Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

ثمینہ گل

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1965


کھینچتا ہے کون آخر دائرے در دائرے 

دائرے ہی دائرے ہیں دائروں پر دائرے 


پانیوں کی کوکھ سے بھی پھوٹتا ہے دائرہ 

دیر تک پھر گھومتے رہتے ہیں اکثر دائرے 


اس کتاب زیست کے بھی آخری صفحے تلک 

کھینچ ڈالے قوس نے بھی زندگی پر دائرے 


جانے کیا کیا گھومتا ہے گرد کی آغوش میں 

جھانکتے ہیں آسمانوں سے سراسر دائرے 


آنکھ میں بھی دائرہ ہے دائرے میں دائرہ 

زندگانی دیکھتی ہے کیا برابر دائرے 


ثمینہ گل


احمد علی برقی اعظمی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1954


عشق میں سود و زیاں کی جو وکالت کی ہے

نام پر اُس نے محبت کے تجارت کی ہے


ہم کو معلوم تھا انجامِ محبت کیا ہے

"اک سزا کاٹتے رہنے کی ریاضت کی ہے"


جب کیا عرضِ تمنا تو وہ مجھ سے بولا

لب کشائی کی یہ کیوں تونے حماقت کی ہے


تختۂ مشقِ ستم مجھ کو بنانے کے لئے

حاکِم وقت نے درپردہ ہدایت کی ہے


مُنتشر کردیا شیرازۂ ہستی اس نے

غمزہ و ناز سے برپا وہ قیامت کی ہے


عمر بھر جس کو سمجھتا تھا میں قائد اپنا

شر پسندوں کی پسِ پردہ قیادت کی ہے


منفرد سب سے ہے اقبال کا اندازِ بیاں

کیوں کہ فرسودہ روایت سے بغاوت کی ہے


عہد شکنی کا ہے الزام اب اس پر برقی

حق پسندی کی سدا جس نے حمایت کی ہے


 احمد علی برقی اعظمی


شجاع خاور

 یوم پیدائش 24 دسمبر 1948


اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا

وہ بھی تو ملے ہم سے ہمیں اس سے ملیں کیا


لشکر کو بچائیں گی یہ دو چار صفیں کیا

اور ان میں بھی ہر شخص یہ کہتا ہے ہمیں کیا


یہ تو سبھی کہتے ہیں کوئی فکر نہ کرنا

یہ کوئی بتاتا نہیں ہم کو کہ کریں کیا


گھر سے تو چلے آتے ہیں بازار کی جانب

بازار میں یہ سوچتے پھرتے ہیں کہ لیں کیا


آنکھوں کو کئے بند پڑے رہتے ہیں ہم لوگ

اس پر بھی تو خوابوں سے ہیں محروم کریں کیا


دو چار نہیں سینکڑوں شعر اس پہ کہے ہیں

اس پر بھی وہ سمجھے نہ تو قدموں پہ جھکیں کیا


جسمانی تعلق پہ یہ شرمندگی کیسی

آپس میں بدن کچھ بھی کریں اس سے ہمیں کیا


خوابوں سے بھی ملتے نہیں حالات کے ڈر سے

ماتھے سے بڑی ہو گئیں یارو شکنیں کیا


شجاع خاور


قتیل شفائی

 یوم پیدائش 24 دسمبر 1919


حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں


اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن

دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں


وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف

پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں


پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا

ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہیں


قتیل شفائی


زبدہ خان

 ہمیشہ جن کے غم ہنس کر محبت میں اٹھاتے ہیں

کسے تھی یہ خبر وہ صرف ہم کو آزماتے ہیں


ہمارے اپنے لوگوں میں یہی اک خاص خوبی ہے

کبھی کانٹے بچھاتے ہیں کبھی رستے میں آتے ہیں 


کسی بھی کام میں رب کی قسم لگتا نہیں ہے دل

اکیلے میں خیالوں میں انہیں ہم جب بھی لاتے ہیں


ہم انکے ساتھ کوئی چھیڑ خانی بھی کریں کیسے

کسی بھی بات کو لے کر وہ اکثر روٹھ جاتے ہیں


رسالے میں چھپی تصویر تیرے ساتھ جس دن سے

بھلا ہیں غیر کیا اپنے بھی بیٹھے دل جلاتے ہیں


اصولِ شاعری کے زیروبم سے جو نہیں واقف 

مرے اشعار پر زبدہ وہی انگلی اٹھاتے ہیں


زبدہ خان


ناصر امروہوی

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1964


ممکن جہاں نہیں تھی وہاں کاٹ دی گئی 

کچھ دن کی زندگی تھی میاں کاٹ دی گئی 


مفلس جو تھے وہ پیاس کی شدت سے مر گئے 

