Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

فضل احمد کریم فضلی

 یوم پیدائش 04 نومبر 1906


اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں

بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں


پھر وہی جاگنا ہے دن کی طرح

رات ہے اور جیسے رات نہیں


بات اپنی تمہیں نہ یاد رہی

خیر جانے دو کوئی بات نہیں


کچھ نہیں ہے تو یاد ہے ان کی

ان سے ترک تعلقات نہیں


پھر بھی دل کو بڑی امیدیں ہیں

گو بہ ظاہر توقعات نہیں


عشق ہوتا ہے خود بہ خود پیدا

عشق کے کچھ لوازمات نہیں


ایسے فضلیؔ کے شعر کم ہوں گے

جن میں کچھ دل کی واردات نہیں


فضل احمد کریم فضلی


ریاض حازم

 اپنے مطلب کو ناچتی دنیا

سنگ دل بے وفا بری دنیا


ہم نے برباد کر دیا سب کچھ

اپنی پھر بھی نہ ہو سکی دنیا


میرے جیسا ہی لگتا ہے تو مجھے

کیا تری بھی نہیں رہی دنیا


پہلے شاید نہ ایسے ہوتی ہو

اب بھلے کی نہیں رہی دنیا


میں نہ کہتا تھا عارضی ہے میاں

اب بتاؤ کہاں گئی دنیا


ریاض حازم


سمیع احمد ثمر

 لوگ جب اپنے خیالات بدل دیتے ہیں

یک بیک ملک کے حالات بدل دیتے ہیں


دورِ مشکل کا کریں سامنا جو ہمت سے

شادمانی میں وہ صدمات بدل دیتے ہیں


ایک پہچان یہی دیکھی ہے کم ظرفوں میں

رُت کی مانند یہ جذبات بدل دیتے ہیں


سامنا جب بھی ہوا ان سے کسی محفل میں

اپنی آنکھوں سے اشارات بدل دیتے ہیں


پائی جاتی ہے حسینوں میں یہ فطرت یارو

یہ جدائی میں ملاقات بدل دیتے ہیں


ایسے لوگوں پہ بھلا کیسے بھروسہ کر لیں

بات ہی بات میں جو بات بدل دیتے ہیں


اپنے چہرے سے وہ گیسو کو ہٹا کر اے ثمر

نا گہاں دن میں ہی وہ رات بدل دیتے ہیں


سمیع احمد ثمرؔ


علی جمیل

 آس تجھ سے لگائے بیٹھے ہیں

تیرے محبوس کتنے سادے ہیں


جانے والے تری جدائی میں

اک تسلسل سے اشک بہتے ہیں


آپ کی بات کون ٹالے گا ؟

آپ کے ہونٹ اتنے پیارے ہیں


میری آنکھوں میں وہ نمی کا سبب

خاک سمجھے تھے خاک سمجھے ہیں


تیری آنکھوں کی خیر ہو مرے دوست

میری غزلوں کے خوب چرچے ہیں


اور تو کچھ نہیں ہوا ہے جمیل

یہی دو چار خواب ٹوٹے ہیں


علی جمیل


سید فضل گیلانی

 یوم پیدائش 03 نومبر 1977


بدن کی رمز سمجھ , رُوح کا اشارہ سمجھ

مجھے سمجھ , نہ سمجھ , دُکھ مِرا خدارا سمجھ


تجھے ہم اور کسی کا نہ ہونے دیں گے کبھی

تُو بھا گیا ہے ہمیں , خود کو اب ہمارا سمجھ


جو تِیرگی میں تجھے کچھ دِکھائی دیتا نہیں 

سمجھ میں آئے تو اِس کو بھی اک نظارہ سمجھ


نہیں تو وقت ہی سمجھائے گا تجھے اک دن

مَیں چاہتا ہوں , مِری بات کو دُوبارہ سمجھ


کہ مَیں تو اپنے بھی کچھ کام آ نہیں پایا

تجھے یہ کس نے کہا تھا , مجھے سہارا سمجھ


یہ کار گاہِ طلِسمات ہے , یہاں سیـّد !

