یوم پیدائش 11 جنوری 1980
شرمندگیِ ترکِ وفا ہے کہ نہیں ہے
یاد اس کو محبت کا صلہ ہے کہ نہیں ہے
اس شوخ کی آنکھوں میں ذرا جھانک کے کہیے
ان آنکھوں میں تجدید نشہ ہے کہ نہیں ہے
کیوں شہر تہہ آب ہوا غور تو کیجے
اس میں کہیں زلفوں کی خطا ہے کہ نہیں ہے
تو دور ہوا مجھ سے ، بہت خوب ہے دعوی
دل تیرا مگر دور ہوا ہے کہ نہیں ہے
بن بیٹھا پرستار بتِ سنگ کا ناداں
یہ دیکھ مگر ، وہ بھی خدا ہے کہ نہیں ہے
ذیشان متھراوی