Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

مقصود عالم رفعت

 یوم پیدائش 23 فروری 1971


بیکراں کائنات مٹھی بھر

" آدمی کی حیات مٹھی بھر"


بے صِفٙت لوگوں سے بھرا ہے جہاں

اور ہیں با صفات مٹھی بھر


دیکھی دریا کی میں نے دریا دلی

بس ادا کی زکوة مٹھی بھر


متفق سب تھے میری باتوں سے

اور ہوئے میرے ساتھ مٹھی بھر


جاں کی بازی لگائی دریا میں

ریت بس آئی ہاتھ مٹھی بھر


نفس کی خواہشات لامحدود

زندگی کا ثبات مٹھی بھر


ہیں سراپا گناہ میں ڈوبے

اور کارِ نجات مٹھی بھر


خواب ہیں بے شمارآنکھوں میں

اور میسر ہے رات مٹھی بھر


زندگی کا اثاثہ ہیں رفعت

بس یہی کاغذات مٹھی بھر


مقصود عالم رفعت


اطہر نفیس

 یوم پیدائش 22 فروری 1933


ہم بھی بدل گئے تری طرز ادا کے ساتھ ساتھ

رنگ حنا کے ساتھ ساتھ شوخئ پا کے ساتھ ساتھ


نکہت زلف لے اڑی مثل خیال چل پڑی

چلتا ہے کون دیکھیے آج حنا کے ساتھ ساتھ


اتنی جفا طرازیاں اتنی ستم شعاریاں

تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہل وفا کے ساتھ ساتھ


وحشت درد ہجر نے ہم کو جگا جگا دیا

نیند کبھی جو آ گئی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ


ہوش اڑا اڑا دیئے راہ کے اضطراب نے

نکہت گل چلی تو تھی باد صبا کے ساتھ ساتھ


اطہر نفیس


سرور جاوید

 یوم پیدائش 22 فروری 1947


کون جانے وہ رخ مہر کہاں روشن تھا

قریہء عشق میں امکانِ زیاں روشن تھا


اس لئے خواہش تعبیر نہیں ہے ہم کو

خواب جو چھوڑ گیا دل پہ نشاں روشن تھا


پھر بھی بستی سے اندھیرا نہیں چھٹنے پاتا

گرچہ کار سحر شیشہ گراں روشن تھا


کیا زمانہ ہے کہ بے رنگ ہے فصلِ گل بھی

وہ بھی لمحے تھے کہ جب دور خزاں روشن تھا


جس کو سوچا تھا عقیدت سے خداؤں کے لیے

وہ چراغ آج سرِ طاقِ بتاں روشن تھا


سرور جاوید


عتیق الرحمن صفی

 یوم پیدائش 22 فروری

نعتِ رسولِ مقبول ﷺ 


زیست، اسلام تھی ہو بہ ہو آپ کی

شرحِ قرآن تھی گفتگو آپ کی


آپ امن و اماں کے پیمبر رہے

تھی طبیعت بہت صلح جُو آپ کی


آپ شفقت، محبت سے پیش آتے تھے

رحمتوں سے مزیّن تھی خُو آپ کی


عمر ساری گزاری ہے یوں آپ نے

مدح کرتے تھے سارے عدُو آپ کی 


راہِ حق پر سدا میری اُمّت چلے

تھی یہی عمر بھر آرزو آپ کی


دین کی روشنی آپ ہی سے ملی

بات پھیلی جبھی کُو بہ کُو آپ کی


زندگی اُس کی آسان ہوتی گئی 

جس کے سیرت رہی رُو بہ رُو آپ کی


مل گئی روشنی پھر اُسی کو صفیؔ

جس کسی نے بھی کی جستجو آپ کی


عتیق الرحمٰن صفیؔ


ممتاز ملک

 یوم پیدائش 22 فروری 1971


محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے 

بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے 


ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے 

چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے 


جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 

جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے 


لیے ہم کانچ کا دل بر سر بازار بیٹھے ہیں 

تھے پتھر جن کی جھولی خوش وہی تو بازی گر لوٹے 


وہ جھوٹے لوگ جو مل کر ہمیں کو جھوٹ کر دیں گے 

انہیں کو آزما کر ہم بھی اپنی رہ گزر لوٹے 


قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے 

بھلا ممتازؔ لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے


