یوم پیدائش 04 فروری
گرچہ آنکھوں نے سب ہی بول دیا
پھر بھی بہتر ہے اُن سے پوچھ میں لوں
عاصم قادری
یوم پیدائش 04 فروری
کوئی میرے قریں نہیں ہوتا
عشق مجھ سے کہیں نہیں ہوتا
کچھ میں خلوت مقیم ہوتی ہے
ہر مکاں کا مکیں نہیں ہوتا
میں گماں سے نکل نہیں پایا
آپ آئے یقیں نہیں ہوتا
فصل غم بھی کمال ہوتی ہے
وقت بنجر زمیں نہیں ہوتا
دشت کی پیاس خوں بجھاتا ہے
مجھ سا صحرا نشیں نہیں ہوتا
ہم ہی ایجاد کرتے ہیں دکھ درد
کوئی بھی دل حزیں نہیں ہوتا
ہم ہی آفاق تک پہنچتے ہیں
آسماں یہ زمیں نہیں ہوتا
حسن ظن رکھنا ہوتا ہے ارشد
کوئی منظر حسیں نہیں ہوتا
ارشد فرات
یوم وفات 04 فروری 1922
رنگ فطرت ہے وجہ حیرانی
عقل ہے اور حیائے نادانی
رازداں مدعا کو کہتے ہیں
حسن الفت کا داغ پیشانی
حسن باقی نے دل کو کھینچ لیا
رخصت اے حسن ہستئ فانی
دل ہے وقف رجائے رحم و کرم
جاں ہے نذر رضائے ربانی
اب میں سمجھی کہ ہے فنائے خودی
انبساط بہشت لافانی
غم نہ کر ہے نقیب ابر بہار
خشکیٔ موسم زمستانی
دل صد پارہ کے الم گن لوں
دیکھی جائے گی سبحہ گردانی
کر سکے طے نہ ملک عرفاں کو
رومی و مغربی و کرمانی
دورئ بزم دوست کے غم میں
محو افغاں ہے اک افغانی
عرش کے کنگرے پہ طائر قدس
رات کرتا تھا یوں خوش الحانی
کہ ہے انساں طلسم شان خدا
قدر اپنی نہ اس نے پہچانی
بند کیں اس نے جب ذرا آنکھیں
کھل گیا راز بزم امکانی
چارۂ روح فلسفی ہے نہ شیخ
ایک وہمی ہے ایک خفقانی
کثرت این و آں میں وحدت دوست
کنج نایاب کی فراوانی
شیخ رنج بیاں کا ڈر نہ کرے
لا بیاں ہے یہ کیف وجدانی
متشکک ہے اور شکایت ہجر
نزہت اور شکر لطف پنہانی
زاہدہ خاتون شروانیہ
یوم پیدائش 04 فروری 1964
مری اوقات وہ اس طرح بتا دیتا ہے
خاک لے کر کے ہواؤں میں اڑا دیتا ہے
میں بہت دور چلا جاتا ہوں جب بھی خود سے
"میرے اندر سے کوئی مجھ کو صدا دیتا ہے"
لاکھ کرتا رہا میں اس کو بھلانے کی سعی
یاد رہ رہ کے کوئی اس کی دلا دیتا ہے
جب بھی چاہا کہ اسے بڑھ کے میں فوراً چھو لوں
کچی نیندوں سے کوئی مجھ کو جگا دیتا ہے
اس سے وابستہ ہیں کچھ ایسی پرانی یادیں
جب بھی آتا ہے مری نیند اڑا دیتا ہے
نسیم احمد نسیم
یوم پیدائش 04 فروری 1936
شور دریا ہے کہانی میری
پانی اس کا ہے روانی میری
کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے
مجھ کو تصویر پرانی میری
جب بھی ابھرا ترا مہتاب خیال
کھل اٹھی رات کی رانی میری
بڑھ کے سینے سے لگا لیتا ہوں
جیسے ہر غم ہو نشانی میری
مہرباں مجھ پہ ہے اک شاخ گلاب
کیسے مہکے نہ جوانی میری
پھر ترے ذکر کی سرسوں پھولی
پھر غزل ہو گئی دھانی میری
کچھ تو اعمال برے تھے اپنے
کچھ ستاروں نے نہ مانی میری
لکھی جائے گی ترے برف کے نام
جو تمنا ہوئی پانی میری
تم نے جو بھی کہا میں نے مانا
تم نے اک بات نہ مانی میری
مختصر بات تھی جلدی بھی تھی کچھ
اس پہ کچھ زود بیانی میری
باقر نقوی
یوم پیدائش 04 فروری 1903
وہی جوش حق شناسی وہی عزم برد باری
نہ بدل سکا زمانہ مری خوئے وضع داری
وہی مے کدہ ہے لیکن نہیں اب وہ کیف باری
گئے ہم مذاق لے کے مرا لطف بادہ خواری
