Urdu Deccan

Thursday, April 14, 2022

دانش اثری

 یوم پیدائش 10 اپریل 1991


ہم وہ مجبور کہ ہجرت بھی نہیں کرسکتے

یعنی آزادی کی چاہت بھی نہیں کرسکتے


اپنے کعبہ پہ تو قبضہ ہے عزازیلوں کا

ہم تو اب کھل کے عبادت بھی نہیں کرسکتے


ترکیا مست مئے ناب، عرب مست ریال

اب تو وہ میری حمایت بھی نہیں کرسکتے


قاتلو! ٹھہرو ذرا، ایک تو سجدہ کرلوں

کیا ذرا سی یہ رعایت بھی نہیں کرسکتے؟


جو بھی تھا سب تو لٹا ڈالا ہے حضرت، اب کیا

آپ اب اور سخاوت بھی نہیں کرسکتے


نام رکھا ہے مسلمانوں سا ، مرجاؤ، کہ تم

قوم مسلم سے براءت بھی نہیں کرسکتے


دانش اثری نے بتائی تھی تمھیں کل کی خبر

تم تو اب اس سے شکایت بھی نہیں کرسکتے


دانش اثری



اکبر حمیدی

 یوم پیدائش 10 اپریل 1935


کافر تھا میں خدا کا نہ منکر دعا کا تھا 

لیکن یہاں سوال شکست انا کا تھا 


کچھ عشق و عاشقی پہ نہیں میرا اعتقاد 

میں جس کو چاہتا تھا حسیں انتہا کا تھا 


جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں 

میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا 


تاریک رات موسم برسات جان زار 

گرداب پیچھے سامنے طوفاں ہوا کا تھا 


اک عمر بعد بھی نہ شفا ہو سکے تو کیا 

رگ رگ میں زہر صدیوں کی آب و ہوا کا تھا 


گو راہزن کا وار بھی کچھ کم نہ تھا مگر 

جو وار کارگر ہوا وہ رہنما کا تھا 


اکبرؔ جہاں میں کار کشائی بتوں کی تھی 

اچھا رہا جو ماننے والا خدا کا تھا


اکبر حمیدی



شہناز مزمل

 یوم پیدائش 10 مارچ 1954


وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے 

متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے 


دئے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر 

اے تند و تیز ہوا تجھ کو برہمی نہ رہے 


بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے 

چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے 


کوئی بھی لمحہ گزرتا نہیں ہے تیرے بغیر 

تعلقات میں ایسی بھی چاشنی نہ رہے 


ہمارے حوصلے کو دیکھ کر یہ کہتے ہو 

زبان بند رہے آنکھ میں نمی نہ رہے 


ملے جو روشنی تجھ سے تو ظلمتیں کم ہوں 

کہ تیرے بعد مری جان زندگی نہ رہے 


لبوں پہ آ گیا دم اپنا حبس موسم میں 

ہوائے ابر بہاراں یوں ہی تھمی نہ رہے


شہناز مزمل



نادرہ ناز

 یوم پیدائش 10 اپریل 1975


خود کو ہم سرخرو نہیں کرتے

تجھ کو بے آبرو نہیں کرتے


کر کے شکوہ گلہ کبھی ان سے

ان کے دل کو لہو نہیں کرتے


غم بھلے دل میں سانس لیتے ہوں

درد تو گفتگو نہیں کرتے


ہم ترے آنسوؤں کے دھاگوں سے

چاک دامن رفو نہیں کرتے


جو نہ آئے گا پھر کبھی واپس

اس کی ہم جستجو نہیں کرتے


بات کہتے ہیں چھپ چھپا کر وہ

ہو کے وہ رو برو نہیں کرتے


جس کو اپنا بناتے ہیں ہم ناز

اس کو بے آبرو نہیں کرتے


نادرہ ناز




شمشاد جلیل شاد

 یوم وفات 09 اپریل 2021


گلابوں سی تمہاری یاد ہر جانب مہکتی ہے 

تمہاری جستجو میں اب ہوا کی رو بھٹکتی ہے 


جہاں بھر میں ہزاروں بولیاں میٹھی بہت لیکن 

مری اردو زباں ان میں نگینے سی چمکتی ہے 


بزرگوں کی نشانی ہے جسے چادر میں کہتی ہوں 

اسے جب اوڑھ لیتی ہوں مری صورت دمکتی ہے 


سکوں ملتا مجھے یہ جان کر بیٹی بہت خوش ہے 

تبھی تو خواب میں آ کر وہ ہنستی ہے چہکتی ہے 


نظر جب آپ کی ہوگی کھلیں گے باب رحمت کے 

وگرنہ روح انسانی اندھیروں میں بھٹکتی ہے 


جو خواہش ہو نہیں سکتی زمانے میں کبھی پوری 

دبا کے درد سینے میں وہی خواہش سسکتی ہے


شمشاد جلیل شاد



