Urdu Deccan

Monday, May 30, 2022

گل بخشالوی

یوم پیدائش 30 مئی 1952

قلم ، صدا و قدم جب بھی تو اٹھائے گا
نظام جبر ترا خون ہی بہائے گا

ہمیں امید تھی آئے گی کوئی تبدیلی
خبر نہیں تھی ہمیں تو بھی گل کھلائے گا

کبھی یہ سوچنا اس دور خود پرستی میں
ترے ضمیر کو آکر کوئی جگائے گا

دبی ہے راکھ میں معصوم سی جو چنگاری
بھڑک اٹھی تو کوئی بھی بجھا نہ پائے گا

مرا وجود ہے سیسہ مرے عقیدے کا
میں دیکھتا ہوں کہاں تک تو آزمائے گا

نہا رہا ہے جن آنکھوں میں دیس کو اپنے
لہو میں دیکھنا اپنے بھی تو نہائے گا

نظام وقت کے کم بخت جابر و ظالم
کھبی نہ سوچنا گل تیرے گیت گائے گا

گل بخشالوی



وکیل اختر

یوم پیدائش 30 مئی 1936

زندگی دست تہہ سنگ رہی ہے برسوں
یہ زمیں ہم پہ بہت تنگ رہی ہے برسوں

تم کو پانے کے لیے تم کو بھلانے کے لیے
دل میں اور عقل میں اک جنگ رہی ہے برسوں

اپنے ہونٹوں کی دہکتی ہوئی سرخی بھر دو
داستاں عشق کی بے رنگ رہی ہے برسوں

دل نے اک چشم زدن میں ہی کیا ہے وہ کام
جس پہ دنیائے خرد دنگ رہی ہے برسوں

کس کو معلوم نہیں وقت کے دل کی دھڑکن
میری ہم راز و ہم آہنگ رہی ہے برسوں

صاف تاریخ یہ کہتی ہے کہ منصوری سے
مضمحل سطوت اورنگ رہی ہے برسوں

میری ہی آبلہ پائی کی بدولت اخترؔ
رہگزر ان کی شفق رنگ رہی ہے برسوں

وکیل اختر



ناصر معین

یوم پیدائش 29 مئی 1961

اک مسخرہ سا بن کے زمانے میں رہ گئے  
تا عمر ہم تو ہنسنے ہنسانے میں رہ گئے

پانی ہمارے سر سے بھی اوپر نکل گیا  
ہم ہیں کہ بس قیاس لگانے میں رہ گئے
 
 دشمن ہمارا آگیا دہلیز کے قریب
ہم دوستوں کو شعر سنانے میں رہ گئے

 بھائی کے گھر میں چولہا بھی جلنا محال تھا
ہم تھے کہ گھر کو اپنے سجانے میں رہ گئے  

مطلب پرست تھا ہمیں دیتا رہا فریب 
ہم دوستی کو اپنی نبھانے میں رہ گئے 

اک گھر بنا کے ٹوٹ گئے تھے ہم اسقدر
 باقی تو عمر قرض چکانے میں رہ گئے  

 ظلم و ستم کا سلسلہ ہوتا رہا دراز
ہم صرف اپنی جان بچانے میں رہ گئے    

آنسو بہا رہے ہیں کہ وہ دور اب نہیں
ہم زلف جان جاں کے سجانے میں رہ گئے  

دیدار باپ ماں کا نہیں ہو سکا نصیب
ہم تو عرب میں پیسہ کمانے میں رہ گئے 

خستہ ہے سب کا حال ، سبھی حاشیے پہ ہیں
  دیوارِ مسلکی ہم اٹھانے میں رہ گئے  

اب تخت و تاج اپنی حکومت نہیں رہی