محلوں کی سمت جوئے رواں کاٹ دی گئی 


میں نے بلند کی تھی صدا احتجاج کی 

پھر یوں ہوا کہ میری زباں کاٹ دی گئی 


تیری زمیں پہ سانس بھی لینا محال تھا 

مجبور ہو کے زیست یہاں کاٹ دی گئی 


میری سزائے موت پہ اک جشن تھا بپا

وہ شور تھا کہ میری فغاں کاٹ دی گئی 


دست ہنر پہ نوک سناں پر غرور ہے 

لیکن جری جو نوک سناں کاٹ دی گئی 


پہلے تو بات بات پہ ٹوکا گیا مجھے 

پھر تنگ آ کے میری عناں کاٹ دی گئی 


ناصر امروہوی


ریاض لطیف

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1964


دنیا سے پرے جسم کے اس باب میں آئے 

ہم خود سے جدا ہو کے ترے خواب میں آئے 


کچھ ایسے بھی ہموار کی ہر سطح کو اپنی 

موجوں کی طرح ہم ترے پایاب میں آئے 


ان کو بھی ابد کے کسی ساحل پہ اتارو 

وہ لمس جو اس رات کے سیلاب میں آئے 


اک نقش تو ٹھہرا تھا روانی کے بدن پر 

جب بن کے بھنور ہم ترے گرداب میں آئے 


بکھراؤ کے شہپر پہ ہم اترے پہ زمیں پر 

کچھ پھیل کے اس نقطۂ نایاب میں آئے 


تھے غیب کے تیشے سے تراشے ہوئے ہم تب 

انگڑائی کی صورت تری محراب میں آئے 


ریاض لطیف


حمیدہ معین رضوی

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1943


منزل پہ پہنچنے کو تاروں پہ نظر رکھتے

جب شہر بسایا تھا رستوں کی خبر رکھتے


کہتے ہو اندھیرا ہے کوئی نہیں چہرہ ہے

ایمان یقیں ہوتا آنکھوں میں سحر رکھتے


الزام تراشی سے اب کچھ بھی نہیں حاصل

جب آئے غنیم اندر لڑنے کا ہنر رکھتے


اس قحط رجالاں میں قائد بھی نہیں ملتے

جو قافلۂ دل کو مائل بہ سفر رکھتے


ہم خاک کے ذروں کی صورت میں پریشاں ہیں

طاقت کو جمع کرتے تو برق و شرر رکھتے


ہم سب سگ مایہ ہیں ہڈی پہ جھپٹتے ہیں

ایسے میں کسی پر کیا اب خاک اثر رکھتے


صحرا کی تپش ہر سو کرگس کا بسیرا ہے

ہر شے جو جلا دی ہے کچھ باقی شجر رکھتے


اک مرگ مسلسل ہے افکار ہیں یخ بستہ

صحرا کی حرارت کو شعلوں سا جگر رکھتے


حمیدہ معین رضوی


مظفر فاروقی

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1933


آدمی چونک چکا ہے مگر اٹھا تو نہیں

میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں یہ وہ دنیا تو نہیں


روح کو درد ملا درد کو آنکھیں نہ ملیں

تجھ کو محسوس کیا ہے تجھے دیکھا تو نہیں


رنگ سی شکل ملی ہے تجھے خوشبو سا مزاج

لالہ و گل کہیں تیرا ہی سراپا تو نہیں


چہرہ دیکھوں تو خد و خال بدل جاتے ہی

چھپ کے آئینے کے پیچھے کوئی بیٹھا تو نہیں


پھینک کر مار زمیں پر نہ زمانے مجھ کو

ٹوٹ ہی جاؤں گا جیسے میں کھلونا تو نہیں


زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں

شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا تو نہیں


میری آنکھوں میں ترے نقش قدم کیسے ہیں

اس سرائے میں مسافر کوئی ٹھہرا تو نہیں


سوچتے سوچتے دل ڈوبنے لگتا ہے مرا

ذہن کی تہ میں مظفرؔ کوئی دریا تو نہیں


مظفر وارثی


انیس الرحمان

 یوم پیدائش 22 دسمبر 1950


ہجر سے بات کی وصال کے بعد 

اب کے آنا تو ماہ و سال کے بعد 


جیسے آیا تھا ماضی حال کے بعد 

کیا جنوب آئے گا شمال کے بعد 


بات سے بات چلتی رہتی ہے 

ختم ہو جاتی ہے مثال کے بعد 


اک خموشی حصار کی مانند 

پہلے اور آخری سوال کے بعد 


ایک سیل ملال ہر جانب 

اک ملال اور اک ملال کے بعد 


اک خموشی رواں دواں ہر سو 

کیا خموشی ہے قیل و قال کے بعد 


اس کی صورت گری میں روز و شب 

خواب ہم دیکھتے خیال کے بعد 


دست و بازو میں آسمان و زمیں 

اور کیا فال نیک فال کے بعد 


"مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے "

زندگی یہ تو احتمال کے بعد


انیس الرحمان


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...