Urdu Deccan

Wednesday, January 12, 2022

ذیشان متھراوی

 یوم پیدائش 11 جنوری 1980


شرمندگیِ ترکِ وفا ہے کہ نہیں ہے

یاد اس کو محبت کا صلہ ہے کہ نہیں ہے


اس شوخ کی آنکھوں میں ذرا جھانک کے کہیے

ان آنکھوں میں تجدید نشہ ہے کہ نہیں ہے


کیوں شہر تہہ آب ہوا غور تو کیجے

اس میں کہیں زلفوں کی خطا ہے کہ نہیں ہے


تو دور ہوا مجھ سے ، بہت خوب ہے دعوی

دل تیرا مگر دور ہوا ہے کہ نہیں ہے


بن بیٹھا پرستار بتِ سنگ کا ناداں

یہ دیکھ مگر ، وہ بھی خدا ہے کہ نہیں ہے


ذیشان متھراوی


انجم اوکاڑوی

 یوم پیدائش 11 جنوری 1966


بھروسے کے مارے جفا کے ستائے

جنوں میں ہیں ہم، کوئی رستہ بتائے


سبھی کے اشاروں کا مرکز بنے ہیں 

ترے طعنے ہر کوئی ہم کو سنائے


نہیں اعتبار اب محبت ترا بھی 

دلائے یقیں چاہے قسمیں بھی کھائے


وہ اپنی انا کا پجاری ہے لوگو 

بھلے یاد کر لے بھلے وہ بھلائے


ہیں بیٹھے ہوئے منتظر ہم قضاکے

بلا لے وہ کل چاہے اب ہی بلائے


اسی کے ہی ہاتھوں میں ہیں ہم تو انجم

ہمیں دفن کر دے بھلے وہ جلائے 


 انجم اوکاڑوی


عنبر شمیم


 یوم پیدائش 11 جنوری 1959


کوئی دیوار نہ در باقی ہے 

دشت خوں حد نظر باقی ہے 


سب مراحل سے گزر آیا ہوں 

اک تری راہ گزر باقی ہے 


صبح روشن ہے چھتوں کے اوپر 

رات پلکوں پہ مگر باقی ہے 


خواہشیں قتل ہوئی جاتی ہیں 

اک مرا دیدۂ تر باقی ہے 


کون دیتا ہے صدائیں مجھ کو 

کس کے ہونٹوں کا اثر باقی ہے 


کٹ گئی شاخ تمنا عنبرؔ 

نا امیدی کا شجر باقی ہے


عنبر شمیم

انجم فوقی بدایونی

 یوم پیدائش 11 جنوری 1911


بن گئی ناز محبت طلب ناز کے بعد

اور بھی ایسے کئی راز ہیں اس راز کے بعد


قدر کیا سوز تجلی کی سحر ساز کے بعد

ٹھہر سکتی نہیں شبنم مری پرواز کے بعد


اپنی منزل تو بنا لیتے ہیں دنیا والے

میں کہاں جاؤں تری جلوہ گہہ ناز کے بعد


میں ہی دنیا کی صدا بن کے نہیں ہوں خاموش

خود بھی چپ ہو گئی دنیا مری آواز کے بعد


لوگ آغاز سے کرتے ہیں تلاش انجام

میں نے انجام نہ سوچا کبھی آغاز کے بعد


میں گنہ گار نشیمن ہوں نہ پابند قفس

فطرتاً کچھ تو سکوں چاہیے پرواز کے بعد


اس محبت میں ہے توہین محبت انجمؔ

وہ اگر مجھ کو پکاریں مری آواز کے بعد


انجم فوقی بدایونی


منصور مختار اعوان

 یوم پیدائش 10 جنوری


عشق کے آئینے میں رہتے ہیں

رات بھر رتجگے میں رہتے ہیں


عاشقوں کو مراد ملتی ہے

ہجر کے سلسلے میں رہتے ہیں


جن پہ ہو جائے اک نگہ مستم 

مست وہ ولولے میں رہتے ہیں


عمر ساری نہیں مفر ممکن

لوگ اپنے کیے میں رہتے ہیں


شوق چلنے کا دل کے اندر ہے

ہم تبھی راستے میں رہتے ہیں


اب اسی کا خمار ہے منصور

اب اسی کے نشے میں رہتے ہیں


منصور مختار اعوان


معراج احمد معراج

 یوم پیدائش 10 جنوری 1966

 منتخب اشعار

        

