یوم وفات 20 مئی 1953
راز دل کس کو سنائیں راز داں ملتا نہیں
جان جاتی ہے غضب ہے جان جاں ملتا نہیں
جس مکاں میں تو مکیں ہے وہ مکاں ملتا نہیں
جستجو میں گم ہوئے ایسے نشاں ملتا نہیں
داور محشر قیامت ہے مری فریاد ہے
لے گیا دل چھین کر اک دل ستاں ملتا نہیں
تجھ سے ملنے کا بتا پھر کون سا دن آئے گا
عید کو بھی مجھ سے گر اے میری جاں ملتا نہیں
اس بت نا مہرباں سے پھر ملا دے ایک بار
یا الٰہی کوئی ایسا مہرباں ملتا نہیں
ملتا جلتا رہتا ہے وہ عام سے اور مجھ سے خاص
ہاں میں ہاں ملتی نہیں جب تک نہاں ملتا نہیں
بیل میں بوٹے میں پھل میں پتیوں میں پھول میں
ہر چمن میں اس کا مظہر ہے کہاں ملتا نہیں
سانس کے چابک کی زد نے دم میں پہنچایا عدم
کچھ سراغ توسن عمر رواں ملتا نہیں
جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب
تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں
کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن
غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں
کس سے پوچھوں شہر خاموشاں میں سب خاموش ہیں
خاک ملتی ہے سراغ رفتگاں ملتا نہیں
کیا بتائیں کیا سنائیں کیا پڑھیں اکبرؔ غزل
کوئی دنیا میں سخن کا قدرداں ملتا نہیں