یوم پیدائش 05 اپریل 1982
اپنی الجھن کو بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
چھوڑنا ہے تو بہانے کی ضرورت کیا ہے
لگ چکی آگ تو لازم ہے دھواں اٹھے گا
درد کو دل میں چھپانے کی ضرورت کیا ہے
عمر بھر رہنا ہے تعبیر سے گر دور تمہیں
پھر مرے خواب میں آنے کی ضرورت کیا ہے
اجنبی رنگ چھلکتا ہو اگر آنکھوں سے
ان سے پھر ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
آج بیٹھے ہیں ترے پاس کئی دوست نئے
اب تجھے دوست پرانے کی ضرورت کیا ہے
ساتھ رہتے ہو مگر ساتھ نہیں رہتے ہو
ایسے رشتے کو نبھانے کی ضرورت کیا ہے
ندیم گلانی