Urdu Deccan

Wednesday, May 25, 2022

پروین طاہر

یوم پیدائش 17 مئی 1958
ایک نادان نظم

حبیب جاں 
تم اگر وبا کے دنوں میں آئے 
تو بصد عقیدت و محبت 
تمہارے ہاتھ چوموں گی
کیونکہ یہ میرے مسیحا کے ہاتھ ہیں 
تمہاری چادر کو اپنے ہاتھوں سے 
تہہ کر کے اپنے سرہانے رکھوں گی 
کہ اس بکل کی حرارت مجھ پر 
کشف کے در کھولتی ہے 
تمہارے جوتوں کو قرینے سے جوڑ 
کر پلنگ کے پاس رکھوں گی 
تمہارے ساتھ ایک پلیٹ میں 
کھانا کھاؤں گی
اور تمہاری ضدی نظروں کا 
بھرم رکھوں گی 
نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے 
کہ وبا کی آنکھ میں 
محبت کرنے والوں کے لیے 
کچھ حیا باقی ہوگی

پروین طاہر



طیب حسین طاہر

یوم پیدائش 17 مئی 1963

تلخی وقت سے ڈر جاتا ہے 
وقت کا کیا ہے گذر جاتا ہے

کیا کوئی غم سے بھی مرجاتا ہے
زخم جیسا بھی ہو بھر جاتا ہے 

زہر آلودہ ہیں الفاظ ان کے
جاتے جاتے ہی اثر جاتا ہے

جان قربان ترے وعدوں پر
روز وعدوں سے مکر جاتا ہے

اک نئے ولولے سے جیتا ہوں
وہ عیادت مری کر جاتا ہے

چند پہروں کی ہے شہرت ورنہ
اک نشہ ہے جو اتر جاتا ہے 

میں بھی چپ چاپ رہا کرتا ہوں
وہ بھی خاموش گذر جاتا ہے 

در و دیوار چمک اٹھتے ہیں
جب کوئی لوٹ کے گھر جاتا ہے

پال کر حسرتیں طاہر دل میں
اب کہاں دیدۂ تر جاتا ہے 

طیب حسین طاہر



پروفیسر شمیم خنفی

یوم پیدائش 17 مئی 1939

کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں 
نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں 

زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے 
یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں 

سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر 
سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں 

پتا آنکھوں کو ملتا ہے یہیں سب جانے والوں کا 
سبھی اس آئینہ خانے کی حیرانی میں رہتے ہیں 

ادھر ہم ہیں کہ ہر کار جہاں دشوار ہے ہم کو 
ادھر کچھ لوگ ہر مشکل کی آسانی میں رہتے ہیں 

کسے یہ نیلی پیلی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں 
عجب کیا ہے جو ہم بچوں کی نادانی میں رہتے ہیں 

یہی بے چہرہ و بے نام گھر اپنا ٹھکانہ ہے 
ہم اک بھولے ہوئے منظر کی ویرانی میں رہتے ہیں 

   پروفیسر شمیم خنفی


 

حسن عابد

یوم پیدائش 17 مئی 1935

حسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں 
یہ جفاؤں پہ جفا اب مجھے منظور نہیں 

زلف زنجیر سہی دل بھی گرفتار مگر 
میں ترے حلقۂ آداب کا محصور نہیں 

دل کا سودا ہے جو پٹ جائے تو بہتر ورنہ 
میں بھی مجبور نہیں آپ بھی مجبور نہیں 

دامن دل سے یہ بیگانہ روی اتنا گریز 
تم تو اک پھول ہو کانٹوں کا بھی دستور نہیں 

چند جام اور کہ میخانۂ جاں تک پہنچیں 
ڈھونڈنے والے مجھے مجھ سے بہت دور نہیں 

سب لباسوں میں ہیں پوشیدہ گناہوں کی طرح 
دل بیباک بھی محفل کے تئیں اور نہیں 

ہر سخن ہوش کا ہے مفتی حیران کے ساتھ 
سب پئے بیٹھے ہیں اور کوئی بھی مخمور نہیں
 
سب رسن بستۂ آزادیٔ ایمان ہوئے 
اب کوئی میرے سوا بندۂ مجبور نہیں 

اس سے مل کر بھی اداس اس کی جدائی بھی گراں 
دل بہ ہر حال کسی طور بھی مسرور نہیں 

حسن عابد 



Monday, May 16, 2022

ڈاکٹر احسان اعطمی

یوم پیدائش 16 مئی

بیٹھ کر بس قوت پرواز پر مت ناز کر
قوت پرواز ہے تو جرأت پرواز کر

اٹھ کہ یہ منزل ہے تیری آخری منزل نہیں
اٹھ نئے عزم سفر سے صبح کا آغاز کر

کیوں زمانے سے ہی رکھتا ہے امید انقلاب
خود بھی تو تبدیل اپنا تو ذرا انداز کر

خود اگر لڑنے سے قاصر ہے تو باطل کے خلاف
کم سے کم کچھ حق کے حق میں ہی بلند آواز کر

زندگی کی راہ میں ہیں سوز بھی اور ساز بھی
گامزن رہنا ہے تو پھر سوز کو بھی ساز کر

عین ممکن ہے کہ کل ہو جائے تیرے ہی خلاف
ہر کس و ناکس پہ افشا اس طرح مت راز کر 

ڈاکٹر احسان اعطمی



میر مہدی مجروح

یوم وفات 15 مئی 1909

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا 
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا 

اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے 
اے غلغلۂ محشر ہم کو نہ جگا جانا 

مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا 
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا 

گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی 
ماہیت اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا 

کیا یار کی بد خوئی کیا غیر کی بد خواہی 
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا 

کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا 
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا 

اک شب نہ اسے لائے کچھ رنگ نہ دکھلائے 
اک شور قیامت ہی نالوں نے اٹھا جانا 

چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے 
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا 

ہے حق بطرف اس کے چاہے سو ستم کر لے 
اس نے دل عاشق کو مجبور وفا جانا 

انجام ہوا اپنا آغاز محبت میں 
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا 

مجروحؔ ہوئے مائل کس آفت دوراں پر 
اے حضرت من تم نے دل بھی نہ لگا جانا

میر مہدی مجروح


 

مہتاب قدر

یوم پیدائش 15 مئی 1957

ہجرتوں سے نظر ہٹاو میاں 
گھر بلانے لگے ہیں آو میاں 

پہلے گھر کی ذرا خبر لے لو 
پھر کہیں بھی دئیے جلاو میاں 

چگ رہے ہیں نصیب کا اپنے 
ان پرندوں کو مت اڑاو میاں 

آسماں نا زمین پر قدرت 
کس لئے اس قدر ہے بھاومیاں

کل یہ بچے تمھیں بھلا دیں گے
ان کو اپنی زباں سکھاو میاں 

دوسروں کے گھروں میں جھانکتے ہو
اپنے گھر کو ذرا بچاو میاں

چند سکوں پہ اتنا اترانا
اپنی اوقات مت دکھاو میاں

آپ کتنے شریف زادے ہیں !
رہنے دو منہ نہ اب کھلاومیاں

اردو اپنی شناخت ہے مہتاب 
اپنی پہچان مت گنواو میاں 

مہتاب قدر



صفدر حسین زیدی

یوم پیدائش 12 مئی 1919

داستاں دل کی ذرا دل کو جگا لوں تو کہوں
اپنے ماضی کو قریب اپنے بلا لوں تو کہوں

وسعتِ ارض و سما کتنی کشادہ کر دی
اُن کی انگڑائی کی تصویر بنا لوں تو کہوں

دشتِ ہستی کا سفر کتنا کٹھن تھا اے دوست
سانس لے لوں تو کہوں ، ہوش میں آ لوں تو کہوں

دیر پا کتنا ہے اُس آفتِ جاں کا غصہ
سامنے جا کے ذرا آنکھ ملا لوں تو کہوں

کتنے توڑے ہیں صنم ، کتنے تراشے ہیں خدا
اپنا بُت خانۂ افکار سجا لوں تو کہوں

کس طرح دل کو ملا چشمۂ حیواں سرِ راہ
اِس کی روداد ذرا پیاس بجھا لوں تو کہوں

عَرق آتا ہے جبیں پر کہ ستم بڑھتا ہے
اُن کو پیمانِ وفا یاد دلا لوں تو کہوں

یہ تپش زارِ محبت کا فسانہ صفدرؔ
شمعِ احساس ذرا دل میں جلا لوں تو کہوں

صفدر حسین زیدی



سردار خان سوز

یوم پیدائش 15 مئی 1934

بجھے چراغ جلانے میں دیر لگتی ہے
نصیب اپنا بنانے میں دیر لگتی ہے

وطن سے دور مسافر چلے تو جاتے ہیں
وطن کو لوٹ کے آنے میں دیر لگتی ہے

تعلقات تو اک پل میں ٹوٹ جاتے ہیں
کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے

بکھر تو جاتے ہیں پل بھر میں دل کے سب ٹکڑے
مگر یہ ٹکڑے اٹھانے میں دیر لگتی ہے

یہ ان کی یاد کی خوشبو بھی کیسی ہے خوشبو
چلی تو آتی ہے جانے میں دیر لگتی ہے

وہ ضد بھی ساتھ میں لاتے ہیں جانے جانے کی
یہ اور بات کہ آنے میں دیر لگتی ہے

یہ گھونسلے ہیں پرندوں کے ان کو مت توڑو
انہیں دوبارہ بنانے میں دیر لگتی ہے

وہ دور عشق کی رنگیں حسین یادوں کے
نقوش دل سے مٹانے میں دیر لگتی ہے

یہ داغ ترک مراسم نہ دیجئے ہم کو
جگر کے داغ مٹانے میں دیر لگتی ہے

خبر بھی ہے تجھے دل کو اجاڑنے والے
دلوں کی بستی بسانے میں دیر لگتی ہے

تمہیں قسم ہے بجھاؤ نہ پیار کی شمعیں
انہیں بجھا کے جلانے میں دیر لگتی ہے

بھلاؤں کیسے اچانک کسی کا کھو جانا
یہ حادثات بھلانے میں دیر لگتی ہے

ذرا سی بات پہ ہم سے جو روٹھ جاتے ہیں
انہیں تو سوزؔ منانے میں دیر لگتی ہے

سردار خان سوز



نصیر الدین نصیر ہنزائی

یوم پیدائش 15 مئی 1917

جان فدا کردوں گا میں خود امن عالم کے لئے
تاکہ قربانی ہو میری ابن آدم کے لئے
عالم انسانیت جب اس قدر بیمار ہے
رحم کیوں آتا نہیں ہے ابن مریم کے لئے

نصیر الدین نصیر ہنزائی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...