Urdu Deccan

Tuesday, February 1, 2022

احسن علی خان

 یوم پیدائش 01 فروری 1922


ہماری سمت ہیں سارے ڈھلاؤ

پڑا ہر سیل کا ہم پر دباؤ


ملے ہیں سادہ لوحی کی سزا میں

لٹیرے ناخدا کاغذ کی ناؤ


وہاں بھی وحشتیں تنہائیاں ہیں

ذرا صحرا سے واپس گھر تو جاؤ


نہ جانے کب یہ آگ آ جائے باہر

کہ سینوں میں دہکتے ہیں الاؤ


ہوا کا جس طرف رخ ہو گیا ہے

اسی جانب ہے شاخوں کا جھکاؤ


زمیں کیا آسماں بھی منتظر ہے

حصار ذات سے باہر تو آؤ


کہیں گے لوگ احسنؔ تم کو پاگل

محبت ہے تو یہ تہمت اٹھاؤ


احسن علی خاں


سید منظر حسن دسنوی

 یوم پیدائش 01 فروری 1914


تبسم لب پہ آنکھوں میں محبت کی کہانی ہے

تمہاری ہر ادا میں اک نشاط کامرانی ہے


بہت ہی مختصر اپنی حدیث زندگانی ہے

ترے عارض کے جلوے ہیں مرا خواب جوانی ہے


اسی ساغر میں ساقی دیکھ آب زندگانی ہے

کہ موج مے میں پنہاں راز عمر جاودانی ہے


وہی تنہائی کا عالم وہی ہے یاد پھر ان کی

وہی میں ہوں وہی پھر سوز غم ہائے نہانی ہے


بہار آئی ہے گلشن میں مگر کمھلا گئے غنچے

گلوں کے لب پہ یا رب آج کانٹوں کی کہانی ہے


اجل کو بھی پکارا ہے دعائے زیست بھی کی ہے

کبھی دشت جنوں کی ہم نے منظرؔ خاک چھانی ہے


سید منظر حسن دسنوی


احمد تبسم

 یوم پیدائش 01 فروری 1936


 یہ ذائقہ شناس لبوں کا قیاس ہے

 اس کے لبوں میں تازہ پھلوں کی مٹھاس ہے

         

  اک محویت کی شام مرے آس پاس ہے

   بیٹھا ہوں اور سامنے خالی گلاس ہے

          

 آنکھوں کو ڈس رہی ہے دہکتی برہنگی

  ماحول کا گداز بدن بے لباس ہے

           

  یادوں کی میز پر کوئی تصویر چھوڑ دو

  کب سے ہمارے ذہن کا کمرہ اداس ہے

  

احمد تبسم


پارس مزاری

 یوم پیدائش 01 فروری


پھل بنائے مگر ٹہنیاں چھوڑ دیں 

تم نے تصویر میں خامیاں چھوڑدیں 


آتے جاتے رہے مجھ سمندر پہ لوگ 

موتی چنتے رہے سیپیاں چھوڑ دیں


ہاتھ سے ہاتھ کا بغض قائم رہا 

انگلیاں تھام لیں انگلیاں چھوڑ دیں


اور پھر ایک دن ایسا گریہ کیا 

یوں سمجھ لو کھلی ٹونٹیاں چھوڑدیں


اس نے کم ظرف کو کر دیا ہے اَمیر 

اُس نے تالاب میں کشتیاں چھوڑ دیں 


تیرے کورے پروں سے اسے کیا غرض 

جس نے رنگوں بھری تتلیاں چھوڑ دیں


پارس مزاری


خالق عبداللہ

 یوم پیدائش01 فروری 1947


جنوں والوں سے ہرگز دشت پیمائی نہ جائے گی

ہزاروں شہر رکھ دو ، ان کی تنہائی نہ جائے گی


ہمیشہ پیار کا بادل ہی بن کر میں تو برسا ہوں

فضا جو بھی ہو مجھ سے آگ برسائی نہ جائے گی


تمھیں جانا ہے جاؤ توڑ دو سب پیار کے رشتے

تمھارے ساتھ تو اس گھر کی انگنائی نہ جائے گی


پرندوں کو فضا میں روک لیں گے روکنے والے

عقابوں کو مگر زنجیر پہنائی نہ جائے گی


میں بوسہ ریت کا لے کر ہوا ہوں پھر ترو تازہ

مرے چہرے سے ہرگز اب یہ رعنائی نہ جائے گی


ارے ویرانیو! جاؤ ٹھکانا اور ہی ڈھونڈو

یہ وہ آنکھیں ہیں جن کی خواب آرائی نہ جائے گی


کسی کی یاد کی ہے چاندنی چھٹکی ہوئی گھر میں

جھٹک دو لاکھ ذہنوں سے یہ ہرجائی نہ جائے گی


خالق عبداللہ


حسنین آفتاب

 یوم پیدائش 01 فروری 1994


آنکھ کُھلتے ہی مُلاقات ادھوری رہ جائے

گویا اک خواب کی خیرات ادھوری رہ جائے


تاکہ تُو سمجھے بچھڑنے کی اذیت کیا ہے

آخری کال ہو اور بات ادھوری رہ جائے


زندگی خواجہ سراؤں کی طرح ہو جیسے

ایک پہلو کے سبب ذات ادھوری رہ جاٸے 


ایسے لیٹی ہے مرے دل میں اداسی اب تو

جیسے دلہن کی نئی رات ادھوری رہ جائے


میں ترے بعد کسی پر بھی مکمل نہ کھُلا،

ایسے ملتا ہوں، مُلاقات ادھوری رہ جائے


لوٹ آٶ۔۔۔۔ مرے بچھڑے ہوٸے پیارے لوگو

 اِس سے پہلے کہ مری ذات ادھوری رہ جائے

 

