Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

عرفی آفاقی

 یوم پیدائش 22 دسمبر 1936


وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا

بس ایک چھلاوے سا کوئی دم کو ملے گا


انجانی زمینوں سے مجھے دے گا صدا وہ

نیرنگ نوا شوق کی سرگم کو ملے گا


میں اجنبی ہو جاؤں گا خود اپنی نظر میں

جس دم وہ مرے دیدۂ پر نم کو ملے گا


جو نقش کہ ارژنگ زمانہ میں نہیں ہے

اس دل کے دھڑکتے ہوئے البم کو ملے گا


رت وصل کی آئے گی چلی جائے گی لیکن

کچھ رنگ تو یوں ہجر کے موسم کو ملے گا


یہ دل کہ ہے ٹھکرایا ہوا سارے جہاں کا

گھر ایک یہی ہے جو ترے غم کو ملے گا


پتھر ہے تو ٹھوکر میں رہے پائے طلب کی

دل ہے تو اسی طرۂ پر خم کو ملے گا


گر شیشۂ مے ہے تو ہو اوروں کو مبارک

ہے جام جہاں بیں تو فقط جم کو ملے گا


لہراتے رہیں گے چمنستاں میں شرارے

خار و خس و خاشاک ہی عالم کو ملے گا


معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری

صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا


عرفی آفاقی


واحد کشمیری

 یوم پیدائش:-21 ڈسمبر 1977 کی پر خلوص مبارکباد


درد تنہائی تڑپ آہ و بکا دے کر گیا

زندگی بھر کے لئے اک مسئلہ دے کرگیا


اشتہارِ خفتگی لٹکا ہوا ہے بام پر

کیا امیرِ شہر تھا کیاحوصلہ دے کر گیا


اور جب آیا تو دستک کے بنا داخل ہوا

روح اور خاکی بدن کو فاصلہ دے کرگیا 


ہم انا کی آڑ میں غیرت کے سودا گر ہوئے

کون ایسی بد مزاجی برملا دے کر گیا


ہم روابط کے لئے تو اس قدر راضی نہ تھے

دل بڑا بے صبر نکلا حادثہ دے کر گیا


ہائے رے واحد تری کمسِن مزاجی دیکھ لی

کس طرح اہل جفا کو تُو وفا دے کر گیا

واحد کشمیری


شمیم روش

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1956


آنکھوں میں ہجر چہرے پہ غم کی شکن تو ہے

مجھ میں سجی ہوئی مگر اک انجمن تو ہے


سانسوں کو اس کی یاد سے نسبت ہے آج بھی

مجھ میں کسی بھی طور سہی بانکپن تو ہے


ہر صبح چہچہاتی ہے چڑیا منڈیر پر

ویران گھر میں آس کی کوئی کرن تو ہے


ممکن ہے اس کا وصل میسر نہ ہو مجھے

لیکن اس آرزو سے مرا گھر چمن تو ہے


ہر وقت محو رقص ہے چہرہ خیال میں

بے ربط زندگی ہے مگر دل مگن تو ہے


ہر لمحہ اس سے رہتا ہوں مصروف گفتگو

کہنے کو میرے ساتھ کوئی ہم سخن تو ہے


میرے لیے یہ بات ہی کافی ہے اے روشؔ

کچھ بھی ہو مجھ میں اب بھی مرا اپنا پن تو ہے


شمیم روش


ناصر شہزاد

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1937


دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے

فکر معاش بڑھ گئی خانوں میں بٹ گئے


پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یونہی بچھڑ گیا

پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یونہی کٹ گئے


کھینا سکھی سکھی نہ سجن کی طرف مجھے

لینا سکھی سکھی مرے پاؤں رپٹ گئے


آئینہ اس کو دیکھ کے مبہوت ہو گیا

گلدان میں گلاب لجا کر سمٹ گئے


اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ

رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے


آنے دیا نہ میرے بزرگوں نے حق پہ حرف

میدان کربلاؤں کے لاشوں سے پٹ گئے


ڈالی ندی میں ناؤ نہ برگد کے نیچے پینگ

تو کیا گیا پلٹ کے وہ سب دن پلٹ گئے


کھادیں لگیں تو چھوڑ گئیں کھیت تتلیاں

فصلیں بڑھیں تو ڈار پرندوں کے گھٹ گئے


اس سے ملی نظر تو لرزنے لگا بدن

دیدے سکھی ری دیکھ کے پریتم کو پھٹ گئے


تو شانت ہو کہ تیری مرادیں ہوئیں سپھل

بادل گرج برج کے جو آئے تھے چھٹ گئے


دیکھا تو اس کے تن پہ گرے کیوڑے کے پھول

پاؤں سے آبشار کے پانی لپٹ گئے


ناصر شہزاد


ساقی فاروقی

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1936 


دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی

یہ صبر کا مقام ہے گریہ نہ کر ابھی


جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے

وہ ہاتھ سو گیا ہے تقاضا نہ کر ابھی


نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں

اسرار کائنات سے پردا نہ کر ابھی


یہ خامشی کا زہر نسوں میں اتر نہ جائے

آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی


دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال

اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی



ساقی فاروقی

شفیق سلیمی

 یوم پیدائش21 دسمبر 1942 


تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا

ہم زمیں زادوں کے سر پر آسماں رہنے دیا


لفظ وہ برتے کہ ساری بات مبہم ہو گئی

اک پردہ تھا کہ حائل درمیاں رہنے دیا


آنکھ بستی نے سبھی موسم مسافر کر دیے

