Urdu Deccan

Thursday, May 26, 2022

حفیظ بنارسی

یوم پیدائش 20 مئی 1933

کچھ سوچ کے پروانہ محفل میں جلا ہوگا 
شاید اسی مرنے میں جینے کا مزا ہوگا 

ہر سعی تبسم پر آنسو نکل آئے ہیں
انجام طرب کوشی کیا جانئے کیا ہوگا 

گمراہ محبت ہوں پوچھو نہ مری منزل 
ہر نقش قدم میرا منزل کا پتا ہوگا 

کیا تیرا مداوا ہو درد شب تنہائی 
چپ رہئے تو بربادی کہئے تو گلا ہوگا 

کترا کے تو جاتے ہو دیوانے کے رستے سے 
دیوانہ لپٹ جائے قدموں سے تو کیا ہوگا 

میخانے سے مسجد تک ملتے ہیں نقوش پا 
یا شیخ گئے ہوں گے یا رند گیا ہوگا 

فرزانوں کا کیا کہنا ہر بات پہ لڑتے ہیں 
دیوانے سے دیوانہ شاید ہی لڑا ہوگا 

رندوں کو حفیظؔ اتنا سمجھا دے کوئی جا کر 
آپس میں لڑو گے تم واعظ کا بھلا ہوگا

حفیظ بنارسی


 

امتیاز خان

یوم پیدائش 20 مئی 1989

وہ تبسم تھا جہاں شاید وہیں پر رہ گیا
میری آنکھوں کا ہر اک منظر کہیں پر رہ گیا 

میں تو ہو کر آ گیا آزاد اس کی قید سے 
دل مگر اس جلد بازی میں وہیں پر رہ گیا 

کون سجدوں میں نہاں ہے جو مجھے دکھتا نہیں 
کس کے بوسہ کا نشاں میری جبیں پر رہ گیا 

ہم لبوں کو کھول ہی کب پائے اس کے سامنے 
اک نیا الزام پھر دیکھو ہمیں پر رہ گیا

امتیاز خان


 

روبینہ شبنم

یوم پیدائش 18 مئی 1971

دیار عشق میں روشن دماغ تھے ہم بھی 
وہ خوش نظر تھا بہت سبز باغ تھے ہم بھی 

ہر ایک رشتہ تھا منکر ہماری ہستی سے 
نگار زیست کے دامن کا داغ تھے ہم بھی 

خزاں کا دور بھی ہوتا تو فصل گل ہوتی 
کسی کے فیض نظر سے وہ باغ تھے ہم بھی 

یہ اور بات ہمیں آج تم نہ پہچانو 
تمہاری بزم کا روشن چراغ تھے ہم بھی 

مزاج ہی نہیں ملتا تو دوستی کیسی 
وہ تند خو تھا بہت بد دماغ تھے ہم بھی 

کہیں پہ چاند کہیں آئنہ کہیں گل تھے 
یہ تم سے کس نے کہا ہے ایاغ تھے ہم بھی 

وہ ہم کو ڈھونڈ بھی لیتا تو کیا برا ہوتا 
کہ اس کی ذات کے شبنمؔ سراغ تھے ہم بھی

روبینہ شبنم



Wednesday, May 25, 2022

رفیعہ نوشین

یوم پیدائش 22 مئی 1967

خون دل کا پی رہی ہے
شاعری میں تازگی ہے

کس کے روکے سے رکی ہے؟
عمر تو بہتی ندی ہے!

چار دن کی چاندنی ہے
یہ بھی کوئی زندگی ہے؟

کون سا موسم ہے مجھ میں؟
تشنگی ہی تشنگی ہے!

رات کے آنسو ہیں شاید
صبح جو بھیگی ہوئی ہے

ذہن میں وہ آگئے ہیں
فکر روشن ہوگئی ہے

دل میں نوشین آرزو پھر
پاؤں پھیلانے لگی ہے

رفیعہ نوشین


 

آدی عباسی

یوم پیدائش 22 مئی 2000

ہم ترے شہر میں آئے تھے بڑے مان کے ساتھ
یوں نہیں کرتے جو تو نے کیا مہمان کے ساتھ

جس سے ملنے کے لیے رب سے دعائیں کی تھیں
یوں مِلا جیسے مِلا ہو کسی انجان کے ساتھ

عزتِ نفس نہ ماریں گے گنوا دیں گے تجھے
ہجر ہی کاٹنا تو کاٹیں گے پھر شان کے ساتھ

ایک شاعر کی محبت ہو اور جب تک ہو
ہوگی پہچان تمہاری میری پہچان کے ساتھ

عشق میں شرک کبھی بھی نہ کریں گے جانم
ہم مسلمان بھی کہلاتے ہیں انسان کے ساتھ

لاکھوں کی دنیا میں اِک شخص کو چاہا نہ مِلا
عمر بھر جینا پڑے گا اِسی ارمان کے ساتھ