ہم فاختہ حضور اڑانے میں رہ گئے 

خود اتنا گرگئے ہمیں اسکا گماں نہ تھا
نیچا ہمیشہ انکو گرانے میں رہ گئے 

بڑھتا گیا ہجوم غموں کا اف ! اس قدر
جھوٹی ہنسی لبوں پہ دکھانے میں رہ گئے 

رخصت ہوئی جوانی ، ضعیفی کب آگئی 
ہم زندگی کا بوجھ اٹھانے میں رہ گئے   

اعمال نامے اپنے گناہوں سے پر رہے 
ہم دوسروں کے عیب گنانے میں رہ گئے

ناصر ! وہ پست حوصلہ کرتا رہا سدا
 ہم خود کو باوفا ہی دکھانے میں رہ گئے

ناصر معین



منشی امیر اللہ تسلیم

یوم پیدائش 28 مئی 1911

پارسائی ان کی جب یاد آئے گی 
مجھ سے میری آرزو شرمائے گی 

گر یہی ہے پاس آداب سکوت 
کس طرح فریاد لب تک آئے گی 

یہ تو مانا دیکھ آئیں کوئے یار 
پھر تمنا اور کچھ فرمائے گی 

جانے دے صبر و قرار و ہوش کو 
تو کہاں اے بے قراری جائے گی 

ہجر کی شب گر یہی ہے اضطراب 
نیند اے تسلیمؔ کیوں کر آئے گی

منشی امیر اللہ تسلیم


 

Sunday, May 29, 2022

عالم مظفر نگری

یوم وفات 20 مئی 1969

جو ہیں رند ازل گلشن کو مے خانہ سمجھتے ہیں 
کلی کو شیشۂ مے گل کو پیمانہ سمجھتے ہیں
 
حقیقت آشنائے گلستاں فصل بہاراں میں 
ہجوم رنگ و بو کو برق کاشانہ سمجھتے ہیں
 
کسی دن جس کے شعلے خرمن ہستی کو پھونکیں گے 
اسی بجلی کو ہم شمع طرب خانہ سمجھتے ہیں 

نگاہیں ڈالتے ہیں مرکز وحدت سے کثرت پر 
حرم میں رہ کے ہم راز صنم خانہ سمجھتے ہیں 

چھپا لیتے ہیں ہر زخم جگر کو فصل گل میں بھی 
چمن میں پھول منشائے غم پنہاں سمجھتے ہیں 

علمؔ ربط دل و پیکاں اب اس عالم کو پہنچا ہے 
کہ ہم پیکاں کو دل دل کو کبھی پیکاں سمجھتے ہیں 

عالم مظفر نگری


 

اسماء ہادیہ

یوم پیدائش 28 مئی 1994

چوکھٹ پہ تیری لطف صدا کا خرید کر
صدیاں خرید لی ہیں یہ لمحہ خرید کر

اس بے وفا سے پیار کی قیمت نہ لگ سکی
لاے گا میرے واسطے دنیا خرید کر

شہرِ ہنر سے خود ہی بڑی شدتوں سے ہم
لے آے آنسووں کا یہ دریا خرید کر

جب دل ہی بجھ گیا ہو یہ ہجراں کے درد سے
میں کیا کروں گی رونقِ چہرہ خرید کر

یوسف سے آفتاب کو انجامِ عشق میں
زنداں میں ڈال دے گی زلیخا خرید کر

خوش تھے جو روشنی کے تماشے کو دیکھ دیکھ
شرمندہ کس قدر ہیں اندھیرا خرید کر

سب کچھ ھی بیچ ڈالا ہے اس کارِ زیست میں
اور شادماں ہوں شہرِ تمنا خرید کر

اسماء ہادیہ


 

