Urdu Deccan

Friday, March 25, 2022

خالد اقبال یاسر

 یوم پیدائش 13 مارچ 1952


لگتا ہے زندہ رہنے کی حسرت گئی نہیں 

مر کے بھی سانس لینے کی عادت گئی نہیں 


شاید کہ رچ گئی ہے ہمارے خمیر میں 

سو بار صلح پر بھی عداوت گئی نہیں 


آنا پڑا پلٹ کے حدود و قیود میں 

چھوڑی بہت تھی پھر بھی شرافت گئی نہیں 


رہتی ہے ساتھ ساتھ کوئی خوش گوار یاد 

تجھ سے بچھڑ کے تیری رفاقت گئی نہیں 


باقی ہے ریزے ریزے میں اک ارتباط سا 

یاسرؔ بکھر کے بھی مری وحدت گئی نہیں


خالد اقبال یاسر


مبارکباد شمیم

 یوم پیدائش 13 مارچ 1924


اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے

جو لکھا ہے وہی قسمت میں لکھا رہنے دے


سچ اگر پوچھ تو زندہ ہوں انہیں کی خاطر

تشنگی مجھ کو سرابوں میں گھرا رہنے دے


آہ اے عشرت رفتہ نکل آئے آنسو

میں نہ کہتا تھا کہ اتنا نہ ہنسا رہنے دے


اس کو دھندلا نہ سکے گا کبھی لمحوں کا غبار

میری ہستی کا ورق یونہی کھلا رہنے دے


شرط یہ ہے کہ رہے ساتھ وہ منزل منزل

ورنہ زحمت نہ کرے باد صبا رہنے دے


یوں بھی احساس الم شب میں سوا ہوتا ہے

اے شب ماہ مری حد میں نہ آ رہنے دے


زندگی میرے لیے درد کا صحرا ہے شمیمؔ

میرے ماضی مجھے اب یاد نہ آ رہنے دے


مبارک شمیم


زائرہ اریب سواتی

 یوم پیدائش 12 مارچ 1986


چبھن اگرچہ بہت تھی صدا کے لہجے میں

وہ ڈھل گیا تھا مکمل وفا کے لہجے میں


تمھاری آنکھ ہے نم اور بارہا میں نے

سنی حیات کی دھڑکن قضا کے لہجے میں


دعا بھی مانگی ہے اپنوں کی سربلندی کی

شکایتیں بھی بہت کیں دعا کے لہجے میں


ہے سانس سہمی ہوئی اور روح پزمردہ

کہ موت جھانک رہی ہے فضا کے لہجے میں


چراغ زائرہ میری لحد پہ روشن تھا

سو آگئی ہے بغاوت ہوا کے لہجے میں


زئراہ اریب سواتی


ندیم فاضلی

 یوم پیدائش 12 مارچ 1959


اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے 

خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے 


گنوا چکا ہوں میں چالیس سال جس کے لیے 

وہ ایک پل مری پہچان ہونے والا ہے 


اسی لیے تو جلاتا ہوں آندھیوں میں چراغ 

یقین ہے کہ نگہبان ہونے والا ہے 


اب اپنے زخم نظر آ رہے ہیں پھول مجھے 

شعور درد پشیمان ہونے والا ہے 


مرے لیے تری جانب سے پیار کا اظہار 

مرے غرور کا سامان ہونے والا ہے 


یہ چوٹ ہے مری مشکل پسند فطرت پر 

جو مرحلہ تھا اب آسان ہونے والا ہے 


اگر غرور ہے سورج کو اپنی حدت پر 

تو پھر یہ قطرہ بھی طوفان ہونے والا ہے 


بہت عروج پہ خوش فہمیاں ہیں اب اس کی 

وہ عن قریب پشیمان ہونے والا ہے 


تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے 

تو یہ فقیر بھی سلطان ہونے والا ہے 


چراغ دار کی لو ماند پڑ رہی ہے ندیمؔ 

پھر اپنے نام کا اعلان ہونے والا ہے


ندیم فاضلی


کاشف حسین غائر

 یوم پیدائش 12 مارچ 1979


حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے 

میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے 


میں بھی آخر ہوں اسی دشت کا رہنے والا 

کیسے مجنوں سے کہوں خاک اڑایا نہ کرے 


آئنہ میرے شب و روز سے واقف ہی نہیں 

کون ہوں کیا ہوں مجھے یاد دلایا نہ کرے 


