Urdu Deccan

Saturday, June 25, 2022

مبین احمد زخم

یوم پیدائش 10 جون 1974

کالی رات اور اجلا چاند
 تنہا میں اور تنہا چاند

 کس نے دیکھا ایسا چاند
 زلف گھٹا اور چہرہ چاند

 وہ تو صرف ایک جگنو تھا 
جس کو میں نے سمجھا چاند

 مبین احمد زخم

 


عاجز ہنگن گھاٹی

یوم پیدائش 10 جون 1936

زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا 
بے سمت صداؤں کی رفعت کا گماں لے جا 

احساس بصیرت میں عبرت کا سماں لے جا 
اجڑی ہوئی بستی سے بنیاد مکاں لے جا 

شہروں کی فضاؤں میں لاشوں کا تعفن ہے 
جنگل کی ہوا آ جا جسموں کا دھواں لے جا 

ہے اور ابھی باقی تاریک سفر شب کا 
اگنے دے نیا سورج پھر چاہے جہاں لے جا 

جلتی ہوئی راتوں کا بجھتا ہوا منظر ہوں 
گھر آ کے کبھی عاجزؔ مجھ سے یہ سماں لے جا

عاجز ہنگن گھاٹی



نورا شرفی

یوم پیدائش 10 جون 1963

تم کو جواب دیں گے نہ تیر و کماں سے ہم
خنجر سے تم لڑوگے تو طرزِ بیاں سے ہم

جائیں کہاں نکل کے اب اس گلستاں سے ہم
مر کر بھی جاسکیں گے نہ ہندوستاں سے ہم

پھیلاؤ مت ہوا میں سیاست کی گندگی
رہنے نہ پائیں گے کبھی امن واماں سے ہم

جس باغ سے چبھن ملے قدموں کو آپ کے
کانٹے نکال ڈالیں گے اس گلستاں سے ہم

ہم بھی اسی زمین پہ پیدا ہوئے ہیں دوست
بادل کی طرح برسے نہیں آسماں سے ہم

اپنے گناہ دھونے کو دریا بھی کم پڑے
چشمہ بہائیں خون کا چشمِ رواں سے ہم

اردو کے دم سے آئی ہے تہذیب پر بہار
پھر کیسے منہ کو پھیر لیں اردو زباں سے ہم

گفتار گر حسیں ہو میاں نور اشرفی
دل جیت لیں گے شہر کا طرزِ بیاں سے ہم

نورا شرفی


 

سید نوید جعفری

یوم پیدائش 10 جون 1968

اشک ہر وقت میرا ساتھ نبھانے نکلے
 جب خوشی آئی تو خوشیوں کے بہانے نکلے
 
 جس نے نسلوں کی سیاہی کو اجالا بخشا
  چند شب زاد وہ سورج کو بجھانے نکلے
  
جستجو جس نے تیری عرفان دو عالم بخشا
ہم جسے ڈھونڈنے نکلے وہ سرہانے نکلے

شام سے ڈوبنے لگتا ہے جو دل تو ھم بھی
اپنے پیمانے سے خورشید اگانے نکلے

تیری الفت تیری حسرت تیری فرقت کا ملال
دل کھنڈر جب ھوا پوشیدہ خزانے نکلے

جن کو فرقت میں کبھی دیکھنے رکھ چھوڑا تھا
ان درازوں میں وہی خواب پرانے نکلے

شہر میں دشت میں گلشن میں تجھی کو پایا
اے غم یار تیرے کتنے ٹھکانے نکلے

چاند نکلا تو میں لوگوں سے لپٹ کر رویا
غم کے آنسو تھے جو خوشیوں کے بہانے نکلے

رزق میں جن کے نہ محنت کا نہ برکت کا خمیر
رزق آشوب کئی ایسے گھرانے نکلے

لوگ آسان سمجھتے ہیں غزل خواں ہونا
ہجر جھیلا ہے تو الفت کے ترانے نکلے

یاد کس کی ہوئی ہے پاوں کی زنجیر نوید
قرض جاں عشق میں ہم جب بھی چکانے نکلے

 سید نوید جعفری



یوم پیدائش 10 جون 1956

تیری یادوں کے جگنو چمکنے لگے
 راستوں میں جہاں بھی اندھیرا ہوا
 
شاہد سیانوی



عابد ابدال

یوم پیدائش 09 جون 1986

آدمی ہے جو بھلا دیتا ہے
جو بھی ملتا ہے خدا دیتا ہے

ظلم وحشت کو جلا دیتا ہے
عدل ظلمت کو مٹا دیتا ہے

جب کوئی وقت گنوا دیتا ہے
وقت بھی اس کو بھلا دیتا ہے

ترا ہر وقت پریشاں ہونا
مری بے چینی بڑھا دیتا ہے

 تیرا چلمن سے مسلسل تکنا
 مجھ کو دیوانہ بنا دیتا ہے
 
واں بھی رسوا نہیں ہونے دے گا
جو یہاں عیب چھپا دیتا ہے

گویا اس دنیا کا ذرہ ذرہ
ترے ہونے کا پتا دیتا ہے 

عابد ابدال


 