سید نظر علی عدیل

یوم پیدائش 28 مئی 1928

آج رندوں کو ہے غم کس کے بچھڑ جانے کا
منہ پھرالیتے ہیں منہ دیکھ کے پیمانے کا

دعویٰ خوں ہے غلط شمع پہ پروانے کا
خود اسے شوق ہے جلتے ہوئے مرجانے کا

داخلہ ٹھیک نہیں بزم میں دیوانے کا
کہیں اس پر کوئی سایہ نہ ہو ویرانے کا

مصر نے پائی ہے اک اندھے کنویں سے شہرت
ہائے اک شہر پہ احسان ہے ویرانے کا

شہر میں ہر کوئی بیگانہ نظر آتا ہے
گاؤں میں وہم وگماں تک نہیں بیگانے کا

کچھ تو موسی کو بھی حسرت بھی نظربازی کی
اور کچھ شوق تھا اس کو بھی نظر آنے کا

زلف و رخسار کہاں اور شب و روز کہاں
کچھ محل ہی نہ تھا قرآں میں قسم کھانے کا

گل نے کیوں پائی سزا چاک گریبانی کی
کیا اڑایا تھا مذاق آپ کے دیوانے کا

شیخ آئے نہ کہیں بھیس بدل کر رندو
راستہ پوچھ رہا تھا کوئی میخانے کا

کہیے دشمن سے ذرا وار سلیقے سے کرے
کہیں ٹوٹے نہ بھرم آپ کے یارانے کا

پہلے وہ مشق کریں چہرہ بدلنے کی عدیل
ورنہ اندیشہ ہے پہچان لئے جانے کا

سید نظر علی عدیل


 

انورشمیم

یوم پیدائش 28 مئی 1952

مگر کون ہوں میں ____ !!
                                                                     
کبھی بخت سے یہ سعادت ہو حاصل
کہ آنکھیں جڑائیں
دل و دیدہ قسمت جگائیں
سماعت میں چڑیوں کی چہکار اترے
فضاؤں سے رنگوں کی بارات اترے
دھنک رنگ بارش کی سوغات اترے

کسی شامیانے میں بیٹھوں
نہایا ہوا نور کرنوں سے لوٹوں
بدن قصر ویراں کی خلوت سرا میں
جہاں سارے اجزاۓ ترکیبی بکھرے پڑے ہیں
کسی کیمیا سے
کسی لمسِ قُم سے سمٹنے کی ترکیب نکلے
مگر
پتلیاں زرد چادر ڈھکی ہیں
کوئ سبز پانی کو ہانکے لیے جا رہا ہے
کسی تیرہ تاریک روزن
کسی رود اسود کی جانب
کوئ معجزہ ہو
حریری ردا پوش جنگل کے فرش جناں پر
کبھی رقص طاؤس صورت
مجسّم ہو تصویر جاناں
کبھی ہو زیارت
کہ میں ہوں ___ !
مگر کون ہوں میں ___ !!
                                                                     
 انورشمیم



Thursday, May 26, 2022

نوید مرزا

یوم پیدائش 26 مئی 1968

جب کبھی اپنا گھر بناؤں گا
میں تجھے ہم سفر بناؤں گا

اے خدا بخش دے اڑان مجھے
میں کہاں بال و پر بناؤں گا

پنچھیوں سے مکالمہ کر کے
اپنے گھر میں شجر بناؤں گا

اپنے پیکر سے تنگ رہتا ہوں
میں اسے توڑ کر بناؤں گا

ایک تصویر ہوں مصور کی
نقش ہی عمر بھر بناؤں گا

سائباں کی تلاش کرتے ہوئے
دھوپ کی رہگزر بناؤں گا

ایک درویش مجھ سے کہتا ہے
میں تجھے معتبر بناؤں گا

تشنگی نے مجھے پکارا ہے
میں بھی اب چشم تر بناؤں گا

ایک میدان میں ہوں مدت سے
اب میں دیوار و در بناؤں گا

ایک تصویر ہے خیالوں میں
اب اسے سوچ کر بناؤں گا

پیڑ تو سوکھ ہی چکا ہے نوید
میں کہاں اب ثمر بناؤں گا

ایک تازہ غزل کہی ہے نوید
میں اسے پر اثر بناؤں گا

نوید مرزا


 

گھائل اعظمی

یوم پیدائش 25 مئی 1947

شعلوں نے بھیس بدلا ہے اب کے بہار میں
ممکن اگر ہو پھول سے دامن بچایئے

گھائل اعظمی 


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...