Urdu Deccan

Monday, February 28, 2022

شہزاد رضوی

 یوم پیدائش 28 فروری 1937

( نظم محبت ہماری زبان ہے)


محبت کیا ہے اس کو ہمیں سمجھتے ہیں

انگریزوں کو صرف مشینیں بنانا آتا ہے

فرانسیسی زبان میں ہے صرف اک لفظ

وہ پسند اور محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے

اردو میں ہم ہر رنگ اور جذبے کی شدت کو بیان کرسکتے ہیں

پسند، انسیت ، پیار، محبت ، عشق جیسے الفاظ ہیں ہماری زبان میں

ان کا استعمال ہم بہت سوچ کے کرتے ہیں

ہماری زبان ہر گھڑی ہر قدم محبت کے گیت نہیں گاتی

اس جذبۂ اعلی کو بازار احساسات میں سستا نہیں کرتی

ہر موقع، ہر محل اور کشش و جذبے کے لحاظ سے لفظ کی آمد ہوتی ہے

ہماری تہذیب میں اسطرح الفاظ اور جذبات مل کر کام کرتے ہیں

اردو کے سہارے ہم مختلف رشتوں میں بندھ جاتے ہیں

مادی اختراعات میں چاہے ہم بہت پیچھے ہوں

جذبوں کی ڈور کو کب کا جیت چکے ہیں 


شہزاد رضوی


نیاز بدایونی

 یوم وفات 28 فروری 2008


وہ جو اک خنجرِ قاتل میں چمک ہوتی ہے

 اصل میں خون شہیداں کی لپک ہوتی ہے

 

دل سے رخصت ہواجب درد تو اندازہ ہوا

بعض اوقات سکوں میں بھی کسک ہوتی ہے


اب کوئی ناقدِ غم ہے نہ کوٹی محرمِ شب

دل کے داغوں میں مگر اب بھی چمک ہوتی ہے


کاغذی پھولوں سے گلشن کو سجانے والو

پھول کا جوہرِ ذاتی تو مہک ہوتی ہے


شاخِ گل کو ترے وعدہ سے بھلا کیا نسبت

شاخِ گل میں بھی کہاں اتنی لچک ہوتی ہے


میں ترے حسنِ تکلم کو غزل کہتا ہوں

ہر غزل میں ترے لہجہ کی کھنک ہوتی ہے


جذبہ و فکر کی بارش کے تھہرتے ہی نیاز

ذہن کے گرد خیالوں کی دھنک ہوتی ہے


نیاز بدایونی


نظیر ایٹوی

 یوم پیدائش 28 فروری 1953 


 راستہ فرار کا یوں نہ اختیار کر

 موت کی طرف نہ جا زندگی سے پیار کر

 

 ہم ہی راہِ عشق میں کوئی نقش چھوڑ دیں

 سیکڑوں چلے گئے زندگی گزار کر

 

 آرزو جواب کی دم نہ توڑدیں کہیں

 تھک گئی مری زباں آپ کو پکار کر

 

 میرے لب پہ آگئیں ان کو دیکھ کر ہنسی

 مطمئن ہے جو مجھے پتھروں سے مارکر

 

 موسمِ بہار نے کس قدر غلط کہا

 لوٹ کر میں آﺅں گا میرا انتظار کر

 

 وادیِ یقین سے ان کی بزمِ ناز تک

 آگ کا یہ راستہ مسکرا کے پار کر

 

