Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

شگفتہ سہسرامی

 یوم پیدائش 10 فروری 1947


تصور سے تیرے جو آباد ہوگی 

تو پھر دل کی دنیا نہ برباد ہوگی 


چھلک جائیں گے خود ہی شبنم کے آنسو 

لبوں پہ جو بلبل کے فریاد ہوگی 


ذرا سوچ لے اے مٹا دینے والے 

مرے بعد پھر کس پہ بیداد ہوگی


شگفتہ سہسرامی


فصیح الدین بلخی

 یوم پیدائش 10 فروری 1885


اس کی کسے ہوس ہے کہ نام و نشاں رہے

دنیا میں، میں رہوں نہ مری داستاں رہے

کیوں آبرو ہو اپنی کسی کی نگاہ میں

کیوں خوبیوں کا اپنی کوئی قدر داں رہے


فصیح الدین بلخی


خالد اعزاز

 یوم پیدائش 10 فروری


خاک ہو کر تری چوکھٹ سے بُہارا ہوا مَیں 

پھر چلا آیا محبت سے پکارا ہوا مَیں  


جیت کے جشن میں بجتی ہے کہیں شہنائی 

اور بھٹکتا ہوں کہیں راہ میں ہارا ہوا مَیں 


گو اکیلا تھا مگر اک ترے آجانے سے 

بس اکیلا نہ رہا دیکھ تو گیارہ ہوا مَیں 


جن کی حسرت میں مرا جاتا ہوں لمحہ لمحہ 

آ کہے کوئی اُنھیں جان سے پیارا ہوا مَیں 


بادشاہی تھی توجہ تری مجھ بے کس کو 

اب پھروں تختِ محبت سے اُتارا ہوا مََیں 


اُن کے سینے میں نہیں دل سی کوئی شے اعزاز

اور جذبات کا ، صدمات کا مارا ہوا مَیں 


   خالد اعزاز


واصف دہلوی

 یوم پیدائش 10 فروری 1910


بجھتے ہوئے چراغ فروزاں کریں گے ہم

تم آؤگے تو جشن چراغاں کریں گے ہم


باقی ہے خاک کوئے محبت کی تشنگی

اپنے لہو کو اور بھی ارزاں کریں گے ہم


بیچارگی کے ہو گئے یہ چارہ گر شکار

اب خود ہی اپنے درد کا درماں کریں گے ہم


جوش جنوں سے جامۂ ہستی ہے تار تار

کیونکر علاج تنگی داماں کریں گے ہم


اے چارہ ساز دل کی لگی کا ہے کیا علاج

کہنے سے تیرے سیر گلستاں کریں گے ہم


کیا غم جو حسرتوں کے دیے بجھ گئے تمام

داغوں سے آج گھر میں چراغاں کریں گے ہم


واصفؔ کا انتظار ہے تھم جاؤ دوستو

دم بھر میں طے حدود بیاباں کریں گے ہم


واصف دہلوی


طاہر مجید

 یوم پیدائش 09 فروری 1947


اس شہر کا حاکم بھی ہامان سا لگتاہے

ہر گھر ہی یہاں پر اب زندان سا لگتا ہے


جس شخص نے اس گھر کو سینچا تھا ، بنایا تھا

وہ شخص ہی اس گھر میں مہمان سا لگتا ہے


غم اس کی جدائی کا ، ہے بھولنا اب مشکل

کہنے کو تو یہ سب کچھ آسان سا لگتا ہے


نفرت پہ ہے اکساتا ، دشمن ہے محبت کا

اس دور کا ملا بھی شیطان سا لگتا ہے


کچھ حسن کا جادو ہے ، کچھ میری عقیدت ہے

ہر لفظ ترے لب کا قرآن سا لگتا ہے


پہلی ہی نظر میں جو دل میں تھا اتر آیا

طاہر وہ مرے دل کے ارمان سا لگتا ہے


طاہر مجید


اعجاز صدیقی

 یوم وفات 09 فروری 1978


نظام فکر نے بدلا ہی تھا سوال کا رنگ

جھلک اٹھا کئی چہروں سے انفعال کا رنگ


نہ گل کدوں کو میسر نہ چاند تاروں کو

ترے وصال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ


