Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

مخمور دہلوی

 یوم پیدائش 07 نومبر 1901


یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے

ترے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے


قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں

مری تقدیر کے لکھے ہوئے دانے کہاں جاتے


نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی

ہجوم غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے


میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا

جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے


تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے

یہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے


اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا

تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے


نہیں تھا مستحق مخمورؔ رندوں کے سوا کوئی

نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے


مخمور دہلوی


نظیر صدیقی

 یوم پیدائش 07 نومبر 1930


ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں

کس کس کے در پہ مانگیں دعا تیرے شہر میں


مجرم ہیں سارے اہل وفا تیرے شہر میں

کیا خوب ہے وفا کا صلہ تیرے شہر میں


اہل ہوس کے نام سے ہیں روشناس خلق

ملتی ہے جن کو داد وفا تیرے شہر میں


رکھتے ہیں لوگ تہمتیں اپنے نصیب پر

کرتے ہیں یوں بھی تیرا گلا تیرے شہر میں


اپنوں پہ اعتماد نہ غیروں پہ اعتماد

یہ کیسی چل پڑی ہے ہوا تیرے شہر میں


ہوتا ہے کس مرض کا مداوا ترے یہاں

ملتی ہے کس مرض کی دوا تیرے شہر میں


رکھتے ہیں ہر جزا کو قیامت پہ منحصر

دیتے ہیں ہر خطا کی سزا تیرے شہر میں


نظیر صدیقی


احمد علی برقی اعظمی

 بیاد شاعر مشرق علامہ اقبال


شاعری اقبال کی ہے فکروفن کا شاہکار

شہرہ آفاق ہیں ان کے یہ در شاہوار


" پس چہ باید کرد " ہو یا ان کی ہو " بانگ درا "

ہے جہان فکروفن میں ان کو حاصل اعتبار


" بال جبریل " اور ہیں "جاوید نامہ " بے مثال

ان کے افکار درخشاں کے ہیں جو آٸینہ دار


روح پرور ہیں " پیام مشرق" اور " ضرب کلیم "