ہو زبان جس کے منہ میں وہ نہ آئے انجمن میں
کہیں رکھ نہ دے ستم گر یہی شرط راز داری
کبھی ہنستے ہنستے رونا کبھی روتے روتے ہنسنا
کوئی کیا سمجھ سکے گا بھلا مصلحت ہماری
میں زمانے بھر کے طعنے نہ خموش ہو کے سنتا
جو جنون عشق ہوتا مرا فعل اختیاری
مئے عاشقی سے توبہ ہے جنون پارسائی
کہیں لے نہ ڈوبے واعظ تجھے زعم ہوشیاری
نہ پہنچ سکا جہاں تک کبھی پائے کبر و دانش
وہیں جرمؔ لے گئی ہے مجھے میری خاکساری
جرم محمد آبادی
یوم پیدائش 03 فروری 1905
اے کہ ترے وجود پر خالقِ دو جہاں کو ناز
اے کہ ترا وجود ہے وجہہ وجودِ کائنات
اے کہ ترا سر نیاز حد کمال بندگی
اے کہ ترا مقامِ عشق قرب تمام عین ذات
اے کہ تری زبان سے ربِ قدیر گلفشاں
وحی خدائے لم یزل تھی تیری ایک ایک بات
اے کہ تو فخر آدمی ، واقف سر عالمیں
لوح و قلم سے بے نیاز تیرے علوم شش جہات
تیرے عمل سے کھل گئیں تیرے بیاں سے حل ہوئیں
منطقیوں کی الجھنیں ، فلسفیوں کی مشکلات
خوگر بندگی جو تھے تیرے طفیل میں ہوئے
مالک مصر و کاشغری ، وارثِ دجلہ و فرات
مجھ سے بیاں ہو کس طرح رفعتِ شانِ احمدیؐ
تنگ مرے تصورات پست مرے تخیلات
نواب بہادر یار جنگ
یوم پیدائش 03 فروری 1939
ہمیشہ تنہا کسی دن نہ قافلے میں رہا
الگ تھلگ جو رہا ہے وہ فائدے میں رہا
کبھی ہَوا، کبھی طوفان برف کی آندھی
ہمیشہ کوئی نہ کوئی مقابلے میں رہا
وہ میرا دل ہو ‘ مرا ذہن میرا سوچ اخی
انہیں کا ذکر ہمیشہ کتابچے میں رہا
مری زمین پہ کیا کیا گذر گئے فتنے
تمہارا دل توہمیشہ مُراقبے میں رہا
ہر ایک پَل مری عمرِ رواں شمار میں ہے
کہ لمحہ لمحہ ہمیشہ محاسبے میں رہا
میں ایک لمحہ بھی غافل کہاں ہُواتجھ سے
تراخیال بیابان ‘ راستے میں رہا
میں تیرے صفحوں پہ آیا نہیں تو غم بھی نہیں
یہ کم کہاںہے مرا ذکر حاشیے میں رہا
جو آئینے سے ہٹا گم ہُوا ‘ ہَوا کی طرح
تمہارا چہرہ کہاں کوئی آئینے میں رہا
کہ اُس کا ذکر رہا صرف ذائقے کی طرح
یہ اور بات ہے جاویدؔ قافلے میں رہا
اختر جاوید
یوم پیدائش 03 فروری 1991
اِس قدر مانوس ہوں تاریکی اور آسیب سے
آنکھ چُندھیاتی ہے میری اب تو دیدہ زیب سے
مُخلصی میں گامزن ہوں مُفلسی کی راہ پر
صحبتوں کی ریزگاری گر رہی ہے جیب سے
نامہ بر اور شوخ میں سے نامہ بر ہے خوش گُلو
دشمنی ہے چُوڑیوں کی اس لیے پا زیب سے
میرا یارِ خاص بھی ہو گا مطیعِ آئنہ
میں بھی آخر کو سُلایا جاؤں گا اک سیب سے
نوچتی ہیں خواہشیں مجھ کو قطار اندر قطار
جس طرح ہو سامنا میرا کسی کاریب سے
حارث جمیل
یوم پیدائش 03 فروری 1878
کیا قصور اے عرض مطلب حسرت پرجوش کا
چشم حیراں کا گلہ ہے یا لب خاموش کا
حیرت آباد تجلی میں نہیں اس دل کا کام
صدمہ پروردہ ہو جو محنت سرائے ہوش کا
تیغ قاتل میں ترے قرباں بڑا احساں کیا
جسم بار اک روح کا تھا سر وبال اک دوش کا
پائے نازک کو ذرا دے رخصت مشق خرام
کب سے تکتی ہے قیامت منہ تری پاپوش کا
ہستیٔ حسن و تغافل پیشگی کا ہے گواہ
جاں بہ لب ہونا تمہارے عاشق مدہوش کا
کم نہ ہوگا شور نوشا نوش صہبا واعظو
دم سلامت چاہیئے امید صہبا نوش کا
امید امیٹھوی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...