Urdu Deccan

Tuesday, April 12, 2022

ندیم گلانی

 یوم پیدائش 05 اپریل 1982


اپنی الجھن کو بڑھانے کی ضرورت کیا ہے 

چھوڑنا ہے تو بہانے کی ضرورت کیا ہے 


لگ چکی آگ تو لازم ہے دھواں اٹھے گا 

درد کو دل میں چھپانے کی ضرورت کیا ہے 


عمر بھر رہنا ہے تعبیر سے گر دور تمہیں 

پھر مرے خواب میں آنے کی ضرورت کیا ہے 


اجنبی رنگ چھلکتا ہو اگر آنکھوں سے 

ان سے پھر ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے 


آج بیٹھے ہیں ترے پاس کئی دوست نئے 

اب تجھے دوست پرانے کی ضرورت کیا ہے 


ساتھ رہتے ہو مگر ساتھ نہیں رہتے ہو 

ایسے رشتے کو نبھانے کی ضرورت کیا ہے


ندیم گلانی



محمود احمد کاوش

 یوم پیدائش 04 اپریل 1964


اندر کے آدمی کی نوا کون لے گیا

سرمایہ ضمیر و انا کون لے گیا 


وہ غم جسے سمجھتا تھا میں حاصل حیات

اس میرے غم کو آج چرا کون لے گیا 


دست دعا تو اب بھی اٹھاتا ہوں میں مگر

لفظوں سے میرے روح دعا کون لے گیا


ہر شخص اب کے شہر میں عریاں ملا مجھے

کچھ تو بتاؤ ان کی قبا کون لے گیا 


جلتا ہوں غم کی سخت حرارت سے روز وشب

انسانیت کے سر سے ردا کون لے گیا 


آتش میں نفرتوں کی جلا ہے ہر ایک شخص

پہلی سی الفتوں کی ردا کون لےگیا


کاوش میں سوچتا ہوں وہ اقدار کیا ہوئیں

چاہت،خلوص اور وفا کون لے گیا 


محمود احمد کاوش


شادان احسن مارہروی

 یوم پیدائش 04 اپریل


نہ سنا اب مجھے تو افسانہ

جل اٹھے نہ کہیں یہ پروانہ


راتیں کاٹیں ہیں کروٹیں لے کر

عشق کرنے کا ہے یہ ہرجانہ


آگ کا دریا پار کرنا ہے

عشق کی راہ سے گزر جانا


ان کے آنے سے چین آتا ہے

ان کا جانا ہے جان کا جانا


قتل کرنا نہیں ہے منصوبہ

ان کی خواہش ہے مجھ کو تڑپانا


مانتا ہی نہیں کبھی میری

کتنا مشکل ہے دل کو سمجھنا


حرج ان سے نہیں ہے ملنے میں

دل کا لیتے ہیں پر وہ ہرجانہ


یہ ادائیں ہیں یار کے فتنے

حیا شوخی غضب کا اترانا


شادان احسن مارہروی۔



بابر علی اسد

 یوم پیدائش 04 اپریل


وہ گّھل رہا ہے مرے سینہِ سفال میں مست

میں اس خمار میں رقصاں میں اپنے حال میں مست 

 

میں فرض فرض میں دنیا بنا کے بیٹھ گیا 

میں فرض کرکے پڑا تھا ترے وصال میں مست 


مجھے یقیں ہے کہ تو نعمتوں میں ہوگا شمار

سوال ہوگا ترا اور میں سوال میں مست 


بہک رہی ہیں سبو زاد سی بھری آنکھیں 

چھلک رہی ہے یہ صہبا بھی اپنے حال میں مست


وہ لڑکھڑاتی ہوئی نشّہِ بساط کی شہ

میں مات ہوتا ہوا اسکی چال چال میں مست


 کہیں میں ٹوٹ نہ جاؤں ترا بنایا ہوا  

میں روز و شب یہاں اپنی ہی دیکھ بھال میں مست 


ہمہ خیال ، دما دم بہ جانِ عجزِ ہزار 

جمالِ رقص مری مستیِ دھمال میں مست  


بابر علی اسد



احد اقبال

 یوم پیدائش 04 اپریل

(مرحوم دوست عبد الرحمن کی یاد میں لکھے گئے اشعار)


