یوم پیدائش 07 نومبر 1901
یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے
ترے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے
قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں
مری تقدیر کے لکھے ہوئے دانے کہاں جاتے
نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی
ہجوم غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے
میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا
جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے
تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے
یہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے
اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا
تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے
نہیں تھا مستحق مخمورؔ رندوں کے سوا کوئی
نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے
مخمور دہلوی