Urdu Deccan

Monday, May 16, 2022

میر گل خان نصیر

یوم پیدائش 14 مئی 1914

کیسے مانوں کہ میرا دیس بھی آزاد ہوا ​
جب کہ ہے نشہ حکومت وہی ساز وہی​
کیسے مانوں کہ یہ اجڑا چمن آباد ہوا ​
جب کہ ہے زاغ و زغن کا انداز وہی​

​کیسے مانوں کہ فرنگی حکومت نہ رہی​
جبکہ ہے جرگہ و جرمانہ و تعزیر وہی​
کیسے مانوں کہ غلامی کی مصیبت نہ رہی​
بیڑیاں پاوّں میں اور ہاتھوں میں زنجیر وہی ​
کیسے مانوں کہ یہاں وقت ہے دلشادی کا​
جبکہ کشکول لیے پھرتا ہے مجبور وہی​
کیسے مانوں کہ لوگوں کی حکومت ہوگی​
جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی​

کیسے مانوں کہ یہاں ختم رعونت ہوگی​
جبکہ فرعون بنے بیٹھے ہیں زردار وہی​
کیسے مانوں کہ یہاں ہوگا شریعت کا نفاذ​
جبکہ ساقی ہے وہی شاہد و میخانہ وہی​

کیسے مانوں کہ بدل جا ئیں گے انکے انداز​
جبکہ ہے نعرہ لا دینی و مستانہ وہی​
کیسے میں قطرہ بے مایہ کو دریا کہہ دوں​
کیسے میں خاک کے ذرے کو ثریا کہہ دوں​

میر گل خان نصیر 



مضطر حیدری

 یوم وفات 14 مئی 1975



ہر اک صلیب و دار کا نظارہ ہم ہوئے 

ہر ایک کے گناہ کا کفارہ ہم ہوئے 



آئی جو بھوری شام سلگنے لگا بدن 

بھیگی جو کالی رات تو انگارا ہم ہوئے 



مٹی میں مل گئے تو کھلائے گناہ گل 

ابلے تو اپنے خون کا فوارہ ہم ہوئے 



سمجھا تھا وہ کہ خاک میں ہم کو ملا دیا 

پیدا اسی زمین سے دوبارہ ہم ہوئے 



ہر ایک چوب دار نے کھینچی ہماری کھال 

ہر دور کے جلوس کا نقارا ہم ہوئے 



جن اجنبی خلاؤں سے واقف نہیں کوئی 

مضطرؔ انہیں خلاؤں کا سیارہ ہم ہوئے



مضطر حیدری



Sunday, May 15, 2022

اصغر ندیم سید

یوم پیدائش 14 مئی 1948
نظم میرے دل میں جنگل ہے

میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں بھیڑیا رہتا ہے 
جو رات کو میری آنکھوں میں آ جاتا ہے 
اور سارے منظر کھا جاتا ہے 
صبح کو سورج اپنے پیالے سے شبنم ٹپکاتا ہے 
اور دن کا بچہ 
میری روح کے جھولے میں رکھ جاتا ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں فاختہ رہتی ہے 
جو اپنے پروں سے میرے لئے 
اک پرچم بنتی رہتی ہے 
اور خوشبو سے اک نغمہ لکھتی رہتی ہے 
پھر تھک کر میرے بالوں میں سو جاتی ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں جوگی رہتا ہے 
جو میرے خون سے اپنی شراب بناتا ہے 
اور اپنے ستار میں چھپی ہوئی لڑکی کو 
پاس بلاتا ہے 
پھر جنگل بوسہ بن جاتا ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں بھولا بھٹکا زخمی شہزادہ ہے 
جس کا لشکر 
خون کی دھار پہ اس کے پیچھے آتا ہے 
وہ اپنے وطن کے نقشے کو زخموں پہ باندھ کے 
آخری خطبہ دیتا ہے 
پھر مر جاتا ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں گہری خاموشی ہے

اصغر ندیم سید



خورشید اکبر

یوم پیدائش 14 مئی 1959

وہ کون ہیں پھولوں کی حفاظت نہیں کرتے 
سنتے ہیں جو خوشبو سے محبت نہیں کرتے 

تم ہو کہ ابھی شہر میں مصروف بہت ہو 
ہم ہیں کہ ابھی ذکر شہادت نہیں کرتے 

قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے 
آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے 

ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی 
یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے 

ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی 
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے 

اس موسم جمہور میں وہ گل بھی کھلے ہیں 
جو صاحب عالم کی حمایت نہیں کرتے 

ہم بندۂ ناچیز گنہ گار ہیں لیکن 
وہ بھی تو ذرا بارش رحمت نہیں کرتے 

چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں 
آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے 