ممتاز ملک


عذرا نقوی

 یوم پیدائش 22 فروری 1952


ائیرپورٹ اسٹیشن سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ

جانے کون سے سکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ 


شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے 

گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ 


سب سے شاکی خود سے نالاں اپنی آگ میں جلتے ہیں

دکھ کے سوا اور کیا بانٹیں گے ان جیسے اندھیارے لوگ 


پر نم آنکھوں بوجھل دل سے کتنی بار وداعی لی 

کتنا بوجھ لئے پھرتے ہیں ہم جیسے بنجارے لوگ 


وہ کتنے خوش قسمت تھے جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے 

شہروں شہروں گھوم رہے ہیں ہم حالات کے مارے لوگ 


رات گئے یادوں کے جنگل میں دیوالی ہوتی ہے 

دیپ سجائے آ جاتے ہیں بھولے بسرے پیارے لوگ 


بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا 

مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ


عذرا نقوی


خستہ بریلوی

 یوم پیدائش 22 فروری 1905


آج دنیا کے لیے باعثِ افکار ہوں میں

بات اتنی ہے صداقت کا پرستار ہوں میں


یہ حقیقت ہے سیہ کار و خطا کار ہوں میں

میرے عیسٰی تیری رحمت کا طلبگار ہوں میں


مجھ سے وابستہ رہا گلشِ عالم کا نظام

آج حیرت ہے کہ گلشن کیلئے بار ہوں میں


عالمِ یاس میں پتھرا گئیں آنکھیں میری 

رحم فرمائیے اب طالبِ دیدار ہوں میں


مجھ سے اے گردشِ دوراں نہ الجھ ہوش میں آ

آج پھر حق کے لئے برسرِ پیکار ہوں میں


اور کیا چاہیے انجامِ محبت خستہ 

شکر صد شکر کہ رسوا سرِ بازار ہوں میں


خستہ بریلوی


بہار کوٹی

 یوم وفات 21 فروری 1971


دل دھڑکتا ہے تو پیغامِ سکوں ملتا ہے

ایک مدت میں یہ اندازِ جنوں ملتا ہے


کام کی چیز ہے ناکام تمنا رہنا

کچھ نہ ملنے پہ توقّع سے فزوں ملتا ہے


میں تو انساں ہوں فرشتوں کو پسینے آجائیں

جب تبسم میں نگاہوں کا فسوں ملتا ہے


کہہ رہے ہیں یہ تواریخ کے روشن اوراق

رنگِ ہرنقش میں انسان کا خوں ملتا ہے


حسرتِ طور تجھے ، آتش نمرود مجھے

حسبِ توفیق نظر سوز دروں ملتا ہے


اس توجہ سے تغافل ہی کہیں بہتر تھا

اب تڑپنے میں بھی مشکل سے سکوں ملتا ہے


غیرتِ عشق پہ آتا ہے تو حرف آئے بہار

زلفِ شب رنگ کے سائے میں سکوں ملتا ہے


بہار کوٹی


ہاجرہ نور زریاب

 یوم پیدائش 21 فروری


اشک کو آنکھ کی دہلیز پہ لایا نہ کرو

دل کے حالات زمانے کو بتایا نہ کرو


اپنی آنکھوں میں حسیں خواب سجایا نہ کرو

پیار کا تاج محل دل کو بنایا نہ کرو


خوشبوئے عشق بھی ہے عطر کی خوشبو جیسی

سخت دشوار ہے اے یار چھپایا نہ کرو


خود ہی سانپوں کو بلا لیتے ہو اپنے گھر میں

پیڑ چندن کے تم آنگن میں لگایا نہ کرو


رب تو ہے شافیٔ مطلق ہے شفا بخش وہی

سر در غیر پہ تم اپنا جھکایا نہ کرو


خواب کے جتنے گھروندے ہیں بکھر جائیں گے

اپنی پلکوں پہ کئی خواب سجایا نہ کرو


سنگ دل جو بھی ہیں ان کو نہ بساؤ دل میں

شیش محلوں میں کبھی سنگ لگایا نہ کرو


بوندا باندی بھی مقدر میں نہیں ہے زریابؔ

اپنے آنگن میں نئے پیڑ لگایا نہ کرو


ہاجرہ نور زریاب


ولی صدیقی سلطان پوری

 یوم پیدائش 21 فروری 1938


نہ کیجے اس طرح پامال دل کو

اسی میں آپ کی تصویر بھی ہے


ولی صدیقی سلطان پوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...