Urdu Deccan

Sunday, January 2, 2022

سیفی پریمی

 یوم پیدائش 02 جنوری 1913


ترے جمال کی زینت مری طلب سے ہے

مری حیات میں خوشبو ترے سبب سے ہے


نمود عشق کرم سے کبھی غضب سے ہے

خمار چشم سے ہے شعلہ ہائے لب سے ہے


کسے دماغ سر راہ ان سے بات کرے

دلوں میں ایک خلش خوبیٔ ادب سے ہے


قدم رکے ہیں کسی شوخ اجنبی کے لئے

یہ ذوق دید بھی کچھ تیرے زلف و لب سے ہے


جنون عشق سے اظہار عاشقی معلوم

کسے خبر کہ کوئی محو ناز کب سے ہے


یہ احتیاط محبت کہ اس صنم کے سوا

جہاں میں رسم پیام و سلام سب سے ہے


ہم اہل دل ہیں بہت بے نیاز غم سیفیؔ

یہ تاب زیست اسی محفل طرب سے ہے


سیفی پریمی


حبیب اشعر دہلوی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1919


بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے

جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے


ساغر بادۂ گل رنگ تو کچھ دور نہیں

نگہ پیر خرابات سے ڈر لگتا ہے


دل پہ کھائی ہوئی اک چوٹ ابھر آتی ہے

تیرے دیوانے کو برسات سے ڈر لگتا ہے


اے دل افسانۂ آغاز وفا رہنے دے

مجھ کو بیتے ہوئے لمحات سے ڈر لگتا ہے


ہاتھ سے ضبط کا دامن نہ کہیں چھٹ جائے

آپ کی پرسش حالات سے ڈر لگتا ہے


میں جو اس بزم میں جاتا نہیں اشعرؔ مجھ کو

اپنے سہمے ہوئے جذبات سے ڈر لگتا ہے


حبیب اشعر دہلوی


ناظم جعفری

 یوم پیدائش 01 جنوری 1940


اپنے چہرے پہ شرافت کو سجائے رہئے

صاف کپڑوں میں ہر اک عیب چھپائے رہئے


سچ کو سچ کہنے کے انجام سے ڈر لگتا ہے

اس لئے جھوٹ کلیجے سے لگائے رہئے


چشم ساقی کی عنایت کا بھرم رکھنا ہے

بے پیے بزم میں ہنگامہ مچائے رہئے


اپنے قاتل کو کبھی زحمت تشہیر نہ دیں

اپنا سر اپنے ہی نیزے پہ اٹھائے رہئے


صبح گر ہوگی تو پہچان لئے جائیں گے

شعبدے شب کے اندھیرے میں دکھائے رہئے


ان کے کوچے میں جو جانا ہے تو ہشیار رہیں

برف کو آگ کے شعلوں سے بچائے رہئے


لاکھوں الزام سے بچنے کا سلیقہ یہ ہے

مجھ کو الزام کی سولی پہ چڑھائے رہئے


درد آنکھوں سے ٹپک جائے گا آنسو بن کر

لاکھ ہونٹوں پہ تبسم کو سجائے رہئے


آپ برداشت نہ کر پائیں گے ناظمؔ کا وجود

یہ جو دیوانہ بنا ہے تو بنائے رہئے


ناظم جعفری


عبرت بہرائچ

 یوم پیدائش 01 جنوری 1933


انس تو ہوتا ہے دیوانے سے دیوانے کو

کوئی اپنا کے دکھائے کبھی انجانے کو


خودکشی جیسا کوئی جرم نہیں دنیا میں

کوئی بتلاتا نہیں جا کے یہ پروانے کو


ساقیٔ وقت نے جب چھین لی ہاتھوں سے شراب

میں نے ٹکرا دیا پیمانے سے پیمانے کو


خاک زادہ نہیں پیدا ہوا ایسا کوئی

جو حقیقت میں بدل دے مرے افسانے کو


ابرہہ جیسا اگر ہو گیا پیدا کوئی

کیا بچا پائیں گے ہم اپنے خدا خانے کو


ایک مفسد کی یہ پھیلائی ہوئی ہے افواہ

رات بھر شمع سے نفرت رہی پروانے کو


عبرت بہرائچی


سید مبارک شاہ

 یوم پیدائش 01 جنوری 1961


وہ جو مبتلا ہے محبتوں کے عذاب میں

کوئی پھوٹتا ہوا آبلہ ہے حباب میں


مرا عشق شرط وصال سے رہے متصل

نہیں دیکھنا مجھے خواب شب شب خواب میں


جو کشید کرنے کا حوصلہ ہے تو کیجئے

کہ ہزار طرح کی راحتیں ہیں عذاب میں


یہ طواف کعبہ یہ بوسہ سنگ سیاہ کا

یہ تلاش اب بھی ہے پتھروں کے حجاب میں


بڑی لذتیں ہیں گناہ میں جو نہ کیجئے

جو نہ پیجئے تو عجب نشہ ہے شراب میں


سبھی عذر ہائے گناہ جب ہوئے مسترد

تو دلیل کیسی دفاع کار ثواب میں