وہ تھا سبھی کو جان سے پیارا بچھڑ گیا

اک اور آسمان سے تارہ بچھڑ گیا 


ٹوٹا ہے پھول ایک چمن سے تو یُوں لگا

اب جیسے اس چمن کا نظارہ بچھڑ گیا


ایسا ہے حال گاؤں کا تیرے بچھڑنے پر

ساحل سے جیسے کوئی کنارہ بچھڑ گیا


کوئی گلہ نہیں ہے کسی سے بھی اب ہمیں

جس جس کو بھی خدا نے پُکارا بچھڑ گیا


یہ دکھ بہت بڑا ہے میاں دکھ بہت بڑا ماں باپ کا جوان سہارا بچھڑ گیا


روئیں کسے گلےسے لگا کر ارے احد

اک یار تھا فقط جو ہمارا بچھڑ گیا 


   احد اقبال



فیضی

 یوم پیدائش 04 اپریل


نقشہء_ خاک سجانے کے لئے آپؐ آئے

روح کی روح جگانے کے لئے آپؐ آئے 


بوجھ ایسا کہ پہاڑوں سے نہیں اٹھتا تھا

وہ کڑا بوجھ اٹھانے کے لئے آپؐ آئے


آپؐ آئے تو بہت تیرہ و تاریک تھے دل

نور پر نور دکھانے کے لئے آپؐ آئے 


آپؐ جب آئے تو پھر اور نہ آیا کوئی 

یعنی ہر ایک زمانے کے لئے آپؐ آئے 


ایک آدم کہ بنایا تھا خدا نے جس کو

اس کو انسان بنانے کے لئے آپؐ آئے 


 فیضی



اختر عثمان

 یوم پیدائش 04 اپریل 1969


ابھی تو پر بھی نہیں تولتا اڑان کو میں 

بلا جواز کھٹکتا ہوں آسمان کو میں 


مفاہمت نہ سکھا دشمنوں سے اے سالار 

تری طرف نہ کہیں موڑ دوں کمان کو میں 


مری طلب کی کوئی چیز شش جہت میں نہیں 

ہزار چھان چکا ہوں تری دکان کو میں 


نہیں قبول مجھے کوئی بھی نئی ہجرت 

کٹاؤں کیوں کسی بلوے میں خاندان کو میں 


تجھے نخیل فلک سے پٹخ نہ دوں آخر 

ترے سمیت گرا ہی نہ دوں مچان کو میں 


یہ کائنات مرے سامنے ہے مثل بساط 

کہیں جنوں میں الٹ دوں نہ اس جہان کو میں 


جسے پہنچ نہیں سکتا فلاسفہ کا شعور 

یقیں کے ساتھ ملاتا ہوں اس گمان کو میں


اختر عثمان




رانا سعید دوشی

 یوم پیدائش 04 اپریل 1965


کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا 

میں غم شناس مروت میں مارا جاؤں گا 


میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں 

پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا 


مرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہوگا 

میں دوستوں کی حراست میں مارا جاؤں گا 


میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر 

گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا 


حصص میں بانٹ رہے ہیں مجھے مرے احباب 

میں کاروبار شراکت میں مارا جاؤں گا 


بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے 

کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا 


نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا 

میں اب کی بار محبت میں مارا جاؤں گا 


رانا سعید دوشی



بشیر عبد المجید

 یوم پیدائش 04 اپریل 1969


جیون ہے شجر سے بھی

اور اس کے ثمر سے بھی


ارزاق مقدر ہیں

آتے ہیں جدھر سے بھی


دلبر سے محبت ہے

دل سے بھی جگر سے بھی


حالات بگڑتے ہیں

محرومی کے ڈر سے بھی


جلتے ہیں یہاں جنگل

معمولی شرر سے بھی


دل تیز دھڑکتا ہے

موسم کے اثر سے بھی


محبوب کا چہرہ تو

روشن ہے قمر سے بھی


پیارا ہے وطن اپنا

ہے پیار قطر سے بھی


ہم دور ہیں ایماں سے

اللہ کے گھر سے بھی


انسان کی عظمت کیا

کمتر ہے بقر سے بھی؟


اب علم و ہنر والے

لڑتے ہیں جگر سے بھی


چھوڑیں گے نہ حق اپنا

نکلیں گے نہ گھر سے بھی


قرباں ہیں بشیر اب ہم

اس دیش پہ سر سے بھی


بشیر عبد المجید



احفاظ الرحمٰن

 یوم پیدائش 04 اپریل 1942

نظم فریبوں کی سپاہ


عکس در عکس اترتی ہے فریبوں کی سپاہ

غُل مچاتی ہوئی پرچھائیاں سینے پہ سوار

حلق کی سمت لپکتی ہوئی قاتل برچھی

جانب قلب جھپٹتی ہے وہ خونیں تلوار

آنکھ کو تاک رہا ہے یہ ستم گر نیزہ

عکس در عکس اُترتی ہے فریبوں کی سپاہ


کھوکھلے سر میں اُبھرتا ہے مسیحائی کا زعم

رقص کرتے ہوئے بہلاووں کا سرسبز چمن

خوش نگاہی کی طلب، کشتہ اُمیدوں کا کفن

بے لباسی پہ لکھی تہمت ارزاں کی سند

چاروں اطراف سے آتی ہے فریبوں کی سپاہ


جو بھی لکھتا ہے یہ نامہ مری رُسوائی کا

ہاتھ میں اس کے فریبوں کے سوا کچھ بھی نہیں


احفاظ الرحمٰن



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...