ رُخِ کمال تو دیکھ لے 

میں ترے ہی حُسن کی مثل ہوں، تُو مرا جمال تو دیکھ لے


دمِ قتل آنکھوں کو پھیر کر ، رکھی تیغ اس نے جو حلق پر

میں یہ چیختا ہی رہا وہاں مرا انتقال تو دیکھ لے


بھلے بیچ ربّ کو تُو سامری بھلے قومِ موسی تباہ کر 

نہ کلیم پلٹے گا طُور سے کہ وہ ذُوالجلال تو دیکھ لے


بلا اضطراب ہے شیخ پر دمِ حشر حُور کی دید کا

کہے کوئی ان کو کہ شرم کر ابھی ذوالجلال تو دیکھ لے


کہ یہ راہِ یار وہ موت ہے ، جہاں آفتیں ہی ہزار ہیں 

اے پیامبر یُوں سنبھل کے چَل کہ عدُو کے جال تو دیکھ لے


دمِ خلق شوخی بلا کی ہے وہ خدا کو دیتے ہیں مشورہ 

یوں تراش میرے جمال کو ، مرے خد و خال تو دیکھ لے 


ترے وقت وَصل بھی زیرِ لب ہے غَضب فِراق کی گُفتگُو 

تُجھے کیا پڑی ہے فِراق کی کہ ابھی وِصال تو دیکھ لے


سرِ طُور پھینک کے بَرق کو تُو کہاں چلا ہے؟ ٹھہر ذرا

اسی غش کے ردِ عمل میں موسی کی تُو دھمال تو دیکھ لے


حارث علی


شاہد انجم

 یوم پیدائش 01 نومبر 1964


ہر ایک قطرہء خوں آفتاب کرنا ہے

ستم کی رات کا پورا حساب کرنا ہے


تمہیں تو کھیت ملے ہیں زراعتوں کیلئے

ہمیں تو آگ میں پیدا گلاب کرنا ہے


پرندے بھیگے پروں سے اڑان بھرتے ہیں

ہمیں بھی سچ تری آنکھوں کا خواب کرنا ہے


ہماری راہ میں کانٹے بچھے ہوئے ہیں مگر

محبتوں کا سفر کامیاب کرنا ہے


مرے حریف کو تیزاب سے نہیں مطلب

اسے تو بس مرا چہرہ خراب کرنا ہے


شاہد انجم


اصغر شمیم

 یوم پیدائش 01 نومبر 


کٹ گیا ہوں میں سارے رشتوں سے 

دور رہنے لگا ہوں اپنوں سے


زندگی کے اداس آنگن میں

دل بہلتا ہے اپنے بچوں سے


اکسرے میں نظر نہیں آئے

زخم دل پر لگے جو اپنوں سے


وقت کی مار سب نے کھائی ہے

مل کے آیا ہوں اچھے اچھوں سے


گرد اصغر بتا رہی ہے یہی

کوئی گزرا ہے ان ہی رستوں سے


اصغر شمیم


بانو طاہر سعید

 یوم پیدائش 01 نومبر 1922


خاموش ہیں خاموش مگر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں


تاریک فضاؤ میں بھی جگنو کوئی چمکا

آج اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ رہے ہیں


کیا بات ہے کیا راز بنے کیا ہو گیا آخر

کیوں آپ کو با دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں


خود موت سے ٹکرانے کا جن کو ہے سلیقہ

مر کے بھی وہ اپنے کو امر دیکھ رہے ہیں


دیکھا نہ ہمیں مڑ کے بھی اک بار کسی نے

ہم شوق سے تا حد نظر دیکھ رہے ہیں


کیا جانئے اس راہ سے کب ان کا گزر ہو

مدت سے مگر راہ گزر دیکھ رہے ہیں


بانو طاہرہ سعید


طلال جمیل قاضی

 یوم پیدائش 31 اکتوبر


یادیں کسی کی پہلو میں نشتر چبھو گئیں

بھیگی نہ تھیں کبھی جو وہ پلکیں بھگو گئیں


ایسی ہوا چلی غمِ دوراں کی دوستو

شمعیں جو ان کی یاد کی دل میں تھیں، سو گئیں


کچھ خواہشیں جو بن گئیں مابعد حسرتیں

وہ بیج کشتِ زیست میں غم ہی کے بو گئیں


اب تو فریبِ لذتِ تعبیر بھی نہیں

آنکھیں ہی دامِ خواب سے آزاد ہو گئیں


بوندیں تھیں گرچہ مے کی مگر میرے دوستو

سب داغ ہائے غم مِرے دل سے وہ دھو گئیں


کاوش کہو یا سازشیں تخلیق کی کہ جو

بحرِ غمِ حیات میں ہم کو ڈبو گئیں


طلال جمیل قاضی


عارف شفیق

 یوم پیدائش 31 اکتوبر 1956


جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی

تو پھر یہ جان کہ تو نے پیمبری کر لی


تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر

ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی


پہنچ گیا ہوں میں منزل پہ گردش دوراں

ٹھہر بھی جا کہ بہت تو نے رہبری کر لی


جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی

مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی


