Urdu Deccan

Wednesday, May 25, 2022

فیصل قادری گنوری

یوم پیدائش 21 مئی 1995

اُن سے شکوہ شکایت نہیں آج کل
جِن کو ملنے کی چاہت نہیں آج کل

یاد تواُن کی دل میں بسائےہوں میں
کیا ہوا ہے جو قربت نہیں آج کل

کیا سبب یے جو بے چین رہنے لگا
کیوں مرے دل کو راحت نہیں آج کل

کتنی مصروف رہتی ہے تُو زندگی
”خالی رہنے سے فرصت نہیں آج کل“

جو تھے کل تک مرے ساتھ ہر دم اُنھیں
ایک لمحے کی مہلت نہیں آج کل

اُن کےحالات ہم سے نہ پوچھے کوئی
ہوتی محفل میں شرکت نہیں آج کل

کام ہوگا تو فیصل وہ آ جائیں گے
اُن کو تیری ضرورت نہیں آج کل

فیصل قادری گنوری


 

صبغہ احمد

یوم پیدائش 21 مئی

کہیں نہ جی لگے ، ہم کیا کریں کدھر جائیں
ہمیں نہ دشت نہ گلشن نہ انجمن بھائیں 

کہ بحرِعشق میں ملتا ہے لطفِ جان کنی
یہاں پہ تیرنے والے بھی ڈوبتے جائیں

یہ میرا دل ہے، یہ کوئی سرائے تو نہیں ہے 
ہوئی ہے آپ کو وحشت تو دشت کو جائیں 

خدا کرے وہ سدا اب رہیں رقیب نواز 
نہ میرا حال وہ پوچھیں ، نہ میرا غم کھائیں

صبغہ احمد


 

اکبر وارثی میرٹھی

یوم وفات 20 مئی 1953

راز دل کس کو سنائیں راز داں ملتا نہیں 
جان جاتی ہے غضب ہے جان جاں ملتا نہیں 

جس مکاں میں تو مکیں ہے وہ مکاں ملتا نہیں 
جستجو میں گم ہوئے ایسے نشاں ملتا نہیں 

داور محشر قیامت ہے مری فریاد ہے 
لے گیا دل چھین کر اک دل ستاں ملتا نہیں 

تجھ سے ملنے کا بتا پھر کون سا دن آئے گا
عید کو بھی مجھ سے گر اے میری جاں ملتا نہیں 

اس بت‌ نا مہرباں سے پھر ملا دے ایک بار 
یا الٰہی کوئی ایسا مہرباں ملتا نہیں 

ملتا جلتا رہتا ہے وہ عام سے اور مجھ سے خاص 
ہاں میں ہاں ملتی نہیں جب تک نہاں ملتا نہیں 

بیل میں بوٹے میں پھل میں پتیوں میں پھول میں 
ہر چمن میں اس کا مظہر ہے کہاں ملتا نہیں 

سانس کے چابک کی زد نے دم میں پہنچایا عدم 
کچھ سراغ توسن عمر رواں ملتا نہیں 

جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب 
تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں 

کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن 
غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں 

کس سے پوچھوں شہر خاموشاں میں سب خاموش ہیں 
خاک ملتی ہے سراغ رفتگاں ملتا نہیں 

کیا بتائیں کیا سنائیں کیا پڑھیں اکبرؔ غزل 
کوئی دنیا میں سخن کا قدرداں ملتا نہیں

اکبر وارثی میرٹھی


 

شمیم انجم وراثی

یوم پیدائش 20 مئی 1966

احباب ملے ابنِ شریف ابنِ شریف
فطرت سے مگر ابنِ حریف ابنِ حریف
چہرے پہ نظر آئے نمائش کے خلوص
دل ان کا مگر بغض و ریا سے ہے کثیف

شمیم انجم وراثی


 

زاہد وارثی

یوم پیدائش 20 مئی 1965

قیادت کے لئے خنجر بکف ہے
یہ ظالم قوم کتنی ناخلف ہے

چرا کر لے گیا وہ گوہرِ غم
مرا سینہ ہے یا خالی صدف ہے

مجھے لہجے پرکھنے کی ہے عادت
اسے چہرے بدلنے کا شغف ہے

وبا کے خوف سے سہمے ہوئے گھر
تماشہ موت کا چاروں طرف ہے

سخن کے عرش کا روشن ستارہ
کہاں میں ہوں شکیل ابنِ شرف ہے

 وہی محفل، وہی آداب زاہد
مگر اس بار بھی مجھ پر ہدف ہے

زاہد وارثی 


 

