Urdu Deccan

Friday, December 31, 2021

رشید بشر

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1968


غریبی میں امیری کے میں جب بھی خواب بنتا ہوں 

کھلے جب آنکھ حسرت سے درو دیوار تکتا ہوں 


زمانے کی ڈگر سے میں عموماً ہٹ کے چلتا ہوں 

اسی خاطر تو لوگوں کی نگاہوں میں کھٹکتا ہوں 


سفرمیں اس لئے مڑ مڑ کے میں پیچھے نہیں تکتا 

میں خود ہی اپنی منزل بھی ہوں خود اپنا ہی رستہ ہوں 


چھپائیں لاکھ اپنی شخصیت لفظوں کے پردے میں 

سرِ محفل ہے کیسا کون میں سب کو سمجھتا ہوں 


تجاوز کر چکی ہے عمر گو حدّ جوانی سے 

ابھی تک گود میں ماں کی تصوّر میں مچلتا ہوں 


مرے صیّادنے پنجرے میں میرے پر بھی باندھے ہیں 

اسے ہے خوف میں پنجرہ پروں سے توڑ سکتا ہوں


مرے دشمن بھی حیراں ہیں مری اس سادہ لوحی پر 

عدو کو بھی میں دل کے گوشہُ الفت میں رکھتا ہوں 


جو ہیں سیراب پہلے ہی انہیں سیراب کیا کرنا 

میں وہ بادل ہوں جو پیاسی زمینوں پر برستا ہوں 


بشر اس واسطے اپنا تخلّص میں نے رکّھا ہے  

بشر کی افضلیّت کو بخوبی میں سمجھتا ہوں


رشید بشر


سید محمد جعفری

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1905


سگریٹ نے یہ اک پان کے بیڑے سے کہا

تو ہمیشہ سے پری رویوں کے جھرمٹ میں رہا

کون سی ایسی ہیں خدمات تری بیش بہا

خوں بہا کیوں لب و دندان حسیناں سے لیا

تجھ میں کیا لعل لگے ہیں کہ تو اتراتا ہے

بے حجابانہ ہر اک بزم میں آ جاتا ہے


سگریٹ سے جو سنے پان نے یہ تلخ سخن

بولا خاموش کہ اچھا نہیں حاسد کا چلن

جلتے رہنے سے دھواں بن کے مٹا تیرا بدن

تو لگا منہ کو تو غائب ہوئی خوشبوئے دہن

کاغذی پیرہن اور اس پہ تو فریادی ہے

خودبخود غصہ میں جل جانے کا تو عادی ہے


اس پہ سگریٹ نے کہا پان سے یہ کیا ہے ستم

چھاؤں میں پلتا ہے اور تو ہے بڑا سبز قدم

کتھے، چونے پہ، ڈلی پر ترا قائم ہے بھرم

تجھ پہ چاندی کے ورق لپٹیں تو کیا ہے تجھے غم

خاصدانوں کے محافوں میں سفر کرتا ہے

رات دن ماہ جبینوں میں بسر کرتا ہے


پان بولا کہ جلاتا ہے تو کیوں قلب و جگر

ایشیائی میں ہوں، مغرب کا ہے تو سوداگر

کاش تو اپنے گریبان میں منہ ڈالے اگر

تو وہ بے بس ہے کہ ماچس کا جو ہو دست نگر

آگ برسانے میں ساری تری رعنائی ہے

اور یہ چنگاری بھی باہر سے کہیں پائی ہے


بولا سگریٹ کہ بشر شکوہ کناں ہیں تیرے

در و دیوار پہ پیکوں کے نشاں ہیں تیرے

جو لپ اسٹک میں ہیں وہ جلوے کہاں ہیں تیرے

خود تو ہلکا ہے پہ نقصان گراں ہیں تیرے

نہ غذا میں نہ دوا میں ہے تو پھر کون ہے تو

تو ہلاکو ہے کہ تیمور کہ فرعون ہے تو


پان کہنے لگا سگریٹ سے کہ ابلیس لعین

تیری تمباکو سے جاتی ہے بدن میں نکوٹین

تجھ سے پیدا ہوئے امراض نہایت سنگین

بے تمیز اتنا کہ محفل میں جلائے قالین

راکھ سے تیری بھری دیکھتے ہیں ایش ٹرے

کوئی گرنے کو تو گر جائے پر اتنا نہ گرے


جل کے خود سب کو جلا دینا ترا پیشہ ہے

چھپ کے بیٹھی ہے اجل جس میں تو وہ بیشہ ہے

جان لے اپنے ہی عاشق کی جو وہ تیشہ ہے

تیرے پینے سے تو سرطان کا اندیشہ ہے

جو تجھے منہ سے لگائیں گے لہو تھوکیں گے

اور بھی چیزوں کے کش لینے سے کب چوکیں گے


صلح ان دونوں کی آخر میں کرائی میں نے

پان میں ڈال کے تمباکو بھی کھائی میں نے

لب سے سگریٹ کے جو چنگاری اڑائی میں نے

شعر اور فکر کی شمع اس سے جلائی میں نے

پان سے میں نے کہا شان تری بالا ہے

تو ہے نوشہ تو یہ سگریٹ ترا شہبالا ہے


سید محمد جعفری


نواب مصطفی خان شیفتہ

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1809


روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں

ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں


فرش رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں

خاک ہو رونق گلزار ترے کوچے میں


سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں

گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں


شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا

اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں


نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام

نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں


ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا

لے گیا شوق غلط کار ترے کوچے میں


تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس

ہم ہیں اور حسرت دیدار ترے کوچے میں


ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل

خلد میں روح تن زار ترے کوچے میں


کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے کہاں رہتے ہو

ترے کوچے میں ستم گار ترے کوچے میں


شیفتہؔ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے

روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں


نواب مصطفی خان شیفتہ


سحر انصاری

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1936


نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے 

ہمیں تمام گلے اپنی آگہی سے رہے


وہ پاس آئے تو موضوع گفتگو نہ ملے

وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے


ہم اپنی راہ چلے لوگ اپنی راہ چل

یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے


وہ گردشیں ہیں کہ چھٹ جائیں خود ہی بات سے ہات

یہ زندگی ہو تو کیا ربط جاں کسی سے رہے


کبھی ملا وہ سر رہ گزر تو ملتے ہی

نظر چرانے لگا ہم بھی اجنبی سے رہے


گداز قلب کہے کوئی یا کہ ہرجائی

خلوص و درد کے رشتے یہاں سبھی سے رہے


سحر انصاری


مرزا غالب

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1797


سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے

بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے


دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے


گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے


بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی

یہ جو اک لذت ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے


رنج رہ کیوں کھینچیے واماندگی کو عشق ہے

اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے


جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی

فتنۂ شور قیامت کس کے آب و گل میں ہے


ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب

رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے


مرزا غالب


سلیمان خطیب

 یوم پیدائش 26 دسمبر 1922

نظم چھورا چھوری


بولو خالہ مزاج کیسے ہیں؟

 کتنے برسوں کے بعد آئی ہو؟

مِسّی ہونٹوں پہ آنکھ میں کاجل

جیسے پیغام کوئی لائی ہو؟


لڑکے کی ماں

میرے چھورے کو چھوری ہونا ہے

میرا چھورا تو پکا سونا ہے

تمیں دل میں ذرا نکو سوچو

ہاتھ آیا تو ہیرا سونا ہے

چار لوگاں میں اس کی ابرو ہے

جیسے کیوڑے کے بن میں خوشبو ہے

کھلّے دل کی ہوں سب بتاتی ہوں

کھلّا مکھلاج میں سناتی ہوں

تھوڑا ترپٹ ہے اور لُلّا ہے

سیدھی آنکھی میں اس کی پھلّا ہے

منہ پہ چیچک کے خالی داغاں ہیں

رنگ ڈامر سے ذرّا کھلّا ہے

ناک نقشے کا کِتّا اچھا ہے

میرا بچہ تو بھور بچہ ہے

اس کے دادا بھی سو پہ بھاری تھے

یوں تو کم ذات کے مداری تھے

کنولے جھاڑاں کی سیندھی پیتے تھے

کیا سلیقے کا جینا جیتے تھے

پی کو نکلے تو جھاڑ دیتے تھے

باوا دادا کو گاڑ دیتے تھے

اچھے اچھے شریف لوگاں تھے

جڑ سے پنجے اکھاڑ دیتے تھے

پہلا دروازے بند کرتے تھے

بچے گوداں میں ڈر کو مرتے تھے


لڑکی کی ماں

خالہ!