جو سچی بات تھی وہ میں نے برملا کہہ دی

یوں اپنے دوستوں سے میں نے دشمنی کر لی


مشینی عہد میں احساس زندگی بن کر

دکھی دلوں کے لیے میں نے شاعری کر لی


غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی


عارف شفیق




سارا شگفتہ

 یوم پیدائش 31 اکتوبر 1954

نظم عورت اور نمک


عزت کی بہت سی قسمیں ہیں 

گھونگھٹ تھپڑ گندم 

عزت کے تابوت میں قید کی میخیں ٹھونکی گئی ہیں 

گھر سے لے کر فٹ پاتھ تک ہمارا نہیں 

عزت ہمارے گزارے کی بات ہے 

عزت کے نیزے سے ہمیں داغا جاتا ہے 

عزت کی کنی ہماری زبان سے شروع ہوتی ہے 

کوئی رات ہمارا نمک چکھ لے 

تو ایک زندگی ہمیں بے ذائقہ روٹی کہا جاتا ہے 

یہ کیسا بازار ہے 

کہ رنگ ساز ہی پھیکا پڑا ہے 

خلا کی ہتھیلی پہ پتنگیں مر رہی ہیں 

میں قید میں بچے جنتی ہوں 

جائز اولاد کے لئے زمین کھلنڈری ہونی چاہئے 

تم ڈر میں بچے جنتی ہو اسی لئے آج تمہاری کوئی نسل نہیں 

تم جسم کے ایک بند سے پکاری جاتی ہو 

تمہاری حیثیت میں تو چال رکھ دی گئی ہے 

ایک خوب صورت چال 

چھوٹی مسکراہٹ تمہارے لبوں پہ تراش دی گئی ہے 

تم صدیوں سے نہیں روئیں 

کیا ماں ایسی ہوتی ہے 

تمہارے بچے پھیکے کیوں پڑے ہیں 


تم کس کنبے کی ماں ہو 

ریپ کی قید کی بٹے ہوئے جسم کی 

یا اینٹوں میں چنی ہوئی بیٹیوں کی 

بازاروں میں تمہاری بیٹیاں 

اپنے لہو سے بھوک گوندھتی ہیں 

اور اپنا گوشت کھاتی ہیں 

یہ تمہاری کون سی آنکھیں ہیں 

یہ تمہارے گھر کی دیوار کی کون سی چنائی ہے 

تم نے میری ہنسی میں تعارف رکھا 

اور اپنے بیٹے کا نام سکہ رائج الوقت 


آج تمہاری بیٹی اپنی بیٹیوں سے کہتی ہے 

میں اپنی بیٹی کی زبان داغوں گی 

لہو تھوکتی عورت دھات نہیں 

چوڑیوں کی چور نہیں 

میدان میرا حوصلہ ہے 

انگارہ میری خواہش 


ہم سر پہ کفن باندھ کر پیدا ہوئے ہیں 

کوئی انگوٹھی پہن کر نہیں 

جسے تم چوری کر لو گے


سارا شگفتہ


علامہ اقبال

 یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی

کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی


تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے

جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی


نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تُو نے

مجھے کیا گِلہ ہو تجھ سے، تُو نہ رہ‌نشیں نہ راہی


مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیرِ تربیت ہیں

وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسمِ کجکلاہی


یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر

کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی


تُو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مُرغ و ماہی


تُو عَرب ہو یا عجَم ہو، ترا ’ لَا اِلٰہ اِلاَّ‘

لُغَتِ غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی


علامہ اقبال


امیر حمزہ ثاقب

 یوم پیدائش 13 نومبر


پانی برسا تھا کہیں آگ کہیں چھائی تھی

خاک چھانی تھی جہاں، خاک وہیں چھائی تھی


آسماں روند دیے پاؤں میں کتنے ہی مگر

اب کہ اپنے سروں پر ایک زمیں چھائی تھی


طعنہ زن رہتے تھے جس پر سبھی منبر والے

ہندو بستی میں وہی ماہ جبیں چھائی تھی


جیسے سیاروں کا سورج کے ہے اطراف حصار

گھر کے مالک پہ اسی طرح مکیں چھائی تھی


اس کے چہرے سے چھلکتا تھا کئی حوروں کا حسن

اس کے سینے کے قریں خلدِ بریں چھائی تھی


مجھ کو معلوم تھی اول سے حقیقت اس کی

سو مرے ذہن پہ اک پل بھی نہیں چھائی تھی


چاہتے تھے جو اگا لیتے تھے آسانی سے

اپنے اطراف میں زرخیز زمیں چھائی تھی


حمزہ میر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...