عین ممکن ہے چلی جائے سماعت میری 

دل سے کہیے کہ بہت شور مچایا نہ کرے 


مجھ سے رستوں کا بچھڑنا نہیں دیکھا جاتا 

مجھ سے ملنے وہ کسی موڑ پہ آیا نہ کرے


کاشف حسین غائر


سید ابو الخیر کشفی

 یوم پیدائش 12 مارچ 1932


تو حرف دعا ہے مرے مولا، مرے آقاﷺ

رحمت کی نوا ہے مرے مولا ، مرے آقاﷺ


گرداب بلا میں ہے ترا نام سفینہ

تو موج کشا ہے مرے مولا ، مرے آقاﷺ


اس جد مکانی سے گزر کر ترا نغمہ

میں نے بھی سنا ہے ، مرے مولا ، مرے آقاﷺ


بکھرے ہوئے لمحوں میں سلامت ہیں دل و جاں

یہ تیری عطا ہے ، مرے مولا ، مرے آقاﷺ


جو لمحہ تری یاد سے آباد ہوا ہے

اک کنج حرا ہے ، مرے مولا ، مرے آقاﷺ


تسکین دل و جاں کی ہر اک صورت مطلوب

طیبہ کی ہوا ہے ، مرے مولا ، مرے آقاﷺ


وہ گنبد خضری کے قریں طائر تنہا

کشفی کی نوا ہے ، مرے مولا ، مرے آقاﷺ


سید ابو الخیر کشفی


محسن باعشن حسرت

 یوم پیدائش 12 مارچ 1956


موت کا دل میں کیسا یہ ڈر ہے میاں

زندگی کا سفر مختصر ہے میاں


سوچ کر اپنے پاؤں بڑھانا ذرا

عشق کا راستہ پُرخطر ہے میاں


دل ہی تنہا نہیں ہے اسیرِ فغاں

آنکھ بھی میری اشکوں سے تر ہے میاں


کس نے کس کو کہاں کیسے مارا کہو

آج اخبار میں کیا خبر ہے میاں


چل دیا کوئی تنہا مجھے چھوڑ کر

کتنا دشوار اب یہ سفر ہے میاں


جارہا ہوں میں پھر سوئے دار و رسن

میری جانب اٹھی ہر نظر ہے میاں


آسماں ہم غریبوں کی چھت جیسا ہے

اور فٹ پاتھ گویا کہ گھر ہے میاں


راہِ الفت میں حسرتؔ میں تنہا نہیں

یادِ محبوب بھی ہم سفر ہے میاں


محسن باعشن حسرت


باقی احمد پوری

 یوم پیدائش 12 مارچ 1950


تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا 

جا اب ترا خیال مجھے بھی نہیں رہا 


تو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی 

اب شوق ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا 


میرا جواب کیا تھا تجھے بھی خبر نہیں 

یاد اب ترا سوال مجھے بھی نہیں رہا 


جس بات کا خیال نہ تو نے کبھی کیا 

اس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا 


توڑا ہے تو نے جب سے مرے دل کا آئنہ 

اندازۂ جمال مجھے بھی نہیں رہا 


باقیؔ میں اپنے فن سے بڑا پرخلوص ہوں 

اس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا 


باقی احمد پوری


حشمت علی حشمت

 یوم پیدائش 12 مارچ 1966


ظلمتوں سے نہیں انوار بدلنے والے 

خود ہی ہو جائیں گے بیزار بدلنے والے 


خاتمہ اب تو کہانی میں ولن کا طے ہے 

چھپ نہیں پائیں گے کردار بدلنے والے 


شاید اس بار قبیلے میں سکوں لوٹ آئے 

خیمہ زن ہو گئے سردار بدلنے والے 


قدر و قیمت وہ ہماری نہ بدل پائیں گے

ہم تو ہیں مالک و مختار بدلنے والے


آزمائش سے نہیں ڈرتے صداقت کے مرید 

اور ہی ہوں گے سرِ دار بدلنے والے 


ہم مہاجر نہیں، ہجرت نہیں ہوگی ہم سے

ناتواں ہوتے ہیں گھر بار بدلنے والے 


ہم کو نا اہل سمجھنے کی نہ کر نادانی

ہم ہی حشمت تو ہیں سرکار بدلنے والے


 حشمت علی حشمت


مشتاق جوہر

 یوم پیدائش 11 مارچ 1938


آنے ولی ہر گھڑی ماضی میں ضم ہوتی گئی

زندگی لمحہ بہ لمحہ کم سے کم ہوتی گئی


مشتاق جوہر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...