Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

احمق پھپھوندوی

 یوم پیدائش 26 اپریل 1895


اٹھو اٹھو اٹھو اٹھو 

کمر کسو کمر کسو 

سحر سے پہلے چل پڑو 

کڑی ہے راہ دوستو 

تھکن کا نام بھی نہ لو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


جھجھک نہ دل میں لاؤ تم 

بس اب قدم اٹھاؤ تم 

ذرا نہ ڈگمگاؤ تم 

خدا سے لو لگاؤ تم 

ملول و مضطرب نہ ہو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


اٹھا دیا قدم اگر 

تو ختم ہے بس اب سفر 

ہے راہ صاف و بے خطر 

نہ کوئی خوف ہے نہ ڈر 

چلو چلو بڑھو بڑھو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


تمہارے ہم سفر جو تھے 

وہ منزلوں پہ جا لگے 

سب آگے تم سے بڑھ گئے 

مگر ہو تم پڑے ہوئے 

ذرا سمجھ سے کام لو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


دلوں میں ہے جو ولولہ 

تو ڈال دو گے زلزلہ 

رہے بلند حوصلہ 

وہ سامنے ہے مرحلہ 

وہیں پہنچ کے سانس لو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


احمق پھپھوندوی


 

من موہن عالم

 یوم پیدائش :28 اپریل 1938


گناہ اپنے اپنے ثواب اپنا اپنا 

کتاب اپنی اپنی عذاب اپنا اپنا 


مقدر کا رونا ہے کیسا کہ سب نے 

کیا تھا اگر انتخاب اپنا اپنا 


بھرم بھی ہیں درکار جینے کو شاید 

کہ خواب اپنے اپنے سراب اپنا اپنا 


نہ پوچھو کہ مطلب ہے کیا زندگی کا

سوال ایک ہی ہے جواب اپنا اپنا


من موہن عالم



مصطفٰی ارباب

 یوم پیدائش 28 اپریل

ہانکا


جس خطے پہ

ہمیں زندگی گزارتی ہے

بہت بڑی شکار گاہ ہے یہ

ہر وقت

ہانکا لگا رہتا ہے

دوڑتے دوڑتے

ہم ہانپنے لگتے ہیں

سانس اپنا راستہ بھولنے لگتی ہے

ختم ہی نہیں ہوتا یہ ہانکا

دو پاؤں والے

ہمیشہ چار پاؤں والوں کا ہانکا لگاتے ہیں

ہمارے دو پاؤں

ایک ہانکے کا شکار ہو چکے ہیں

ہم بہت خوش ہوئے تھے

اب ہمارے پاس

ہانکا لگانے والوں کی طرح

دو پاؤں ہیں

مگر پاؤں دو ہوں یا چار

ہانکا لگا ہی رہتا ہے


مصطفٰی ارباب



ارپیت شرما

 یوم پیدائش 28 اپریل


دور کرنے کو یہ تنہائی کہاں سے آئی

تو نہیں ہے تو یہ پرچھائی کہاں سے آئی


آنکھ رکھ کر ہوا جاتا ہے خدا کا منکر 

وہ نہیں ہے تو یہ بینائی کہاں سے آئی


سبز کوسار چمن زار درختوں کی قطار

جو زمیں آپ کو دکھلائی کہاں سے آئی


بام و در دیکھ کہ حیران ہیں آنکھیں میری 

ایسی دیواروں پہ یہ کائی کہاں سے آئی


دیکھ کر غرق ہوئی جاتی ہے ساری دنیا

تیری آنکھوں میں یہ گہرائی کہاں سے آئی


تیری رعنائیِ قدرت پہ تعجب ہے خدا

ان پہاڑوں میں یہ اونچائی کہاں سے آئی


تیرے سجدوں پہ تو نازاں ہیں فرشتے سارے

تجھ میں ارپتؔ یہ جبیں سائی کہاں سے آئی


ارپیت شرما



ڈاکٹر ناہید کیانی

 یوم پیدائش 28 اپریل


عجیب دل میں مچی کھلبلی سے ڈرتے ہوئے

میں سانس کھینچتی ہوں زندگی سے ڈرتے ہوئے


اذیتوں کی کسک سے وہ آشنا کب ہے

مجھے گزرنا ہے جس کی گلی سے ڈرتے ہوئے


چراغ وقت سے پہلے بجھا رہے ہیں لوگ

ہوا کے ساتھ مِلے, روشنی سے ڈرتے ہوئے


کسی کے ہونٹوں پہ لرزے گا قہقہوں کا ہجوم

مکانِ صبر کی اس پختگی سے ڈرتے ہوئے


ہر ایک آئنہ تڑخن کا غم سہے ناہید

مرے خلوص مری سادگی سے ڈرتے ہوئے


ڈاکٹر ناہید کیانی



سیفی سرونجی

 یوم پیدائش 28 اپریل 1952


کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی 

یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی 


پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے 

ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی

 

ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا 

برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی

 

آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی 

گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی 


ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر 

مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی 


کس درجہ خوش گوار ہے تنہائیوں میں آج 

سیفیؔ چمکتے چاند ستاروں کی زندگی 


سیفی سرونجی



بدنام نظر

 یوم پیدائش 27 اپریل 1941


حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں


بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری

تمام رات گزاری ہے سرد بانہوں میں


اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں

بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں


بجھی جو رات تو اپنی گلی کی یاد آئی

الجھ گیا تھا میں رنگین شاہراہوں میں


نہ جانے کیا ہوا اپنا بھی اب نہیں ہے وہ

جو ایک عمر تھا دنیا کے خیر خواہوں میں


مری تلاش کو جس علم سے قرار آئے

نہ خانقاہوں میں پائی نہ درس گاہوں میں


بدنام نظر



شوق قدوائی

 یوم وفات 27 اپریل 1925


روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر 

اس نے چڑھائیں تیوریاں میرا قرار دیکھ کر 


قصد گلہ نہ تھا مگر حشر میں شوق جوش سے 

ہاتھ مرا نہ رک سکا دامن یار دیکھ کر 


دیکھ کے ایک بار انہیں دل سے تو ہاتھ دھو چکے 

دیکھیے کیا گزرتی ہے دوسری بار دیکھ کر 


آتے ہیں وہ تو پہلے ہی رنج سے صاف ہو رہوں 

آ کے کہیں پلٹ نہ جائیں دل میں غبار دیکھ کر 


وصل سے گزرے اے خدا ہاں یہ شگون چاہیئے 

صبح کو ہم اٹھا کریں روئے نگار دیکھ کر 


کعبہ کو جا نہ شوقؔ ابھی نیت زندگی بخیر 

ہم بھی چلیں گے تیرے ساتھ اب کی بہار دیکھ کر


شوق قدوائی



تابش رامپوری، ممبرا

 انسان کو ڈھونڈو گے تو انسان ملےگا

ورنہ یہاں ہر موڑ پہ حیوان ملے گا


پتھر کو اگر وصف کا ایوان ملے گا

ممکن ہے کہ خود ساختہ بھگوان ملے گا


بہتر ہے کہ یہ پھول کسی قبر پہ رکھ دو

بوسیدہ مکاں میں کہاں گلدان ملے گا


جس غار میں وحدت کی تجلی ہے وہاں جا

بستی میں کہاں صاحب عرفان ملے گا


جنت کی کسی کو بھی تمنا نہیں ہوگی

دنیا میں اگر عیش کا سامآن ملے گا


تابش میں یہی سوچ کے رہتا ہوں پریشاں 

ہر شخص یہاں مجھکو پریشان ملے گا


تابش رامپوری، ممبرا



زعیم رشید

 یوم پیدائش 27 اپریل 1984


دیار شوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ 

گزر رہی ہے مسلسل کسی عذاب کے ساتھ 


ہم اہل درد پکارے گئے صحیفوں میں 

ہم اہل عشق اتارے گئے کتاب کے ساتھ 


پھر ایک شام پذیرائی چشم تر کی ہوئی 

پھر ایک شام گزاری گئی جناب کے ساتھ 


ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں 

سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ 


مکالمہ رہا جاری ہماری آنکھوں کا 

بدن کی شاخ پہ کھلتے ہوئے گلاب کے ساتھ 


کچھ اور چاہیے تشنہ لبی مٹانے کو 

یہ پیاس وہ ہے جو بجھتی نہیں شراب کے ساتھ 


زعیمؔ وہ مری دریا دلی سے ڈرتا ہے 

وہ مجھ سے ملتا ہے لیکن بڑے حساب کے ساتھ 


زعیم رشید



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...