Urdu Deccan

Friday, May 13, 2022

فیاض وردک

 یوم پیدائش 02 مئی 1966


دیکھو مچلے تو نہ پھر روک سکوگے ہرگز

یوں نہ محفل میں کرو ہم کو اشارے جاناں


ہلکی ہلکی سی ہنسی ملتفت اندازِ نظر

کیوں دکھاتی ہو ہمیں دن میں ستارے جاناں


الجھنیں جیسے زمانے کی سلجھتی سی گئیں

جب تصور میں ترے بال سنوارے جاناں


جب بھی پوچھا گیا مفہومِ محبت کیا ہے

ہم تو ایمان سے یکلخت پکارے جاناں


تم بھی فیاض کی مانند پکارو تو اسے

خود ہی بن جائیں گے گرداب کنارے جاناں


فیاض وردک



نشتر شہودی

 یوم پیدائش 02 مئی 1973


جہد کرتا رہے زندگی کے لیے

ہے مناسب یہی آدمی کے لیے


جب چراغوں کی لو سرد ہونے لگے

دلا جلایا کرو روشنی کے لیے


حق کے رستے میں مرنا بھی ہے زندگی

ہاتھ پھیلائیں کیوں زندگی کے لیے


خوش جو ہوتا رہا ہے خوشی بانٹ کر

وہ ترسنے لگا ہے خوشی کے لیے


لوگ فٹ پاتھ پر آکے رہنے لگے

شہر میں گھر نہیں آدمی کے لیے


قافلہ لوٹ لیتا ہے جو راہ میں

چن لیا پھر اسے رہ بری کے لیے


یہ تو کہنے کی باتیں ہیں نشترؔ میاں

کوئی مرتا نہیں ہے کسی کے لیے


نشتر شہودی



امان ذخیروی

 یوم پیدائش 02 مئی 1975


گھر آنگن کا منظر بدلا بدلا ہے

ہر گلشن کا منظر بدلا بدلا ہے


مسخ ہوئی ہے مشترکہ تہذیب یہاں

گنگ و جمن کا منظر بدلا بدلا ہے


آج یہاں کچھ شرم و حیا کی دیوی کے

پیراہن کا منظر بدلا بدلا ہے


کورونا نے ایسے دن دکھلائے ہیں

بزم سخن کا منظر بدلا بدلا ہے


گلے ملیں کیا ، ہاتھ ملانا ہے مشکل

عید ملن کا منظر بدلا بدلا ہے



سچ کو سچ کہنے سے وہ بھی ہے قاصر

ہر درپن کا منظر بدلا بدلا ہے


امان  ذخیروی

بسمل یوسفی


 یوم پیدائش 02 مئی 1936


میں ریت ریت سمندر ہوں اک سراب زدہ

مرے وجود کا صحرا مگر ہے آب زدہ


بسمل یوسفی


شمیم اختر

 یوم پیدائش 02 مئی 1971


وہ پھر سے دل دکھانا چاہتا ہے

"مگر کوئی بہانا چاہتا ہے"


نقابوں پر وہ باتیں کر کے تیکھی

کسی کو ورغلانا چاہتا ہے


کمی تو تجربہ کی ہے یقیناً

حکومت پر چلانا چاہتا ہے


اسے لگتا ہے جنتا ہے یہ بھولی

تبھی تو وہ ستانا چاہتا ہے


جنہیں ہم مانتے تھے سچا رہبر

وہ قد ان کا گھٹا نا چاہتا ہے


چمکتا ہے جو بھارت جگ میں اختر 

اسے وہ کیا بنانا چاہتا ہے 


شمیم اختر



روشین علی روشی

 یوم پیدائش 02 مئی 1983


لب سلے لمحوں کا کہرام بھلا رکھا ہے

اہل ِ دنیا  کا ہر  الزام  بھلا  رکھا  ہے


بھول بیٹھے ہیں کہ یہ وقت نہیں رکتا ہے

جانتے   بوجھتے انجام  بھلا   رکھا  ہے


ابد آثار نہ ہو جاٸے اماوس کی یہ رات

چاند کو میں نے سر ِ شام بھلا رکھا ہے


پیار میں کوٸی خسارا تو نہیں ہے لیکن

جو ضروری تھا وہی کام بھلا رکھا ہے


دانہ ڈالا ہے کسے یاد رکھا ہے روشی

کون  آٸے   گا   تہ ِ دام   بھلا  رکھا  ہے


روشین علی روشی



نظام الدین نظام

 یوم پیدائش 01 مئی 1929


سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے 

جو لٹ چکا یقین تھا جو بچ گیا گمان ہے 


زمین کی کشش کا جال توڑ کر نکل گئیں 

مگر یہ طے ہے چیونٹیوں کی آخری اڑان ہے 


لہو کے نام لکھ دیے ہیں تیر ابر و باد کے 

زمیں ہدف بنی ہوئی ہے آسماں کمان ہے 


وہی جو آدھی رات کو چراغ بن کے جل اٹھا 

کسی کی یاد کا نہیں وہ زخم کا نشان ہے 


مفاہمت کے دیو کا اسیر ہو گیا نظامؔ 

میری انا کا وہ پرند جس میں میری جان ہے


نظام الدین نظام



عزیز بلگامی

 یوم پیدائش 01 مئی 1954


آج کل ہوتا ہے رسوائی سے عزت کا ملاپ

کاش ہو جاتا کبھی صورت سے سیرت کا ملاپ


تیل میں پانی کبھی گھلتا نہیں ہے دوستو

کیسے ممکن ہے فسانے سے حقیقت کا ملاپ


ہاتھ میں نفرت کی مشعل ہے لبوں پر پیار ہے

پھر بھلا نفرت سے ہو کیسے محبت کا ملاپ


آج بس محسوس کرنے کی اجازت ہے ہمیں

حشر میں دیکھیں گے ہم خالق سے خلقت کا ملاپ


بیشتر اک دوسرے کے واسطے ہیں اجنبی

ہاں! مساجد میں مگر جاری ہے ملت کا ملاپ


سچ کو ثابت کر چکے ہیں جھوٹ ، اپنے حکمراں

خیر سے کیوں کر ہوا ، شر کی حمایت کا ملاپ


آئینے کو توڑ کر جھانکو تو مل جائوں گا میں

آپ کی صورت سے ہوگا میری صورت کا ملاپ


بہرِ اردو تو جگر کا خوں جلاتا ہے عزیز

کاش ہو جاتا تری خدمت سے شہرت کا ملاپ


عزیز بلگامی



تابش عظیم آبادی

 یوم پیدائش 01 مئی 1941


مان لیتی ہے جہاں عقل بھی تجویز جنوں

ایک ایسا بھی محبت میں مقام آتا ہے


تابش عظیم آبادی




اکرام حسین آزاد

 یوم پیدائش 01 مئی 1950


ایک جگنو سے کام کیا لیں گے

آج کی رات گھر جلا لیں گے


کارواں سے بچھڑنے والے ہی

اک نیا راستہ نکالیں گے


وقت کے آئینے سے اپنا عکس

وقت پڑنے پہ ہم ہٹالیں گے


وہ بھی ہنس کر مزاج پوچھے گا

ہم بھی مایوسیاں چھپا لیں گے


تم ہمارے نہیں ہوئے تو کیا

دل ہمارا ہے ہم منالیں گے


دوستی کی نباہ کی خاطر

دوستوں سے فریب کھالیں گے


اکرام حسین آزاد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...