جن کے ہیں مداح اقصاٸے جہاں میں بیشمار


ہیں وہ یکساں آبروٸے سرزمین ہند و پاک

جو بھی ارباب نظر ہیں ان کے ہیں منت گذار


کھولے ہیں ہم پر انھوں نے باب علم و فضل کے

جن کی تہذیبی روایت ہے نہایت شاندار


درس عبرت ہے ہمارے واسطے ان کا کلام

دیتا ہے داد شجاعت جو ہمیں مردانہ وار


مشوروں پر ان کے ہم کرتے اگر لبیک آج

سر پہ ہم سب کے نہ ہوتا اشہب دوراں سوار


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

ان پہ نازل ہو ہمیشہ رحمت پروردگار


صفحہ تاریخ کی زینت ہے ان کی شاعری

میرا یہ نذر عقیدت ان پہ ہے برقٕی نثار


احمدعلی برقی اعظمی


فرزند علی شوق

 یوم پیدائش 6 نومبر 1972


کر لیا جب منتخب دشتِ جنوں 

ہوگئی ہے اور بھی وحشت فزوں


جب محبت کا کرم مجھ پر ہوا

نفرتوں کا ہو گیا ہے سر نگوں


اڑ گئی آنکھوں سے نیندوں کی پری

عشق نے جب سے کیا ہے بے سکوں


لاکھ میں تنہا ہوں راہ ِ درد میں 

چن رہا ہوں آرزوں کا ستوں


کچے گھر میں رہ رہے ہیں فاقہ کش

زندگی ہے مدتوں سے جوں کی توں


دشمنِ امن و اماں کچھ تو بتا 

حادثوں کے شہر میں کیسے جیوں


جس کو بھی دیتا ہوں پھول اخلاص کے

ڈالتا ہے مجھ پہ وہ دامِ فسوں 


ساتھ میرا چھوڑ کر سب چل دیے

صرف ساتھی ہے میرا حالِ زبوں


بے زبانی دے گئے یارانِ شوق

داستانِ درد و غم کیسے کہوں


فرزند علی شوق


فاروق شائق سانگو

 شہر وحشت سے اب نکال ہمیں

میرے دل مہرباں سنبھال ہمیں


بگڑا دل میرا دلفریبی مزاج 

کچھ سدھرنے کا دو خیال ہمیں 


حل نہیں آتشیں مزاج ہے دن 

ڈستا ہے شام کا سوال ہمیں


گھر سے میں دربدر ہوں دشت جنوں

پاؤں میں بیڑیاں یوں ڈال ہمیں


دھڑکنیں تھم گئی یوں دل کی مری

تسکیں درکار ماہ سال ہمیں


مضطرب دل ہے وحشی ہجر کی شب

عشق شائق کیا نڈھال ہمیں


فاروق شائق سانگو


احمد رئیس

 حالِ دل کرنا بیاں ہے کام جوئے شیر کا

سوختہ جاں ہے عبث نالہ ترا شب گیر کا


ہجر ہے میرا مقدر بس یہی سمجھا ہے دل

لے لیا بوسہ تصور میں تری تصویر کا


حشر کو ہی ہم ملیں گے، بارہا وعدہ کیا

ہاں مگر یہ تو بتا کیا ہے سبب تاخیر کا


میں نہیں کہتا کہ مجھ کو کر غلامی میں قبول

  پاسباں کوئی ہو لیکن حسن کی جاگیر کا


اپنے ہاتھوں کی لکیریں دیکھتا ہی رہ گیا

پوچھ بیٹھا جب ستم گر خواب کی تعبیر کا


  سوچتا ہوں کیا کہوں نادان لوگوں کو بھلا

  میرے آگے چھیڑتے ہیں ذکر جب زنجیر کا


  شہر میں کربل بپا ہے، ہیں یزیدی چارسو

   آج بھی ہے سر پہ سایہ کفر کی شمشیر کا


غم نہ کھا بس اہل حق کی بزم میں جاکر تو دیکھ

   میں وہیں سمجھا ہوں کیا ہے فلسفہ تقدیر کا


چاہیے گر بادشاہی بن غلامِ مصطفیﷺ

  ہے سوا اس کے نہ رستہ عالمِ تسخیر کا


  احمد رئیس


حمید ناگپوری

 یوم پیدائش 05 نومبر 1907


فکر پابندی حالات سے آگے نہ بڑھی

زندگی قید مقامات سے آگے نہ بڑھی


ہم سمجھتے تھے غم دل کا مداوا ہوگی

وہ نظر پرسش حالات سے آگے نہ بڑھی


ان کی خاموشی بھی افسانہ در افسانہ بنی

ہم نے جو بات کہی بات سے آگے نہ بڑھی


سر خوشی بن نہ سکی زہر الم کا تریاق

زندگی تلخئ حالات سے آگے نہ بڑھی


عشق ہر مرحلۂ غم کی حدیں توڑ چکا

عقل اندیشۂ حالات سے آگے نہ بڑھی


ایسی جنت کی ہوس تجھ کو مبارک زاہد

جو ترے حسن خیالات سے آگے نہ بڑھی


نگہ دوست میں توقیر نہیں اس کی حمیدؔ

وہ تمنا جو مناجات سے آگے نہ بڑھی


حمید ناگپوری


سجاد ظہیر

 یوم پیدائش 05 نومبر 1905

نظم محبت کی موت


تم نے محبت کو مرتے دیکھا ہے؟ 

چمکتی ہنستی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں 

دل کے دالانوں میں پریشان گرم لو کے جھکڑ چلتے ہیں 


گلابی احساس کے بہتے ہوئے خشک 

اور لگتا ہے جیسے 

کسی ہری بھری کھیتی پر پالا پڑ جائے! 


لیکن یارب 

آرزو کے ان مرجھائے سوکھے پھولوں 

ان گم شدہ جنتوں سے 

کیسی صندلی 

دل آویز 

خوشبوئیں آتی ہیں


سجاد ظہیر


حکیم احمد شجاع ساحر

 یوم پیدائش 04 نومبر 1896

توکل


اللہ پہ چھوڑو کام سبھی وہ ہے اپنا تو سب کچھ ہے

بے بس بندوں کو کیا کرنا وہ ہے داتا تو سب کچھ ہے


کچھ آج کمائی کر ایسی جو کل کو چل کر کام آئے

یاں سب کچھ ہے تو کچھ بھی نہیں واں کچھ بھی ملا تو سب کچھ ہے


ہیں خدمت خلق اور ذکر خدا دو کام فقط انسانوں کے

دکھ بانٹ کے اس کے بندوں کا وہ نام جپا تو سب کچھ ہے


 اے ساحر دنیا والوں نے گر چھوڑ دیا تو کیا غم ہے

 وہ دین اور دنیا کا مالک جب ہے تیرا تو سب کچھ ہے 


حکیم احمد شجاع ساحر


فیضان رضا

 یوم پیدائش 04 نومبر


مشقّتوں پہ یقیں، اور فن کی قلت تھی

ہجومِ اہلِ سخن تھا سخن کی قلت تھی


خوش آمدید بھی کہتے تو کس طرح کہتے

ہماری بزم میں شیریں سخن کی قلت تھی


مرے علاوہ کسی کا اُدھر نہ دھیان گیا

ریا سے پاک یہاں پر زمن کی قلت تھی


شکستہ حال تھا میں بھی مکاں بنا لیتا

کہ مجھ غریب میں تھوڑی جتن کی قلت تھی


اِسی لئے تو سبھی گھر اُداس رہتے تھے

مرے قبیلے میں اک انجمن کی قلت تھی


ہم ایسے شہر میں آ کے ٹھہر گئے تھے رضا

قدم قدم پہ جہاں اہلِ فن کی قلت تھی


فیضان رضا


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...