ذرا سی دیر کو چہرے دمک تو جاتے ہیں

خوشی کا رنگ ہو یا ہو غم و ملال کا رنگ


زمانہ اپنی کہانی سنا رہا تھا ہمیں

ابھر گیا مگر آغاز میں مآل کا رنگ


اسیر وقت ہے تو میں ہوں وقت سے آزاد

ترے عروج سے اچھا مرے زوال کا رنگ


بسان تختۂ گل میری فکر ہے آزاد

مثال قوس قزح ہے مرے خیال کا رنگ


اعجاز صدیقی


زہرا قرار

 یوم پیدائش 09 فروری 1984


رکھی نہ گئی دل میں کوئی بات چھپا کر 

دیوار سے ٹھہرا تھا کوئی کان لگا کر 


تو خواب ہے یا کوئی حقیقت نہیں معلوم 

کرتی ہوں میں تصدیق ابھی بتی جلا کر 


مائل تھی میں خود اس کی طرف کیا پتا اس کو 

وہ مجھ سے مخاطب ہوا رومال گرا کر 


ملنے کے لئے کیسی جگہ ڈھونڈھ لی تم نے 

میں چھو بھی نہیں سکتی تمہیں ہاتھ بڑھا کر 


گزری کسی کی رات غم ہجر میں روتے 

کمرہ کسی نے رکھا تھا پھولوں سے سجا کر 


پھر کوئی نیا کام نکل آیا تھا کم بخت 

بیٹھی بھی نہیں تھی میں ابھی کھانا بنا کر 


بیٹے نے کہا ماں مجھے مطلب بھی بتاؤ 

اٹھنے ہی لگی تھی اسے قرآن پڑھا کر


زہرا قرار


خضر احمد خان شرر

 یوم پیدائش 09 فروری 1977


کرم تم پہ ہم پر عنایت کریں گے 

اگر ہم کسی کی عیادت کریں گے


بیاں ہم عمر کی حکایت کریں گے 

جوانو کی جب بھی قیادت کریں گے


کوئی اُس کا معنی نہ مفہوم ہوگا 

وہ گرچہ فصاحت بلاغت کریں گے


چلے بن سنور کے اُنھیں رو کو ورنہ 

قیامت سے پہلے قیامت کریں گے


بھرم ہے ہمارا زمانے کے منصف

ہمارے ہی حق میں سماعت کریں گے


 ترے غم کے بدلے تری یاد سے ہم

یونہی آنسوؤں کی تجارت کریں گے 


ہُجومِ تمنا میں بہتی ہیں آنکھیں 

کبھی خواب ہوگا زیارت کریں گے 


بروزِ قیامت شرر کی بھی آقاﷺ

خدا کے کرم سے شفاعت کریں گے 


  خضر احمد خان شرر




ظہیر دہلوی

 یوم پیدائش 09 فروری 1938


مسحور فضا کیوں ہے مجبور صبا کیوں ہے

رنگوں کے حصاروں میں نغمات کا جادو ہے


موجوں سے الجھنا کیا طوفان سے گزرنا کیا

ہر ڈوبنے والے کو احساس لب جو ہے


اس دور خرد میں بھی اے کاش یہ ممکن ہو

تو سوچے کہ بس میں ہوں میں سمجھوں کہ بس تو ہے


کب آنکھ جھپک جائے تصویر بدل جائے

ہر لمحہ سبک رو ہے ہر جلوہ تنک خو ہے


بازار‌ تمنا کی ہر چیز ہی نازک ہے

اجناس‌ غم دل ہیں پلکوں کی ترازو ہے


ظہیر صدیقی


برق دہلوی

 یوم وفات 09 فروری 1936


تابش حسن حجاب رخ پر نور نہیں

رخنہ گر ہو نگہ شوق تو کچھ دور نہیں


شب فرقت نظر آتے نہیں آثار سحر

اتنی ظلمت ہے رخ شمع پہ بھی نور نہیں


راز سربستۂ فطرت نہ کھلا ہے نہ کھلے

میں ہوں اس سعی میں مصروف جو مشکور نہیں


صرف نیرنگئ نظارہ ہے خود اپنا وجود

عین وحدت ہے کوئی ناظر و منظور نہیں


نظر آتا نہیں گو منزل مقصد کا نشاں

ذوق صادق یہی کہتا ہے کہ کچھ دور نہیں


برق دہلوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...