عادل حرا مئو

 یوم پیدائش 09 اپریل


ہر خوشی حصّے سے میرے جیسے رخصت ہوگئی

مستقل سہنا غموں کو میری عادت ہوگئی


چاند تاروں کی ضیاء بھی کم نظر آنے لگی

آپ کے چہرے کی کیا مجھکو زیارت ہوگئی


اب پتنگوں کی طرح سے نیند میری بن گئی

مجھکو جب سے شاعری کرنے کی عادت ہوگئی


جو موافق تھا مرا وہ نا موافق بن گیا

کیا زمانے میں زرا سی میری شہرت ہوگئی


ہر کوئی اس کو نگاہ قدر سے دیکھے یہاں

پاس جس کے تھوڑی شہرت اور دولت ہوگئی


تتلیوں کو پھول کی جتنی تمنا ہے حرا

اس سے بھی بڑھ کر مجھے تیری ضرورت


عادل حرا مئو



ن م دانش

 یوم پیدائش 21مارچ 1958


وہ کسی بھی عکس جمال میں نہیں آئے گا

وہ جواب ہے تو سوال میں نہیں آئے گا


نہیں آئے گا وہ کسی بھی حرف و بیان میں

وہ کسی نظیر و مثال میں نہیں آئے گا


اسے ڈھالنا ہے خیال میں کسی اور ڈھب

وہ شباہت و خد و خال میں نہیں آئے گا


وہ جو شہسوار ہے تیغ زن رہ زندگی

مرے ساتھ وقت زوال میں نہیں آئے گا


یہاں کون تھا جو سلامتی سے گزر گیا

یہاں کون ہے جو وبال میں نہیں آئے گا


اسے لاؤں گا میں سکوت حرف و صدا میں بھی

وہ سخن کبھی جو سوال میں نہیں آئے گا


جو ہیں منتظر بڑی دیر سے انہیں کیا خبر

نہیں آئے گا کسی حال میں نہیں آئے گا


ن م دانش


وحید الہ آبادی

 یوم وفات 09 اپریل 1892


نخوت حسن پسند آئی ہے دیوانے کو 

سرکشی شمع کی منظور ہے پروانے کو 


دیکھیے کون سی جا یار کا ملتا ہے پتہ 

کوئی کعبے کو چلا ہے کوئی بت خانے کو 


تیری فرقت میں تصور ہے یہ بے دردی کا 

خواب ہم جانتے ہیں نیند کے آ جانے کو 


کام آ جاتی ہے ہم بزمی بھی روشن دل کی 

شمع ہم رنگ بنا لیتی ہے پروانے کو 


گل پہ بلبل تھا کہیں شمع پہ پروانہ تھا 

ہم نے ہر رنگ میں دیکھا ترے دیوانے کو 


وا شد دل نہ ہوئی غنچۂ خاطر نہ کھلا 

کون سے باغ میں آئے تھے ہوا کھانے کو 


میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا 

دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو 


وحید الہ آبادی



اکرام اعظم

 یوم پیدائش 07 اپریل


لے چلے ہو تو کہیں دور ہی لے جانا مجھے 

مت کسی بسری ہوئی یاد سے ٹکرانا مجھے 


میں تو اس میں بھی بہت خوش ہوں ترا نام تو ہے 

ایک جرعہ بھی ترے نام کا مے خانہ مجھے 


آج دانستہ تغافل سے ہوں ہارا ہوا میں 

کل تلک عمر کی سچائی تھی افسانہ مجھے 


تو نے بھی مان لیا لوگوں کا پھیلایا سچ 

تو نے بھی جاتے ہوئے لوٹ کے دیکھا نہ مجھے 


علم کے طور پہ سیکھے ہیں محبت کے رموز 

تم بنا سوچے ہی کہہ جاتے ہو دیوانہ مجھے 


آ مری جان کے دشمن تری تادیب کروں 

تیرا ہر وار لگا غیر دلیرانہ مجھے 


اب مجھے تو ہی بتا دونوں میں کیوں تجھ کو چنوں 

تو نے رکھا نہ مجھے درد نے چھوڑا نہ مجھے


اکرام اعظم



تقی انصاری تقی ککراوی

 یوم پیدائش 08 اپریل


دل میں کس درجہ بے قراری ہے

ہجر کی رات کتنی بھاری ہے


ہم سے اب دور دنیا داری ہے

اب ضرورت ہمیں تمھاری ہے


موت کا خوف ان پہ طاری ہے

زندگی جن کو جاں سے پیاری ہے


کیا بتاؤں تمھارے بن میں نے

زندگی کس طرح گزاری ہے


چاند تارے نہ کر سکے پوری

انجمن میں کمی تمھاری ہے


بات پھولوں ہی تک نہیں محدود

حسن کا ہر بشر پجاری ہے


مشورہ ہے کہ عشق مت کرنا

میں نے رو رو کے شب گزاری ہے


مجھ سے ناراض تھے تو کہنا تھا

میری تصویر کیوں اتاری ہے


اس کی مجبوریاں تو دیکھ تقی

جیت کر جس نے بازی ہاری ہے


تقی انصاری تقی ککراوی




محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...