حسنین آفتاب


الماس کبیر جاوید

 یوم پیدائش 01 فروری 


ایک اک بوند ،رگِ جاں میں اتر جانے دے

   بھیگتی رت ہے مجھے اور نکھر جانے دے


ہاتھ ہاتھوں میں لیے بیٹھا ہے ، کیسے کہہ دوں

شام ڈھلنے لگی اب لوٹ کے گھر جانے دے


 پونچھ مت اسکو مسرت سے چھلک آیا ہے

اشک آنکھوں میں تجھے دیکھ کے بھر جانے دے


بعد میں پوچھنا گہرائی کا مطلب ہم سے

پہلے کشتی کو سمندر میں اتر جانے دے


جانتی ہُوں کہ جدا دونوں کے رستے ہیں،مگر

مُجھکو خوابوں کی گلی سے تو گزر جانے دے


ضبط ٹوٹے گا تو دریا تجھے لے ڈوبے گا

اور کچھ دیر ابھی اشکوں کو ٹھہر جانے دے


ٹوٹ جائے نہ کہیں سانس کی کچّی ڈوری

تُجھ سے ملنا تھا،بس اِک بار مگر جانے دے


الماس کبیر جاوید


منظر اعظمی

 یوم پیدائش 01 فروری 1984

                                                                                    

ہم سے ہی دو چار ہیں بس یارو بسمل کی طرف           

لوگ سارے ہوگئے ہیں اب تو قاتل کی طرف                


کوئی ساتھی ہے نہ رہبر زندگی کی راہ میں                 

کب سے تنہا چل رہا ہوں اپنی منزل کی طرف  


 جس جگہ تضحیک ہوتی ہے کسی انسان کی                

 میں تو جاتا ہی نہیں ہوں ایسی محفل کی طرف 

 

غم کے دریا میں کبھی جب ڈوبنے لگتا ہوں میں    

کھینچ لاتی ہے تمہاری یاد ساحل کی طرف


حوصلہ رکھتا نہیں جو اس کا حافظ ہے خدا               

مجھ سے دیکھا ہی نہیں جاتا ہے بزدل کی طرف


جس جگہ ملنے کا وعدہ تھا مرے وعدہ شکن               

میں چلا جاتا ہوں تنہا اب بھی ساحل کی طرف 

    

میں جیے جاتا ہوں منظر حق کی خاطر آج بھی           

ہاتھ پھر کیسے بڑھادوں اپنا باطل کی طرف 


منظر اعظمی


ایڈوکیٹ متین طالب

 یوم پیدائش 01 فروری 1984


خود امیرِ شہر سائل ہے ، کرے امداد کون

اب ہمارے خشک ہونٹوں کی سنے فریاد کون


کس کی آہوں سے مچی ہے آسماں میں کھلبلی

دار پر کھینچا گیا ہے پھر دلِ ناشاد کون


کر رہے ہیں مصلحت کی مجھ کو بس تلقین سب

بزدلوں کے شہر میں دے حوصلے کی داد کون


جن پرندوں کو قفس کی زندگی راس آگئی

اُن پرندوں کو قفس سے اب کرے آزاد کون


ہاں ! درندے تو نہیں لیکن یہ انساں بھی نہیں

شہر جنگل بن گیا ہے ہوگئے آباد کون


میری غزلوں میں مسرت کا کوئی ساماں نہیں

قہقہوں کے شور میں میری سنے روداد کون


چاہتے ہیں سب کہ گاؤں کی ندی پر پل بنے

مسئلہ یہ ہے کہ اُس پل کی رکھے بنیاد کون


میں نے آئینہ دکھایا ہے غزل سے بزم کو

دیتا ہے طالب کو یارو! دیکھیے اب داد کون


ایڈوکیٹ متین طالبؔ


شاذ تمکنت

 یوم پیدائش 31 جنوری 1933


مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے

تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے 


وہ کشتیاں مری پتوار جن کے ٹوٹ گئے

وہ بادباں جو ترستے رہے ہوا کے لیے 


بس ایک ہوک سی دل سے اٹھے گھٹا کی طرح

کہ حرف و صوت ضروری نہیں دعا کے لیے 


جہاں میں رہ کے جہاں سے برابری کی یہ چوٹ

اک امتحان مسلسل مری انا کے لیے 


نمیدہ خو ہے یہ مٹی ہر ایک موسم میں

زمین دل ہے ترستی نہیں گھٹا کے لیے


میں تیرا دوست ہوں تو مجھ سے اس طرح تو نہ مل

برت یہ رسم کسی صورت آشنا کے لیے 


ملوں گا خاک میں اک روز بیج کے مانند

فنا پکار رہی ہے مجھے بقا کے لیے 


مہ و ستارہ و خورشید و چرخ ہفت اقلیم

یہ اہتمام مرے دست نارسا کے لیے 


جفا جفا ہی اگر ہے تو رنج کیا ہو شاذؔ

وفا کی پشت پناہی بھی ہو جفا کے لیے


شاذ تمکنت


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...