یہ تو دنیا ہے ایسا ہوتا ہے

کوئی پاتا ہے کوئی کھوتا ہے

ایسے ویسوں کے دن بھی پھرتے ہیں

سر سے شاہوں کے تاج گرتے ہیں

میری بچی تو خیر جیسی ہے

بولو مرضی تمہاری کیسی ہے؟


لڑکے کی ماں


چھوری پھولاں میں پھول دِسنا جی

بھولی صورت قبول دِسنا جی

اس کے لکّھن سے چال نَئِیں پڑنا

چاند پاواں کی دھول دِسنا جی

منہ کو دیکھے تو بھوک مَرجانا 

پیاسی انکھیا سے پیاس مَر جانا

لچکے کمّر تو بید سرمانا

 لپکے چوٹیاں تو ناگ ڈر جانا

زلفاں لوبان کا دھواں دِسنا

لال ہونٹاں کو غنچے مَرجانا

اچھی غنچی ہو اچھا پاؤں ہو

گھر میں لچھمی کے سر کی چھاؤں ہو

ہنڈیا دھونے کی اس کو عادت ہو

بوجھا ڈھونے کی اس کو عادت ہو

سارے گھر بار کو کِھلا دے وہ

بھکّا سونے کی اس کو عادت ہو

پاک سیتا ہو سچّی مائی ہو

پوری اللہ میاں کی گائی ہو

گَلّا کاٹے تو ہنس کے مرجانا

 بیٹی دنیا میں نام کر جانا

باہر والے تو بہت پوچھیں گے

گھر کا بچہ ہے گھر کا زیور دیو

ریڈیو سئیکل تو دنیا دیتِچ ہے

اللہ دے رہا ہے تو ایک موٹر دیو

بہت چیزاں نکّو جی! تھوڑے بس

ایک بنگلہ ہزار جوڑے بس

گھوڑا جوڑا کیا لے کو دھرنا ہے؟ 

خالی 25 لاکھ ہونا ہے


لڑکی کی ماں


تمیں کتّے ذلیل لوگاں ہیں

 تمیں کتّے ذلیل لوگاں ہیں

 

اتنے میں لڑکی کا باپ اندر آتا ہے اور اپنی پگڑی لڑکے کی ماں کے قدموں میں رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے:


جس کی بچی جوان ہوتی ہے 

کس مصیبت میں جان ہوتی ہے؟

بوڑھے ماں باپ کے کلیجے پر

 ایک بھاری چٹان ہوتی ہے

بہنیں گھر میں جوان بیٹھی ہیں

 بھائی چپ ہے کہ کہہ نہیں سکتا

ماں تو گھل گھل کے خود ہی مرتی ہے

باپ بیٹی کو سہہ نہیں سکتا

جی میں آتا ہے اپنی بچی کو

اپنے ہاتھوں سے خود ہی دفنا دیں

لال جوڑے تو دے نہیں سکتے 

لال چادر میں کیوں نہ کفنا دیں

یہ بھی دلہن ہے گھر سے جاتی ہے

موت مفلس کو کیا سہاتی ہے

یہ سہاگن ہے اس کو کاندھا دو

ہم نے خونِ جگر سے پالا ہے

اِس کی تربت پہ یہ بھی لکھ دینا

زرپرستوں نے مار ڈالا ہے


سلیمان خطیب


Thursday, December 30, 2021

عین تابش

 یوم پیدائش 26 دسمبر 1958


میری تنہائی کے اعجاز میں شامل ہے وہی

رقص میں ہے دل دیوانہ کہ محفل ہے وہی


یہ الگ بات نہ وہ تمکنت آرا ہے نہ میں

ہے چمن بھی وہی اور شور عنادل ہے وہی


وہی لیلائے سخن اب بھی سراپائے طلسم

میری جاں اب بھی وہی ہے کہ مرا دل ہے وہی


دشت حیرت میں وہی میرا جنوں محو خرام

آ کے دیکھو کہ یہاں گرمی محفل ہے وہی


اس میں جو ڈوب گیا پار اتر جائے گا

موج در موج وہ دریا ہے تو ساحل ہے وہی


آج بھی اس کے مرے بیچ ہے دنیا حائل

آج بھی اس کے مرے بیچ کی مشکل ہے وہی


عین تابش


اعزاز احمد آذر

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1942


درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے

بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے 


نشاط منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجر سفر ہی دے دو

وہ رہ نورد رہ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے 


وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں

ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے 


اب ایسے قصے سے فائدہ کیا کہ کون کتنا وفا نگر تھا

جب اس کی محفل سے آ گئے اور ساری باتیں ہی بھول آئے 


وفا کی نگری لٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا

کسی کے حصے میں زخم آئے کسی کے حصے میں پھول آئے 


بنام فصل بہار آذرؔ وہ زرد پتے ہی معتبر تھے

جو ہنس کے رزق خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول آئے 


اعزاز احمد آذر


لبنی صفدر

 یوم پیدائش 25 دسمبر


موت سے بھی بڑی قیامت ہے

سچ کہوں زندگی قیامت ہے


دُکھ سے کُھلتی نہیں ہیں آنکھیں اب

خواب کی یہ گھڑی قیامت ہے


صاف دکھنے لگے سبھی چہرے

اب یہی روشنی قیامت ہے


راکھ جسموں کی اُڑ رہی ہے اب

عشق کی آگہی قیامت ہے


آج بولے نہیں پرندے بھی

اس قدر خامشی قیامت ہے


لبنیٰ صفدر


رضا ہمدانی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1910


یہ دور مسرت یہ تیور تمہارے

ابھرنے سے پہلے نہ ڈوبیں ستارے


بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو

کہاں تک چلو گے کنارے کنارے


عجب چیز ہے یہ محبت کی بازی

جو ہارے وہ جیتے جو جیتے وہ ہارے


سیہ ناگنیں بن کے ڈستی ہیں کرنیں

کہاں کوئی یہ روز روشن گزارے


سفینے وہاں ڈوب کر ہی رہے ہیں

جہاں حوصلے ناخداؤں نے ہارے


کئی انقلابات آئے جہاں میں

مگر آج تک دن نہ بدلے ہمارے


رضاؔ سیل نو کی خبر دے رہے ہیں

افق کو یہ چھوتے ہوئے تیز دھارے


رضا ہمدانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...