Urdu Deccan

Wednesday, May 11, 2022

نظرعلی

 یوم پیدائش 30 اپریل 1962


جدھر دیکھو ادھر دہشت کھڑی ہے

 خدارا خير ہو مشکل بڑی ہے

 

خموشی اس قدر چھائی ہے ہر سو

نگر کی ہر گلی سونی پڑی ہے


پرندے ناتواں ہیں آشیاں میں

نگاه باز ہر جاں پر  گڑی ہے 


 جہاں پر بھائی چارے کی ضیا تھی

 وہاں اب تیرگی پھیلی پڑی ہے

 

محبت آئے تو آئے کدھر سے

عداوت راستہ روکے کھڑی ہے


بنایا کارواں کا جن کو رہبر

شرارت ان کے تاجوں میں جڑی ہے


حکومت ہے جہاں میں نفرتوں کی

نظر یہ بھی سیاست کی کڑی ہے


نظرعلی



اسلم انصاری

 یوم پیدائش 30 اپریل 1939


ہر شخص اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے

دنیا بھی اک عجیب تماشا دکھائی دے


اک عمر قطع وادیٔ شب میں گزر گئی

اب تو کہیں سحر کا اجالا دکھائی دے


اے موجۂ سراب تمنا ستم نہ کر

صحرا ہی سامنے ہے تو صحرا دکھائی دے


میں بھی چلا تو پیاس بجھانے کو تھا مگر

ساحل کو دیکھتا ہوں کہ پیاسا دکھائی دے


الفاظ ختم ہوں تو ملے رشتۂ خیال

یہ گرد بیٹھ جائے تو رستہ دکھائی دے


کون اپنا عکس دیکھ کے حیراں پلٹ گیا

چہرہ یہ موج موج میں کس کا دکھائی دے


تو منکر وفا ہے تجھے کیا دکھاؤں دل

غم شعلہ نہاں ہے بھلا کیا دکھائی دے


ہر شب در خیال پہ ٹھہرے وہ ایک چاپ

ہر شب فصیل دل پہ وہ چہرہ دکھائی دے


لب‌ بستگی سے اور کھلے غنچۂ صدا

وہ چپ رہے تو اور بھی گویا دکھائی دے


اسلمؔ غریب‌ شہر سخن ہے کبھی ملیں

کہتے ہیں آدمی تو بھلا سا دکھائی دے


اسلم انصاری


کامران حامد

 یوم پیدائش 30 اپریل 1996


دل کے نئے مکاں میں ہر چیز اب نئی ہے

تصویر اک پرانی بس آپ کی رکھی ہے


کیسے صدائے فرحت آؤں میں تیری جانب

کمبخت یہ اداسی در پر کھڑی ہوئی ہے


بدلا ہے گھر کا نقشہ بدلا ہے رنگ و روغن

لیکن مکیں وہی ہے دیوار و در وہی ہے


میں کب سے منتظر ہوں ، کچھ تو کہے گی مجھ سے

یہ چاندنی جو میری چھت پر ٹہل رہی ہے


کتنا عجیب ہوں میں رہتا ہوں خوش ہمیشہ

اور یاد بھی نہیں ہے، کس بات کی خوشی ہے


تم بھی محبتوں سے اب پیش آ رہے ہو

کیا ہوگیا ہے تم کو، کیا بات ہو گئی ہے؟


اک شخص تھا جو بیٹھا ساحل پہ ہنس رہا تھا

اک چیخ تھی جو شاید دریا میں جا گری ہے


وہ بات جس کا کوئی سر ہے نہ پیر حامد

 وہ بات جانے کیسے دل پر مرے لگی ہے


کامران حامد



Friday, April 29, 2022

ڈاکٹر گلِ رعنا

 یوم پیدائش 30 اپریل 1985


میں نے جب بھی کیا تذکرہ آپ کا

خواب میں دیکھا وجۂ ضیاء آپ کا


چاند کی سمت جب بھی اٹھائی نظر

آگیا ذہن میں معجزہ آپ کا


جس کو یوسف ہے کہتا یہ سارا جہاں

وہ بھی ہے عاشقِِ با صفا آپ کا


میں تو مایوس ہونے لگی تھی مگر

آسرا حشر میں مل گیا آپ کا


ہم کریں نا کریں فرق پڑتا ہے کیا

ذکر کرتا ہے جب خود خدا آپ کا


پڑھ کے کلمہ وہ حق آشنا ہوگیا

جس بشر سے ہوا رابطہ آپ کا


خاکِی انسان سے کیا تقابل بھلا

نور ہی نور ہے سلسلہ آپ کا


آپ رعنا تو نبیوں کے سردار ہیں

جانتا ہے جہاں مرتبہ آپ کا


ڈاکٹر گلِ رعنا



طاہر کنول نعمانی

 یوم وفات 30 اپریل 2021


ہے تمنا یہی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں

یا نبی آپ کی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں


صبح سے شام تک شام سے رات تک رات سے صبح تک 

مشغلہ ہو یہی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں


کوئی لکّھے غزل نظم پر زور دے یا رباعی کہے 

میں تو یا سیدی ! نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں


ہر طرف نور ہو صاف ہو قلب بھی روح مسرور ہو 

اپنے سرکار کی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں 


آرزو ہے یہی میری آنکھوں میں بس اُن کا روضہ رہے 

اے کنول! میں یونہی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں 


طاہر کنول نعمانی



عظیم امروہوی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1945


