یوم پیدائش 01 فروری 1922
ہماری سمت ہیں سارے ڈھلاؤ
پڑا ہر سیل کا ہم پر دباؤ
ملے ہیں سادہ لوحی کی سزا میں
لٹیرے ناخدا کاغذ کی ناؤ
وہاں بھی وحشتیں تنہائیاں ہیں
ذرا صحرا سے واپس گھر تو جاؤ
نہ جانے کب یہ آگ آ جائے باہر
کہ سینوں میں دہکتے ہیں الاؤ
ہوا کا جس طرف رخ ہو گیا ہے
اسی جانب ہے شاخوں کا جھکاؤ
زمیں کیا آسماں بھی منتظر ہے
حصار ذات سے باہر تو آؤ
کہیں گے لوگ احسنؔ تم کو پاگل
محبت ہے تو یہ تہمت اٹھاؤ
احسن علی خاں