 نظیر ایٹوی


سید انور جاوید ہاشمی

 یوم پیدائش 28 فروری 1953


جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں

دنیا سے وہ کٹ کے رہ گئے ہیں


مجمع تھا یہاں پہ جن کے دم سے

وہ بھیڑ سے چھٹ کے رہ گئے ہیں


بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا

ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں


نگلا ہے زمین نے بستیوں کو

بادل سبھی پھٹ کے رہ گئے ہیں


اب کھیت میں بھوک اگے گی کیوں کر

سب کھوٹ کپٹ کے رہ گئے ہیں


کرگس نے دکھادیا ہے ٹھینگا

شہباز جھپٹ کے رہ گئے ہیں


غالب ہے، نہ میر یاد ہم کو

ہاں! روٹیاں رَٹ کے رہ گئے ہیں


جیون بھی تمام ہو رہے گا

بس موت کے جھٹکے رہ گئے ہیں


سید انور جاوید ہاشمی​


سیف خان سیف

 یوم پیدائش 28 فروری


صد شکر ابرِ ہجر مرے سر سے چھٹ گیا

یہ بات ہے جدا کہ بدن دکھ سے اٹ گیا


وابستگی دو گام کی عمریں نگل گئی

 اور دو پلوں کا فاصلہ صدیوں میں بٹ گیا


دیتا رہا وہ پہلے جدائی کے مشورے 

رُخصت سمے پھر آ کے وہ مجھ سے لپٹ گیا


مولا عدم وجود کے یہ خوابگوں سفر 

میں سوچتے ہی سوچتے رستہ بھٹک گیا


پرچھائیاں ملال کی سینے سے جھڑ گئیں 

شہنائیوں کی بھیڑ میں سایہ بھی گھٹ گیا


اس وقتِ رائیگاں کا، بھلا کس سے ہو گلہ؟

کٹنا تھا کس کے ساتھ ،کہاں سیف کٹ گیا


سیف خان سیف


انا قاسمی

 یوم پیدائش 28 فروری 1966


مصلحت خیز یہ ریاکاری

زندگانی کی نازبرداری


کیسے ناداں ہو ، کا ٹ بیٹھے ہو

ایک ہی رو میں زندگی ساری


ہو جو ایماں تو بیٹھتا ہے میاں

ایک انساں ہزار پر بھاری


کاروبارِ جہاں سے گھبرا کر

کر رہا ہوں جنوں کی تیاری


ذہن و دل میں چبھن سی رہتی ہے

شاعری ہے عجیب بیماری


انا قاسمی


صغری صدف

 یوم پیدائش 28 فروری 1963


کب تک بھنور کے بیچ سہارا ملے مجھے

طوفاں کے بعد کوئی کنارا ملے مجھے


جیون میں حادثوں کی ہی تکرار کیوں رہے

لمحہ کوئی خوشی کا دوبارہ ملے مجھے


بن چاہے میری راہ میں کیوں آ رہے ہیں لوگ

جو چاہتی ہوں میں وہ نظارا ملے مجھے


سارے جہاں کی روشنی کب مانگتی ہوں میں

بس میری زندگی کا ستارا ملے مجھے


دنیا میں کون ہے جو صدفؔ سکھ سمیٹ لے

دیکھا جسے بھی درد کا مارا ملے مجھے


صغری صدف


متین عمادی

 یوم پیدائش 28 فروری 1948


کردار کا اک حسن تھا کردار کے پیچھے

سرحد کی ہنسی تھی کسی تلوار کے پیچھے


شاید وہ پرندوں کو غذا بانٹ رہا ہے

مردہ ہے کوئی جسم جو کہسار کے پیچھے


جذبات کا اک کوہ گراں رکھتا ہے دل پر

دہکی ہوئی اک آگ ہے فن کار کے پیچھے


باتوں کی صداقت کو کسی نے نہیں پرکھا

سب دوڑ پڑے سرخیٔ اخبار کے پیچھے


غزلوں میں متینؔ اپنی بڑا لطف ہے پنہاں

ہیں کتنے فسانے مرے اظہار کے پیچھے


متین عمادی


کلیم عثمانی

 یوم پیدائش 28 فروری 1928


رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح


خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں

شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح


پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی

پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح


بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات

میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح


کلیم عثمانی


رئیس الدین فریدی

 یوم پیدائش 28 فروری 1914


جوش پر آیا نہیں ہے رقص مستانہ ابھی

رہنے دو گردش میں تھوڑی دیر پیمانہ ابھی


جام خالی ہو کسی کا کوئی خم کے خم چڑھائے

یار سمجھے ہی نہیں آداب مے خانہ ابھی


اک ذرا پیر مغاں دے دے ہمیں بھی اختیار

لا کے جوبن پر دکھا سکتے ہیں مے خانہ ابھی


عشق کی فطرت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی

شمع روشن کیجئے آتا ہے پروانہ ابھی


دے دیا دل ہم نے پورا ہو گیا یوں ایک باب

مان جائیں آپ تو پورا ہے افسانہ ابھی


سن رہے ہیں آ رہی ہے ہر طرف تازہ بہار

اپنا گھر کیوں لگ رہا ہے مجھ کو ویرانہ ابھی


اے فریدیؔ وہ ستاتے ہیں ستا لینے بھی دو

کمسنی ہے اور ہیں انداز طفلانہ ابھی


رئیس الدین فریدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...