یوم پیدائش 10 فروری 1947
تصور سے تیرے جو آباد ہوگی
تو پھر دل کی دنیا نہ برباد ہوگی
چھلک جائیں گے خود ہی شبنم کے آنسو
لبوں پہ جو بلبل کے فریاد ہوگی
ذرا سوچ لے اے مٹا دینے والے
مرے بعد پھر کس پہ بیداد ہوگی
شگفتہ سہسرامی
یوم پیدائش 10 فروری 1947
تصور سے تیرے جو آباد ہوگی
تو پھر دل کی دنیا نہ برباد ہوگی
چھلک جائیں گے خود ہی شبنم کے آنسو
لبوں پہ جو بلبل کے فریاد ہوگی
ذرا سوچ لے اے مٹا دینے والے
مرے بعد پھر کس پہ بیداد ہوگی
شگفتہ سہسرامی
یوم پیدائش 10 فروری 1885
اس کی کسے ہوس ہے کہ نام و نشاں رہے
دنیا میں، میں رہوں نہ مری داستاں رہے
کیوں آبرو ہو اپنی کسی کی نگاہ میں
کیوں خوبیوں کا اپنی کوئی قدر داں رہے
فصیح الدین بلخی
یوم پیدائش 10 فروری
خاک ہو کر تری چوکھٹ سے بُہارا ہوا مَیں
پھر چلا آیا محبت سے پکارا ہوا مَیں
جیت کے جشن میں بجتی ہے کہیں شہنائی
اور بھٹکتا ہوں کہیں راہ میں ہارا ہوا مَیں
گو اکیلا تھا مگر اک ترے آجانے سے
بس اکیلا نہ رہا دیکھ تو گیارہ ہوا مَیں
جن کی حسرت میں مرا جاتا ہوں لمحہ لمحہ
آ کہے کوئی اُنھیں جان سے پیارا ہوا مَیں
بادشاہی تھی توجہ تری مجھ بے کس کو
اب پھروں تختِ محبت سے اُتارا ہوا مََیں
اُن کے سینے میں نہیں دل سی کوئی شے اعزاز
اور جذبات کا ، صدمات کا مارا ہوا مَیں
خالد اعزاز
یوم پیدائش 10 فروری 1910
بجھتے ہوئے چراغ فروزاں کریں گے ہم
تم آؤگے تو جشن چراغاں کریں گے ہم
باقی ہے خاک کوئے محبت کی تشنگی
اپنے لہو کو اور بھی ارزاں کریں گے ہم
بیچارگی کے ہو گئے یہ چارہ گر شکار
اب خود ہی اپنے درد کا درماں کریں گے ہم
جوش جنوں سے جامۂ ہستی ہے تار تار
کیونکر علاج تنگی داماں کریں گے ہم
اے چارہ ساز دل کی لگی کا ہے کیا علاج
کہنے سے تیرے سیر گلستاں کریں گے ہم
کیا غم جو حسرتوں کے دیے بجھ گئے تمام
داغوں سے آج گھر میں چراغاں کریں گے ہم
واصفؔ کا انتظار ہے تھم جاؤ دوستو
دم بھر میں طے حدود بیاباں کریں گے ہم
واصف دہلوی
یوم پیدائش 09 فروری 1947
اس شہر کا حاکم بھی ہامان سا لگتاہے
ہر گھر ہی یہاں پر اب زندان سا لگتا ہے
جس شخص نے اس گھر کو سینچا تھا ، بنایا تھا
وہ شخص ہی اس گھر میں مہمان سا لگتا ہے
غم اس کی جدائی کا ، ہے بھولنا اب مشکل
کہنے کو تو یہ سب کچھ آسان سا لگتا ہے
نفرت پہ ہے اکساتا ، دشمن ہے محبت کا
اس دور کا ملا بھی شیطان سا لگتا ہے
کچھ حسن کا جادو ہے ، کچھ میری عقیدت ہے
ہر لفظ ترے لب کا قرآن سا لگتا ہے
پہلی ہی نظر میں جو دل میں تھا اتر آیا
طاہر وہ مرے دل کے ارمان سا لگتا ہے
طاہر مجید
یوم وفات 09 فروری 1978
نظام فکر نے بدلا ہی تھا سوال کا رنگ
جھلک اٹھا کئی چہروں سے انفعال کا رنگ
نہ گل کدوں کو میسر نہ چاند تاروں کو