انبیاء جتنے ہیں ان کا مرتبہ کچھ اور ہے

عظمتِ حضرت محمد مصطفےؐ کچھ اور ہے


نیل کے پانی میں جو رستہ بنا کچھ اور ہے 

آسمانوں سے جو گزرا راستہ کچھ اور ہے 


چاند ہے سورج ہے تارا ہے نہ ہے کوئی چراغ

آمنہ کے گھر میں یہ جلوہ نما کچھ اور ہے 


ہوگی جنت بھی تری معبود کافی پُر فضا

میری نظروں میں مدینے کی فضا کچھ اور ہے


تھا خدا مطلوب موسیٰؐ کو تو پہنچے طور پر

جس کو بلوایا وہ محبوب خدا کچھ اور ہے


کوئی گزرے گا فلک سے چاند بھی آج خوش

اور تاروں کے چمکنے کی ادا کچھ اور ہے


ہیں محمدؐ تو مدینہ علم کا حیدر ؓ ہیں در

ماسوا حیدر ؓ کہیں سے راستہ کچھ اور ہے


شاعری کا لطف ہر صنف سخن میں ہے عظیم

نعت کہنے کا حقیقت میں مزا کچھ اور ہے 


عظیم امروہوی



مبارک عظیم آبادی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1849


درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی

زندگی ہم سے تو بے لطف گزاری نہ گئی


دن کے نالے نہ گئے رات کی زاری نہ گئی

نہ گئی دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی


ہم تو خوں گشتہ تمناؤں کے ماتم میں رہے

سینہ کوبی نہ گئی سینہ فگاری نہ گئی


انتظار آپ کا کب لطف سے خالی نکلا

رائیگاں رات کسی روز ہماری نہ گئی


بخشوایا مجھے تم نے تو خدا نے بخشا

نہ گئی روز جزا بات تمہاری نہ گئی


لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ لیکن

دن ہمارا نہ گیا رات ہماری نہ گئی


مبارک عظیم آبادی



اجے سحاب

 یوم پیدائش 29 اپریل 1969


جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں

جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں


حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے

حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں


رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے

صبح ہوتے ہی جنہیں لوگ بجھا دیتے ہیں


ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو

لڑکھڑانے کی ہم افواہ اڑا دیتے ہیں


کیوں نہ لوٹے وہ اداسی کا مسافر یارو

زخم سینہ کے اسے روز سدا دیتے ہیں


اجے سحاب



نیاز سواتی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1941


ورنہ مجھے بھی جھوٹا سمجھتے تمام لوگ 

صد شکر اپنے حلقے کا ممبر نہیں ہوں میں 

دولت کی ریل پیل ہے اب گھر میں اس لیے 

کسٹم کا اک کلرک ہوں ٹیچر نہیں ہوں میں


نیاز سواتی 



سید خادم رسول عینی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1968

ماہ صیام


دے رہا ہے مسلموں کو ضابطہ ماہ صیام

نور ایماں اور تقویٰ کی ضیا ماہ صیام 


اس کا استقبال کیجیے مومنو ، سنت ہے یہ 

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام


ہم گناہوں میں پھنسے تھے ، گرچہ نادم تھے بہت 

تیرے آتے ہی رکا یہ سلسلہ ماہ صیام


تجھ میں اک شب قدر والی ہے ، یہ آقا نے کہا 

تجھ سا ہم لائیں کہاں سے دوسرا ماہ صیام 


مومنوں کے رخ پہ ہیں رعنائیاں ، شادابیاں

منظر افطار و سحری خوش نما ماہ صیام 


اس کا ہر پل ہے مزین برکت و انوار سے 

ہے مقدس ابتدا تا انتہا ماہ صیام 


جس میں توریت و زبور انجیل بھی نازل ہوئیں 

مرحبا صد مرحبا وہ آگیا ماہ صیام


اس کا استقبال کرتے تھے حبیب کبریا

 اس قدر تقدیس کا حامل رہا ماہ صیام


کھل گیے جنت کے دروازے مسلماں کے لیے

بند ہر دوزخ کا دروازہ ہوا ماہ صیام


کرتی ہے مچھلی دعا دریا میں صائم کے لیے

ہے بہت اپنے لیے برکت نما ماہ صیام


نام ہے ماہ مساوات اس کا ، ماہ صبر بھی 

ہوگیے سب حامل صبر و رضا ماہ صیام


چاند کو اس کے پیمبر دیکھتے تھے شوق سے

مومنو خوشیاں مناؤ آگیا ماہ صیام


صائموں کی افضلیت "عینی" اس سے جان لو 

اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام


سید خادم رسول عینی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...