ایک اشکوں کی روانی کا سماں رہنے دیا


خون کی سرخی اندھیروں میں اجالا بن گئی

ہم نے ہر صورت چراغوں کو جواں رہنے دیا


صد کمال مہربانی پانیوں نے اس دفعہ

کاغذی کشتی کو لہروں پر رواں رہنے دیا


لاکھ کوشش پر بھی گھر کو گھر نہ کر پائے شفیقؔ

اور پھر ہم نے مکاں کو بس مکاں رہنے دیا


شفیق سلیمی


طالب جے پوری

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1911


درد دل پیدا کریں یا درد سر پیدا کریں

میری باتیں جانے ان پر کیا اثر پیدا کریں


زندگی ان کی ہے جو گلشن میں اپنے واسطے

آشیاں با وصف صد برق و شرر پیدا کریں


آئیے ہم رہبر و رہزن سے ہو کر بے نیاز

منزل مقصود تک خود رہ گزر پیدا کریں


آ کہ پھر دے کر پیام نو مذاق دید کو

ہر نظر میں ایک دنیائے دگر پیدا کریں


کھل ہی جائے گی حقیقت عالم اضداد کی

دیدۂ دل امتیاز خیر و شر پیدا کریں


ان کو پا کر خود کو کھو دینا تو ہے اک عام بات

ان کو پا کر خود کو پانے کا ہنر پیدا کریں


آہ بے تاثیر میں طالبؔ اثر آ جائے گا

درد دل پیدا کریں درد جگر پیدا کریں


طالب جے پوری


آسی غازی پوری

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1834


حرص دولت کی نہ عز و جاہ کی

بس تمنا ہے دل آگاہ کی


درد دل کتنا پسند آیا اسے

میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی


کھنچ گئے کنعاں سے یوسف مصر کو

پوچھئے حضرت سے قوت چاہ کی


بس سلوک اس کا ہے منزل اس کی ہے

اس کے دل تک جس نے اپنی راہ کی


واعظو کیسا بتوں کا گھورنا

کچھ خبر ہے ثم وجہ اللٰہ کی


یاد آئی طاق بیت اللہ میں

بیت ابرو اس بت دل خواہ کی


راہ حق کی ہے اگر آسیؔ تلاش

خاک رہ ہو مرد حق آگاہ کی


آسی غازی پوری


ساغر نظامی

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1905

دوشاعر ایک مقطع


دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں

ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں


رسمِ الفت میں روا شکوۂ بیداد نہیں

یہ تو کم ظرفیِ جذبات سے فریاد نہیں


وہ مری خاک نشینی کے مزے کیا جانے 

جو مری طرح تری راہ میں آباد نہیں


ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے

وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں


ایک زنجیرِ طریقت میں بندھے ہیں دونوں

عشقِ پابند سہی حسن بھی آزاد نہیں


عرش والے نہ سنیں سری خدائی سن لے 

اس قدر پست مذاق لبِ فریاد نہیں


روحِ بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن

پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں


حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ

عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں


بربط ماہ پہ مضرابِ فغاں رکھ دی تھی

میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں


قفس بلبل و گل سب ہیں یہ فانوس خیال

کہ تری ذات سے بڑھ کر کوئی صیاد نہیں


لاؤ اک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


ساغر نظامی


ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں


میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں


میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں


کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں

کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں


صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے

کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں


زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں


آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


ساغر صدیقی


شبنم رومانی

 یوم پیدائش 20 دسمبر 1928


میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی

کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی


وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو

جوئے کم آب قسم تجھ کو ترے پانی کی


یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر

جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی


اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش

جب ترے حسن پہ میں نے نظر ثانی کی


مجھ سے کہتا ہے کوئی آپ پریشان نہ ہوں

مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی


زندگی کیا ہے طلسمات کی وادی کا سفر

پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی


وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنمؔ

پھر تو میں نے سر محفل وہ گل افشانی کی


شبنم رومانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...