سبھی کے واسطے ہے ان کی چھاؤں کی دولت 

کبھی کسی سے عداوت درخت رکھتے نہیں


سبق خلوص کا دیتا ہے وہ شجر معراجؔ

جو تیز دھوپ میں سایہ فگن ہے برسوں سے


یہی اصول ہے دنیا کا یہ خیال رکھو

ہزار پیڑ لگاؤگے پھل نہ پاؤگے


کسی درخت کے سائے میں مت کرو آرام

کہ زندگی کا سفر دیر تک نہیں رہتا


دھوپ مجھ تک نہ پہنچنے دی کبھی ا ے معراجؔ

کچھ درختوں نے مجھے پھولنے پھلنے نہ دیا


گرے ہیں جہاں میری آنکھوں سے تارے

وہیں سے اُگے گا شجر روشنی کا


نہ گل نہ برگ نہ اثمار پیدا کرتا ہے

عجب شجر ہے فقط خار پیدا کرتا ہے


جس شجر میں ثمر نہیں ہوتا

وہ شجر کیا شجر نہیں ہوتا


حسن کی سرپھری پروائی سے ڈر لگتا ہے

اک جواں پیڑ ہوں تنہائی سے ڈر لگتا ہے


آخر کس موسم نے ڈسا ہے میرے باغ کے پیڑوں کو

ڈالی ڈالی سوکھ رہی ہے پتہ پتہ زردی ہے



اگر درخت کی دشمن جڑیں ہی ہو جائیں

تو وہ بہار میں بھی پھول پھل نہیں سکتا


 معراج احمد معراج

ندیم ماہر

 یوم پیدائش 10 جنوری 1970


گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں

دسترس سے نکل رہا ہوں میں


دھوپ کا بھی عجب تماشہ ہے

اپنے سائے پہ چل رہا ہوں میں


گفتگو ہے میری گلابوں سی

شخصیت میں کنول رہا ہوں میں


دھوپ جب سے ملی ہے چہرے پر

رفتہ رفتہ پگھل رہا ہوں میں


گرد میرے ہے وحشتوں کا ہجوم

ایک جنگل میں پل رہا ہوں میں


ایک ہچکی کا کھیل ہے ماہرؔ

اس قدر کیوں مچل رہا ہوں میں


ندیم ماہر


یوم پیدائش 10 جنوری 1970


گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں

دسترس سے نکل رہا ہوں میں


دھوپ کا بھی عجب تماشہ ہے

اپنے سائے پہ چل رہا ہوں میں


گفتگو ہے میری گلابوں سی

شخصیت میں کنول رہا ہوں میں


دھوپ جب سے ملی ہے چہرے پر

رفتہ رفتہ پگھل رہا ہوں میں


گرد میرے ہے وحشتوں کا ہجوم

ایک جنگل میں پل رہا ہوں میں


ایک ہچکی کا کھیل ہے ماہرؔ

اس قدر کیوں مچل رہا ہوں میں


ندیم ماہر


پیغام آفاقی

 یوم پیدائش 10 جنوری 1956


خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے

رہ گزر تھے یہ راہگیر نہ تھے


رہنما تھے کبھی وہ سچ ہے مگر

یہ بھی سچ ہے کہ میرے پیر نہ تھے


ہم نے زنداں کی باغبانی کی

موسم گل کے ہم اسیر نہ تھے


پتھر آئے تھے آئینے بن کے

ورنہ ہم اتنے بے ضمیر نہ تھے


اپنا انداز زیست ہے پیغامؔ

یہ تماشے تھے ناگزیر نہ تھے


پیغام آفاقی


سیفی سرونجی

یوم پیدائش 28 اپریل 1952


کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی 

یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی 


پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے 

ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی

 

ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا 

برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی

 

آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی 

گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی 


ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر 

مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی 


کس درجہ خوش گوار ہے تنہائیوں میں آج 

سیفیؔ چمکتے چاند ستاروں کی زندگی 


سیفی سرونجی


مائل لکھنوی

 تاریخ وفات 10 جنوری 1968

سن ولادت: 1905


نگاہِ ناز کی پہلی سی برہمی بھی گئی

میں دوستی کو ہی روتا تھا دشمنی بھی گئی


یاد اور ان کی یاد کی اللہ رے محویت 

جیسے تمام عمر کی فرصت خرید لی 


نہ پوچھ کیسے گزاری ہے زندگی میں نے 

گزارنے کی تھی اک شے گزار دی میں نے 


محبت اور مائلؔ جلد بازی کیا قیامت ہے 

سکون دل بنے گا اضطراب آہستہ آہستہ 


نظر اور وسعت نظر معلوم 

اتنی محدود کائنات نہیں 


 میں نے دیکھے ہیں دہکتے ہوئے پھولوں کے جگر 

دل بینا میں ہے وہ نور تمہیں کیا معلوم 


 دعوۂ انسانیت مائلؔ ابھی زیبا نہیں 

پہلے یہ سوچو کسی کے کام آ سکتا ہوں میں 


 سیلاب عشق غرق کن عقل و ہوش تھا 

اک بحر تھا کہ شام و سحر گرم جوش تھا 


مائل لکھنوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...