ترے وصال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ
ذرا سی دیر کو چہرے دمک تو جاتے ہیں
خوشی کا رنگ ہو یا ہو غم و ملال کا رنگ
زمانہ اپنی کہانی سنا رہا تھا ہمیں
ابھر گیا مگر آغاز میں مآل کا رنگ
اسیر وقت ہے تو میں ہوں وقت سے آزاد
ترے عروج سے اچھا مرے زوال کا رنگ
بسان تختۂ گل میری فکر ہے آزاد
مثال قوس قزح ہے مرے خیال کا رنگ
اعجاز صدیقی
یوم پیدائش 09 فروری 1984
رکھی نہ گئی دل میں کوئی بات چھپا کر
دیوار سے ٹھہرا تھا کوئی کان لگا کر
تو خواب ہے یا کوئی حقیقت نہیں معلوم
کرتی ہوں میں تصدیق ابھی بتی جلا کر
مائل تھی میں خود اس کی طرف کیا پتا اس کو
وہ مجھ سے مخاطب ہوا رومال گرا کر
ملنے کے لئے کیسی جگہ ڈھونڈھ لی تم نے
میں چھو بھی نہیں سکتی تمہیں ہاتھ بڑھا کر
گزری کسی کی رات غم ہجر میں روتے
کمرہ کسی نے رکھا تھا پھولوں سے سجا کر
پھر کوئی نیا کام نکل آیا تھا کم بخت
بیٹھی بھی نہیں تھی میں ابھی کھانا بنا کر
بیٹے نے کہا ماں مجھے مطلب بھی بتاؤ
اٹھنے ہی لگی تھی اسے قرآن پڑھا کر
زہرا قرار
یوم پیدائش 09 فروری 1977
کرم تم پہ ہم پر عنایت کریں گے
اگر ہم کسی کی عیادت کریں گے
بیاں ہم عمر کی حکایت کریں گے
جوانو کی جب بھی قیادت کریں گے
کوئی اُس کا معنی نہ مفہوم ہوگا
وہ گرچہ فصاحت بلاغت کریں گے
چلے بن سنور کے اُنھیں رو کو ورنہ
قیامت سے پہلے قیامت کریں گے
بھرم ہے ہمارا زمانے کے منصف
ہمارے ہی حق میں سماعت کریں گے
ترے غم کے بدلے تری یاد سے ہم
یونہی آنسوؤں کی تجارت کریں گے
ہُجومِ تمنا میں بہتی ہیں آنکھیں
کبھی خواب ہوگا زیارت کریں گے
بروزِ قیامت شرر کی بھی آقاﷺ
خدا کے کرم سے شفاعت کریں گے
خضر احمد خان شرر
یوم پیدائش 09 فروری 1938
مسحور فضا کیوں ہے مجبور صبا کیوں ہے
رنگوں کے حصاروں میں نغمات کا جادو ہے
موجوں سے الجھنا کیا طوفان سے گزرنا کیا
ہر ڈوبنے والے کو احساس لب جو ہے
اس دور خرد میں بھی اے کاش یہ ممکن ہو
تو سوچے کہ بس میں ہوں میں سمجھوں کہ بس تو ہے
کب آنکھ جھپک جائے تصویر بدل جائے
ہر لمحہ سبک رو ہے ہر جلوہ تنک خو ہے
بازار تمنا کی ہر چیز ہی نازک ہے
اجناس غم دل ہیں پلکوں کی ترازو ہے
ظہیر صدیقی
یوم وفات 09 فروری 1936
تابش حسن حجاب رخ پر نور نہیں
رخنہ گر ہو نگہ شوق تو کچھ دور نہیں
شب فرقت نظر آتے نہیں آثار سحر
اتنی ظلمت ہے رخ شمع پہ بھی نور نہیں
راز سربستۂ فطرت نہ کھلا ہے نہ کھلے
میں ہوں اس سعی میں مصروف جو مشکور نہیں
صرف نیرنگئ نظارہ ہے خود اپنا وجود
عین وحدت ہے کوئی ناظر و منظور نہیں
نظر آتا نہیں گو منزل مقصد کا نشاں
ذوق صادق یہی کہتا ہے کہ کچھ دور نہیں
برق دہلوی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...