خسارہ نفع سمجھ , نفع کو خسارہ سمجھ 


سید فضل گیلانی


عبد المجید صابری

 یوم پیدائش 03 نومبر 1947


میں جب سے تیری محبت کے سائبان میں ہوں

مجھے خدا کی قسم ہے میں اطمینان میں ہوں


مرا یقین ترے پیار کی علامت ہے 

میں اس یقین کے محفوظ سائبان میں ہوں 


ابھی تلک کسی لغزش کا باقی امکاں ہے

ابھی تلک میں محبت کے امتحان میں ہوں 


کہانی بکھری ہوئی ہے میری صحیفوں میں 

میں سب کتابوں کے ہی مرکزی بیان میں ہوں


مجید مجھ کو ابھی گھونسلے سے کیا مطلب 

ابھی تو اپنے تخیل کی میں اڑان میں ہوں


عبدالمجید صابری


عمیق حنفی

 یوم پیدائش 03 نومبر 1928


کہنے کو شمع بزم زمان و مکاں ہوں میں

سوچو تو صرف کشتۂ دور جہاں ہوں میں


آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن

لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں


جاتا نہیں کناروں سے آگے کسی کا دھیان

کب سے پکارتا ہوں یہاں ہوں یہاں ہوں میں


اک ڈوبتے وجود کی میں ہی پکار ہوں

اور آپ ہی وجود کا اندھا کنواں ہوں میں


سگریٹ جسے سلگتا ہوا کوئی چھوڑ دے

اس کا دھواں ہوں اور پریشاں دھواں ہوں میں


عمیق حنفی


شفقت حیات شفق

 یوم پیدائش 15 مارچ 1987


تمام عمر کا اپنا حساب لکھوں گی

میں تیرے نام کی کوئی کتاب لکھوں گی


میں جلتی اڑتی ہوئی ریت کو بھی چھانوں گی

جو دشتِ ذات پہ ٹھہرے سحاب لکھوں گی


ہر ایک درد میں تم کو میں حوصلہ دوں گی

تمھاری مات کو بھی کامیاب لکھوں گی


اک ایک لفظ کو سینچوں گی میں محبت سے

کتاب دل میں ترا انتساب لکھوں گی


تمام تذکرے ہوں گے یہاں محبت کے

کیا جو تو نے کھبی اجتناب لکھوں گی


 مجھے حیات کی لکھنی نہیں کوئی تلخی

 سو! پھول کلیوں کا سارا شباب لکھوں گی

    

  شفقت حیات شفق


امرت لعل عشرت

 یوم پیدائش 02 نومبر 1930


قدم قدم پہ ہمیں رنگ و بو کا دھوکا ہے

خزاں نصیب رفیقو یہ دور کیسا ہے


جو تو کہے اسے چھو کر ذرا یقیں کر لوں

تری جبیں پہ مجھے چاندنی کا دھوکا ہے


مری نگاہ نے بخشی ہے حسن کو رونق

نسیم صبح سے پھولوں کا رنگ بکھرا ہے


بنائے شعر ہے میرا مشاہدہ عشرتؔ

مرے کلام میں ہر دل کا درد ہوتا ہے


امرت لعل عشرت


عجیب ساجد

 ہر اک کو آس دلائے گا چھوڑ جائے گا 

وہ سبز باغ دکھائے گا چھوڑ جائے گا 


کرے گا سب کو ہی قائل وہ میٹھی باتوں سے 

جو تارے توڑ کے لائے گا چھوڑ جائے گا


کوئی رہے نہ رہے اس کو فرق پڑنا نہیں 

نیا وہ دوست بنائے گا چھوڑ جائے گا


وہ چال باز تجھے اپنی یوں ہتھیلی پر 

جما کے سرسوں دکھائے گا چھوڑ جائے گا 


تجھے کرے گا محبت میں مبتلا اور پھر 

وہ انگلیوں پہ نچائے گاچھوڑ جائے گا 


اُسے نہیں ہے کوئی ڈر تری حکومت کا

وہ کاروبار اُٹھائے گا چھوڑ جائے گا


عجیب اُس کی محبت پہ مت یقین کرو 

تمہیں گلے تو لگائے گا چھوڑ


جائے گا


عجیب ساجد

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...