یوم پیدائش 04 نومبر 1906
اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں
بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں
پھر وہی جاگنا ہے دن کی طرح
رات ہے اور جیسے رات نہیں
بات اپنی تمہیں نہ یاد رہی
خیر جانے دو کوئی بات نہیں
کچھ نہیں ہے تو یاد ہے ان کی
ان سے ترک تعلقات نہیں
پھر بھی دل کو بڑی امیدیں ہیں
گو بہ ظاہر توقعات نہیں
عشق ہوتا ہے خود بہ خود پیدا
عشق کے کچھ لوازمات نہیں
ایسے فضلیؔ کے شعر کم ہوں گے
جن میں کچھ دل کی واردات نہیں
فضل احمد کریم فضلی