نشتر امروہوی

یوم پیدائش 09 جون 1957

ایک دن مجھ سے یہ فرمانے لگی بیوی مری 
میری سوتن بن گئی ہے آپ کی یہ شاعری 

وہ یہ کہہ کر مجھ سے کرتی ہے ہمیشہ احتجاج 
شاعری سے آپ کی ہوتا ہے مجھ کو اختلاج 

سوچتی ہوں کس طرح ہوگا ہمارا اب نباہ 
مجھ کو روٹی چاہئے اور آپ کو بس واہ واہ 

مجھ کو رہتی ہے سدا بچوں کے مستقبل کی دھن 
آپ بیٹھے کر رہے ہیں فاعلاتن فاعلن 

رات کافی ہو چکی ہے نیند میں بچے ہیں دھت 
آپ یوں ساکت ہوئے بیٹھے ہیں جیسے کوئی بت 

میں یہ کہتی ہوں چکا دیجے جو پچھلا قرض ہے 
آپ اپنی دھن میں کہتے ہیں کہ مطلع عرض ہے 

میں یہ کہتی ہوں کہ دیکھا کیجئے موقع محل 
چھیڑ دیتے ہیں کہیں بھی غیر مطبوعہ غزل 

مان لیتی ہوں میں چلئے آپ ہیں شاعر گریٹ 
شاعری سے بھر نہیں سکتا مگر بچوں کا پیٹ 

اپنے ہندستان میں مردہ پرستی عام ہے 
جتنے شاعر مر چکے ہیں بس انہیں کا نام ہے 

جب تلک زندہ رہے پیسے نہ تھے کرنے کو خرچ 
مر گئے تو ہو رہی ہے مرزا غالبؔ پر ریسرچ 

میں یہ بولا بند کر اپنا یہ بے ہودہ کلام 
تجھ کو کیا معلوم کیا ہے ایک شاعر کا مقام 

جھوٹ ہے شامل تصنع ہے نہ کچھ اس میں دروغ 
شاعری سے پا رہی ہے آج بھی اردو فروغ 

ہوں ثنا خواں میں فگارؔ و ساغرؔ و شہبازؔ کا 
رخ بدل ڈالا جنہوں نے شعر کے پرواز کا

نشتر امروہوی



Wednesday, June 8, 2022

صفدر حسین

یوم پیدائش 08 جون 1967

زبان رکھتے ہیں لیکن خلاف حق تلفی
سوال یہ ہے کہ چیخ و پکار کون کرے

صفدر حسین


 

کیف عظیم آبادی

یوم پیدائش 08 جون 1937

نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لیے 
میں جاگتا ہوں نگاہوں میں تیرے خواب لیے 

ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا یارو 
وہ جی رہے ہیں مگر ریت کا سراب لیے 

میں بھول سکتا نہیں حسرت نظر اس کی 
وہ ایک شخص جو گزرا ہے اضطراب لیے 

اداس رات کی تاریکیوں نے چھیڑا ہے 
اب آ بھی جاؤ نگاہوں میں ماہتاب لیے 

یہ چلچلاتی ہوئی دھوپ جل رہا ہے بدن 
گزر رہی ہے یوں ہی حسرت سحاب لیے

کیف عظیم آبادی


 

نسیم بیگم نسیم

یوم پیدائش 08 جون 1961

برسوں وفا کے نام پہ ان سے جڑے رہے 
جھوٹے تھے اعتبار کے جو سلسلے رہے

مجھکو پکارتی ہی رہی میری زندگی 
جب تیرے غم کی دھوپ میں سائے ڈھلے رہے

یادوں کے سارے عکس بکھر کر فنا ہوئے 
ٹوٹے ہوئے خیال کے جب آئینے رہے

ہم وہ ہیں جن کو خوف اندھیروں کا بھی نہیں 
طوفان میں چراغ جلا کر کھڑے رہے

بس تیرے آس پاس ہی دنیا رہی مری 
یوں طائر خیال کے بھی پر کٹے رہے 

  نسیم بیگم نسیم


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...