صابر چودھری

یوم پیدائش 20 مئی 1982

ترے خلاف ہو جو بھی وہ کامیاب نہ ہو
خدا کرے تجھے الفت میں اضطراب نہ ہو

مرے ادھار سے خائف ہے، تُو بھی پینے لگے
جہاں جہاں بھی تُو ڈھونڈے وہاں شراب نہ ہو

مرے خدا ترے بندے نے کچھ نہیں پایا
جو اب دکھایا ہے تُو نے وہ صرف خواب نہ ہو 

خدا کرے کہ نئی نسل شعر کہنے لگے
خدا کرے کہ نئی نسل یہ خراب نہ ہو 

میں تھک گیا ہوں کمینوں کی خیر خواہی میں
میں ایسے کام کروں گا کہ اب ثواب نہ ہو

میں رات خواب میں کچھ ڈھونڈتا رہا صابر
 سبھی ہوں پھول میسر مگر گلاب نہ ہو

صابر چودھری


 

مینا نقوی

یوم پیدائش 20 نومبر 1955

خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر 
اندھیرے تلملا اٹھے چراغ کی مجال پر 

یہ چاہتوں کا درد ہے یہ قربتوں کا حشر ہے 
جو دھوپ چھپ کے روئی آفتاب کے زوال پر 

یہ جان کر کہ چاند میرے گھر میں جگمگائے گا 
ستارے آج شام سے ہی آ گئے کمال پر 

نظر میں زندگی کی پھول معتبر نہ ہو سکے 
خزاں کو اعتراض تھا بہار سے وصال پر 

خبر یہ دیر سے اڑی کہ موت سے مفر نہیں 
پرند جب اتر چکے شکاریوں کے جال پر 

زمانہ جس کی زندگی میں قدر کچھ نہ کر سکا 
اب آسمان رو رہا ہے اس کے انتقال پر 

کہاں وہ میناؔ چاہتوں کی شدتوں کا سلسلہ 
کہاں یہ بے نیازیاں ہمارے عرض حال پر

مینا نقوی


 

نعیم الدین فضا

یوم پیدائش 19 مئی 1940

ہم نہ کہتے تھے کہ عہدِ زر کا یہ قحطِ نظر
امتیازِ منظرِ شام و سحر لے جائے گا

نعیم الدین فضا



تبسم اخلاق

یوم پیدائش 19 مئی 1964

گومگو میں، اگر مگر میں ہیں
ہم ابھی دست کوزہ گر میں ہیں
 
کوچ کر جائیں یا ٹھہر جائیں
ہم گرفتار دل اثر میں ہیں
 
معتبر ہیں. نظر. میں . دنیا کی
جب تلک ہم تیری نظر میں ہیں
 
اور لوگوں میں کیا بیان کریں
مسئلے جو ہمارے گھر میں ہیں
 
اس سے کہہ دو کہ انتظار کرے
ہم ابھی حالت سفر میں ہیں

تبسم اخلاق


 #

شارق ریاض

یوم پیدائش 19 مئی 1989

سب کی نظروں میں مجھے تو معتبر اس نے کیا
ذکر میرا ہر غزل میں جان کر اس نے کیا

مدتوں وہ مجھکو اپنا ہم سفر کہتا رہا
چلتے چلتے راہ میں پھر در بدر اس نے کیا

وہ تو سازش رچ رہا تھا اور میں تھا بے خبر
پھر بھی میرے ساتھ میں پورا سفر اس نے کیا

رہ گزار عشق میں جب جب ہوئی رسوائیاں
مجھ سے الفت کا فسانہ مختصر اس نے کیا

آنکھ سے آنسُو ٹپک کر گر پڑے رخسار پر
 شام کو پھر یاد جاناں میں سحر اس نے کیا

پھول خوشبو چاند تارے استعارے ہیں مگر
ان سبھی لفظوں کو میرے نام پر اس نے کیا

دل کی جب سونی حویلی میں صدا گونجی کہیں
ذکر تنہائی میں ان کا رات بھر اس نے کیا

ایک دن شارق تری منزل قریب آ جائے گی
تجھکو بھی کرنا پڑے گا جو سفر اس نے کیا

شارق ریاض



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...