سید مبارک شاہ


گل رابیل

 یوم پیدائش 01 جنوری 1977


رہتا ہے کوئی حسن کا پیکر مرے اندر

کہرام مچاتا ہے جو دن بھر مرے اندر


یہ بات الگ ہے کبھی آنسو نہیں آئے

بہتا ہے مگر غم کا سمندر مرے اندر


چہروں کے خدوخال سے یہ فرق عیاں ہے 

بستی ہے لگن آپ کے باہر، مرے اندر


جس دن کہ تجھے دیکھ کے پائی تھی مسرت

ٹہرا ہے اُسی دن سے وہ منظر مرے اندر


جو جسم کے مندر کو سمجھتا ہی نہیں ہے

رہ جائے گا وہ شخص الجھ کر مرے اندر


اس شخص کو مل کر میں کہیں ٹوٹ نہ جاؤں

چلتے ہیں خیالات کے پتھر مرے اندر


دیکھا ہے اسے آج کہیں بیس برس بعد

تصویر نے بدلے کئی تیور، مرے اندر


مستی ہے یہ مجھ میں دلِ درویش کے دم سے

کرتا ہے کوئی رقص، قلندر مرے اندر


گل یہ بھی نہ پوچھے گی کہ کیا تم کو پتا ہے ؟؟

رہتا ہے سوالوں کا بونڈر مرے اندر


 گُلِ رابیل


ناصر فیروزآبادی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1960


روز اپنا محاسبہ کیجئے

ہر عمل کا حساب دینا ہے

سوچ لیں یہ گناہ سے پہلے

حشر میں کل جواب دینا ہے


ناصر فیروزآبادی


بصر اعظمی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1955


تو حسن تمنا ہے میں تیرا تمنائی

تیرے ہی تصور میں گزرے میری تنہائی


کھولو نہ ابھی زلفیں بکھراؤ نہ یوں خوشبو

 آنگن میں چلے آ ئینگے آہوئے صحرائی

 

 یوں حرص و محبت کا ہم فرق سمجھتے ہیں

 وہ لوگ ہیں سوداگر ہم لوگ ہیں سودائی

  

 پھر درد جواں ہوگا پھر زخم ہرے ہونگے 

 یادوں کی تیری پھر سے چلنے لگی پروائی


اک خواب محبت کا دیکھا تھا کبھی ہم نے 

اس دن سے ان آنکھوں میں پھر نیند نہیں آئی


بصر اعظمی


کاظم علی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1990


لاکھ چاہا میں نے مگر، نہ ملا

مجھ کو اک شخص عمر بھر، نہ ملا


عمر اک سجدے میں گزرتی مری

سر جھکانے کو، کوئی در، نہ ملا


مجھ کو بھی کوئی اور بھایا نہیں

اس کو بھی کوئی خوب تر، نہ ملا


یوں تو حاصل تھی کائنات مجھے

جس کو ملنا تھا، خاص کر، نہ ملا


جو ملا، عمر بھر وہ ساتھ رہا

غم مجھے کوئی مختصر، نہ ملا


کاظم علی


شاہد ٹانڈوی

 یوم پیدائش 01 جنوری


پر کٹتے گئے پر تجھے افسوس نہیں ہے

کرنا ہے تو کچھ کر تجھے افسوس نہیں ہے 


اے شاہ تری قوم ہے برباد یہاں پر

جو چاہے تو کر گر تجھے افسوس نہیں ہے


فرعون سے لڑ جانے کی تاریخ بُھلا دی

اب لگنے لگا ڈر تجھے افسوس نہیں ہے


برسات جو ہو جائے چھپائے گا کہاں سر

بچنے کو نہیں گھر تجھے افسوس نہیں ہے


وعدہ ہے عبادت کا کہیں اور کہیں پر

جھکتا ہے ترا سر تجھے افسوس نہیں ہے


تدبیر نہیں کرتا حفاظت کی یہاں پر

بھٹکے ہے تو دردر تجھے افسوس نہیں ہے


بزدل کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ تو لڑ

مرنا ہے تو یوں مر تجھے افسوس نہیں ہے


معمولی سے ٹاپو پہ ستاتے ہیں تجھے اب

ہوتا ہے یہ اکثر تجھے افسوس نہیں ہے


مظلوم کی فریاد پہ وہ سندھ میں آنا

اب کیوں نہیں ازبر تجھے افسوس نہیں ہے


رنگینیوں کو چھوڑ صحابہ کی طرح جی

ہے لقمہ ترا تر تجھے افسوس نہیں ہے


ٹھوکر میں تری قیصر و کسریٰ وہ کبھی تھے

محور ہے ترا زر تجھے افسوس نہیں ہے

 

ظالم کے لیے تنگ تھی شاہد یہ ہی دنیا

کرتا ہے یہ ٹرٹر تجھے افسوس نہیں ہے


   شاہد ٹانڈوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...