عشق کرنے سے تو بہتر تھا تجارت کرتے
کچھ منافع بھی تو ہوتا ہمیں نقصان کے ساتھ

اب مجازی سے حقیقت کا سفر ہے آدی
شکریہ تم نے مِلایا مجھے رحمان کے ساتھ

آدی عباسی


 

نیاز جیراجپوری

یوم پیدائش 21 مارچ 1960

سوچ لو پھر نسل آئندہ کا کیا ہوگا نیاز
مر گئی اردو تو پھر تہذیب بھی مر جائے گی

 نیاز جیراجپوری



عرفان عارف

یوم پیدائش 21 مئی 1978

ستمگر کے ستم سہیے کسے کیا فرق پڑتاہے
اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

اسے تو نام پہ مذہب کے بس کرنی سیاست ہے
کسی کوبھی خدا کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

لٹا کے گھر کی عصمت کو چھپا کے اپنے چہروں کو
جھکائے سر کھڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

صحافت آج بے شرمی کا چولا اوڑھ بیٹھی ہے
جو جی میں آئے وہ کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

سیاست سے عدالت تک یہاں سارے ہی بہرے ہیں
مسلسل چیختے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

حمایت کرنے اٹھے ہیں غریبوں کی کسانوں کی
میاں عرفان چُپ رہیے کسے کیا فرق پرتا ہے

عرفان عارف


 

فیصل قادری گنوری

یوم پیدائش 21 مئی 1995

اُن سے شکوہ شکایت نہیں آج کل
جِن کو ملنے کی چاہت نہیں آج کل

یاد تواُن کی دل میں بسائےہوں میں
کیا ہوا ہے جو قربت نہیں آج کل

کیا سبب یے جو بے چین رہنے لگا
کیوں مرے دل کو راحت نہیں آج کل

کتنی مصروف رہتی ہے تُو زندگی
”خالی رہنے سے فرصت نہیں آج کل“

جو تھے کل تک مرے ساتھ ہر دم اُنھیں
ایک لمحے کی مہلت نہیں آج کل

اُن کےحالات ہم سے نہ پوچھے کوئی
ہوتی محفل میں شرکت نہیں آج کل

کام ہوگا تو فیصل وہ آ جائیں گے
اُن کو تیری ضرورت نہیں آج کل

فیصل قادری گنوری


 

صبغہ احمد

یوم پیدائش 21 مئی

کہیں نہ جی لگے ، ہم کیا کریں کدھر جائیں
ہمیں نہ دشت نہ گلشن نہ انجمن بھائیں 

کہ بحرِعشق میں ملتا ہے لطفِ جان کنی
یہاں پہ تیرنے والے بھی ڈوبتے جائیں

یہ میرا دل ہے، یہ کوئی سرائے تو نہیں ہے 
ہوئی ہے آپ کو وحشت تو دشت کو جائیں 

خدا کرے وہ سدا اب رہیں رقیب نواز 
نہ میرا حال وہ پوچھیں ، نہ میرا غم کھائیں

صبغہ احمد


 

اکبر وارثی میرٹھی

یوم وفات 20 مئی 1953

راز دل کس کو سنائیں راز داں ملتا نہیں 
جان جاتی ہے غضب ہے جان جاں ملتا نہیں 

جس مکاں میں تو مکیں ہے وہ مکاں ملتا نہیں 
جستجو میں گم ہوئے ایسے نشاں ملتا نہیں 

داور محشر قیامت ہے مری فریاد ہے 
لے گیا دل چھین کر اک دل ستاں ملتا نہیں 

تجھ سے ملنے کا بتا پھر کون سا دن آئے گا
عید کو بھی مجھ سے گر اے میری جاں ملتا نہیں 

اس بت‌ نا مہرباں سے پھر ملا دے ایک بار 
یا الٰہی کوئی ایسا مہرباں ملتا نہیں 

ملتا جلتا رہتا ہے وہ عام سے اور مجھ سے خاص 
ہاں میں ہاں ملتی نہیں جب تک نہاں ملتا نہیں 

بیل میں بوٹے میں پھل میں پتیوں میں پھول میں 
ہر چمن میں اس کا مظہر ہے کہاں ملتا نہیں 

سانس کے چابک کی زد نے دم میں پہنچایا عدم 
کچھ سراغ توسن عمر رواں ملتا نہیں 

جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب 
تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں 

کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن 
غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں 

کس سے پوچھوں شہر خاموشاں میں سب خاموش ہیں 
خاک ملتی ہے سراغ رفتگاں ملتا نہیں 

کیا بتائیں کیا سنائیں کیا پڑھیں اکبرؔ غزل 
کوئی دنیا میں سخن کا قدرداں ملتا نہیں

اکبر وارثی میرٹھی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...