شبنم کو بھروسہ ہے بہت برگ اماں پر 
خورشیدؔ بھی دانستہ قیامت نہیں کرتے

خورشید اکبر



اسلم بدر

یوم پیدائش 14 مئی 1944

خون اتر آیا دل کے چھالوں میں 
بن رہے تھے محل خیالوں میں 

جاگتے جاگتے چڑھا سورج 
آنکھ دکھنے لگی اجالوں میں 

پنچھیو ہجرتوں کی رت آئی 
برف جمنے لگی ہے بالوں میں 

بھوک نے کھینچ دی ہیں دیواریں 
ہم نوالوں میں ہم پیالوں میں 

مرثیہ اس صدی کا لکھنا ہے 
اور دو تین چار سالوں میں 

بجنے والی ہے آخری گھنٹی 
ہم ہیں الجھے ہوئے سوالوں میں 

پانیوں کی سیاستیں اسلمؔ 
مچھلیاں مطمئن ہیں جالوں میں

اسلم بدر



اویناش پانڈے

یوم پیدائش 14 مئی 1987

وصل کی ضد سے اٹھیں ہجر کو رویا نہ کریں
بیش قیمت ہیں یہ لمحے انہیں کھویا نہ کریں

ناصحا اور بتا ہم کو کہ کیا کیا نہ کریں
دن میں سویا نہ کریں رات کو جاگا نہ کریں

منزل ذکر رخ یار سے آگے کچھ ہو
ہم سے تو ہو نہیں سکتا اسے سوچا نہ کریں

ہم کو رہنا ہے اسی قریۂ کم نظراں میں
سخت مشکل ہے یہاں رہ کے دکھاوا نہ کریں

جھوٹ سو بار کہا جائے تو سچ لگتا ہے
مشورہ یہ ہے کہ خود پر بھی بھروسہ نہ کریں

یار کہتے ہیں کہ یہ طور جنوں اچھا نہیں
اس کی تصویر کو آنکھوں سے لگایا نہ کریں

ہم نہیں کر سکے لوگوں کی نظر کو قابو
لڑکیوں سے کہو بارش میں یوں بھیگا نہ کریں

اب جدھر دیکھیے اک محشر خوبی ہے بپا
آرزو کس کی کریں کس کی تمنا نہ کریں

کیف ہیں آپ کوئی مجنوں و فرہاد نہیں
پا برہنہ نگہ خلق میں آیا نہ کریں

اویناش پانڈے

طالب چکوالی

یوم پیدائش 13 مئی 1900

میرا آئینہ مری شکل دکھاتا ہے مجھے 
یہ وہ اپنا ہے جو بیگانہ بتاتا ہے مجھے 

میرے احساس دوئی کو یہ ہوا دیتا ہے 
میری ہستی کا یہ احساس کراتا ہے مجھے 

کرب احساس کراتا ہے خودی کے درشن 
زعم ہستی کے جھروکے میں سجاتا ہے مجھے 

قدر و قیمت کو بڑھانے کا بڑھاوا دے کر 
بہر نیلام کہاں دل لئے جاتا ہے مجھے 

سادگی میری اسے دیتی ہے اذن گفتار 
مجھ کو آتی ہے ہنسی جب وہ بناتا ہے مجھے 

بھول جاتا ہوں سبھی جور و جفا کے قصے 
جب کوئی گیت محبت کے سناتا ہے مجھے 

کون سنتا ہے مرے دکھ کی کہانی طالبؔ 
جس سے کہتا ہوں وہ اپنی ہی سناتا ہے مجھے

طالب چکوالی



شریف کنجاہی

یوم پیدائش 13 مئی 1914

گل زار میں وہ رت بھی کبھی آ کے رہے گی 
جب کوئی کلی جور خزاں کے نہ سہے گی 

انسان سے نفرت کے شرر بجھ کے رہیں گے 
صدیوں کی یہ دیوار کسی دن تو ڈھے گی 

جس باپ نے اولاد کی بہبود نہ سوچی 
اس باپ کو اولاد عیاں ہے جو کہے گی 

تو جون کی گرمی سے نہ گھبرا کہ جہاں میں 
یہ لو تو ہمیشہ نہ رہی ہے نہ رہے گی 

پختہ ترا ایواں کہ مرا کچا مکاں ہے 
سیلاب شریفؔ آیا تو ہر چیز بہے گی

شریف کنجاہی



شھباز انصاری

یوم پیدائش 13 مئی 1961

ناطے کا سمے بندھن تُو چاوے جِدھر ھووے
تُو چاوے تو شام آوے تُو چاوے سحر ھووے

بے کار سے جیون کی بے رنگ سی گھڑیاں بھی
سٙت رنگی سی ھو جاویں جب تیری نظر ھووے

سرگم کی رِدھم تُجھ سے راگی کی کلا تُجھ سے
جو تان بھی تُو چھیڑے وہ تان مٙدُھر ھووے

تُو زُلف کو لہراوے رِم جِھم چھما چھم بٙرسے
گھنگھور گھٹاووں پر کچھ ایسا اثر ھووے

جس کھولی میں رِہوت ھو اُس کھولی کے بازُو میں
اے کاش کبھی ساجن میرا بھی تو گھر ھووے

اِک روگ مِلے تیرا دُوجا تُو مِلے مجھ کو
سنسار کے بیچ ایسا کوئی تو نگر ھووے

میں تیرا دِوانہ ھوں سُدھ بُدھ سے بِگانہ ھوں  
صد حیف اگر تجھ کو میری نہ خبر ھووے

بٙن باس کی بِپتا کو ویدوں میں پٙرونے کو
شھباز بتاوو کیوں ہیرے سا جِگر ھووے

شھباز انصاری



مستحسن جامی

یوم پیدائش 12 مئی 1994

دریاؤں کو حال سنا کر رقص کیا
صحراؤں کی خاک اڑا کر رقص کیا

قیس مجھے اس بات پہ حیرت ہوتی ہے
تو نے کیسے دشت میں جا کر رقص کیا

ان لوگوں کی حالت دیکھنے والی تھی
جن لوگوں نے وجد میں آ کر رقص کیا

جب میری آواز نہ پہنچی کانوں تک
پھر میں نے تحریر میں آ کر رقص کیا

طوق گلے میں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں
گھنگرو پہنے ہوش گنوا کر رقص کیا

دولت والے مست ہوئے ایوانوں میں
درویشوں نے اشک بہا کر رقص کیا

بھید کُھلا جس شخص پہ تیرے ہونے کا
اس نے تیرے قرب کو پا کر رقص کیا

مستحسن میں جامی ہوں منصور نہیں
دلبر کو اشعار سنا کر رقص کیا

مستحسن جامی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...