ہمارے نام کا سکہ جہاں جاری رہا برسوں
Urdu Deccan
Saturday, June 25, 2022
عبید اللہ علیم
یوم پیدائش 12جون 1939
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
زہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے
میں وہ چراغ سر رہ گزار دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے
ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے
مہتاب اعظمی
یوم پیدائش 11جون
یہ ہی رہتا ہےاب ملال مجھے
تیرا آتا نہیں خیال مجھے
زخمِ دوراں سے اب نڈھال ہوں میں
درد ہجراں ، کہ اب سنبھال مجھے
اس کے عہد شکن کا ذکر ہی کیا
خود سے کرنا ہے کچھ سوال مجھے
خود قفس ہےیہ میری تنہائی
کر لیا جس نے یر غمال مجھے
اب مجھے وقت کی نہیں پرواہ
یادرکھتے ہیں ماہ و سال مجھے
عشق میں معجزوں سے گزرا ہوں
کیوں کہ ہونا تھا با کمال مجھے
خود سے مہتاب آج مل پایا
خود سے کرنا ہے عرض حال مجھے
مہتاب اعظمی
ندیم نادم
یوم پیدائش 11 جون 1994
سر اٹھانے کی تو ہمت نہیں کرنے والے
یہ جو مردہ ہیں بغاوت نہیں کرنے والے
مفلسی لاکھ سہی ہم میں وہ خودداری ہے
حاکم وقت کی خدمت نہیں کرنے والے
ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
ہاتھ آندھی سے ملا آئے اسی دور کے لوگ
یہ چراغوں کی حفاظت نہیں کرنے والے
عشق ہم کو یہ نبھانا ہے تو جو رکھ شرطیں
ہم کسی شرط پہ حجت نہیں کرنے والے
پھوڑ کر سر ترے در پر یہیں مر جائیں گے
ہم ترے شہر سے ہجرت نہیں کرنے والے
ریاض حازم
یوم پیدائش 11 جون
جو بھی انجام سے ڈر گئے مر گئے
ڈر کے زندہ رہے کیا رہے ؟ مر گئے
ایسے حالات پیدا ہوئے مر گئے
عشق سے جتنا پیچھے ہٹے مر گئے
ہم دکھوں کے اثاثے چھپائے ہوئے
عشق دل خواب آنکھیں لئے مر گئے
شہر کی ساری بدیاں فنا ہو گئیں
یہ بھی اچھا ہوا ہم برے مر گئے
رو کے دنیا سے کیا لینا کیا دینا تھا
کیا یہ بہتر نہیں چپ کئے مر گئے
ریاض حازم
ثناء اللہ ظہیر
یوم وفات 10 جون 2022
خود میں اترے اور طغیانی سے باہر آ گئے
آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے
اس کی رونق میں بہت سنسان سے لگتے تھے ہم
شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے
لفظ وہ جن کو زباں تک لانے کی ہمت نہ تھی
آخر اک دن میری پیشانی سے باہر آ گئے
دم بخود اس حسن کو ہی دیکھتے رہتے تھے ہم
یوں برت ٹوٹا کہ حیرانی سے باہر آ گئے
آستیں میں پل رہے تھے لیکن اک دن یوں ہوا
سانپ آپس کی پریشانی سے باہر آ گئے
وہ تعلق ہم کو قید خواب جیسا تھا ظہیرؔ
کھل گئیں آنکھیں تو آسانی سے باہر آ گئے
مبین احمد زخم
یوم پیدائش 10 جون 1974
کالی رات اور اجلا چاند
تنہا میں اور تنہا چاند
کس نے دیکھا ایسا چاند
زلف گھٹا اور چہرہ چاند
وہ تو صرف ایک جگنو تھا
جس کو میں نے سمجھا چاند
عاجز ہنگن گھاٹی
یوم پیدائش 10 جون 1936
زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا
بے سمت صداؤں کی رفعت کا گماں لے جا
احساس بصیرت میں عبرت کا سماں لے جا
اجڑی ہوئی بستی سے بنیاد مکاں لے جا
شہروں کی فضاؤں میں لاشوں کا تعفن ہے
جنگل کی ہوا آ جا جسموں کا دھواں لے جا
ہے اور ابھی باقی تاریک سفر شب کا
اگنے دے نیا سورج پھر چاہے جہاں لے جا
جلتی ہوئی راتوں کا بجھتا ہوا منظر ہوں
گھر آ کے کبھی عاجزؔ مجھ سے یہ سماں لے جا
عاجز ہنگن گھاٹی
نورا شرفی
یوم پیدائش 10 جون 1963
تم کو جواب دیں گے نہ تیر و کماں سے ہم
خنجر سے تم لڑوگے تو طرزِ بیاں سے ہم
جائیں کہاں نکل کے اب اس گلستاں سے ہم
مر کر بھی جاسکیں گے نہ ہندوستاں سے ہم
پھیلاؤ مت ہوا میں سیاست کی گندگی
رہنے نہ پائیں گے کبھی امن واماں سے ہم
جس باغ سے چبھن ملے قدموں کو آپ کے
کانٹے نکال ڈالیں گے اس گلستاں سے ہم
ہم بھی اسی زمین پہ پیدا ہوئے ہیں دوست
بادل کی طرح برسے نہیں آسماں سے ہم
اپنے گناہ دھونے کو دریا بھی کم پڑے
چشمہ بہائیں خون کا چشمِ رواں سے ہم
اردو کے دم سے آئی ہے تہذیب پر بہار
پھر کیسے منہ کو پھیر لیں اردو زباں سے ہم
گفتار گر حسیں ہو میاں نور اشرفی
دل جیت لیں گے شہر کا طرزِ بیاں سے ہم
سید نوید جعفری
یوم پیدائش 10 جون 1968
اشک ہر وقت میرا ساتھ نبھانے نکلے
جب خوشی آئی تو خوشیوں کے بہانے نکلے
جس نے نسلوں کی سیاہی کو اجالا بخشا
چند شب زاد وہ سورج کو بجھانے نکلے
جستجو جس نے تیری عرفان دو عالم بخشا
ہم جسے ڈھونڈنے نکلے وہ سرہانے نکلے
شام سے ڈوبنے لگتا ہے جو دل تو ھم بھی
اپنے پیمانے سے خورشید اگانے نکلے
تیری الفت تیری حسرت تیری فرقت کا ملال
دل کھنڈر جب ھوا پوشیدہ خزانے نکلے
جن کو فرقت میں کبھی دیکھنے رکھ چھوڑا تھا
ان درازوں میں وہی خواب پرانے نکلے
شہر میں دشت میں گلشن میں تجھی کو پایا
اے غم یار تیرے کتنے ٹھکانے نکلے
چاند نکلا تو میں لوگوں سے لپٹ کر رویا
غم کے آنسو تھے جو خوشیوں کے بہانے نکلے
رزق میں جن کے نہ محنت کا نہ برکت کا خمیر
رزق آشوب کئی ایسے گھرانے نکلے
لوگ آسان سمجھتے ہیں غزل خواں ہونا
ہجر جھیلا ہے تو الفت کے ترانے نکلے
یاد کس کی ہوئی ہے پاوں کی زنجیر نوید
قرض جاں عشق میں ہم جب بھی چکانے نکلے
Subscribe to:
Posts (Atom)
محمد دین تاثر
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...

-
یوم پیدائش 03 اکٹوبر 1948 اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں ...
-
قد بڑھانے کے بہانے کتنے دوست دشمن ہوئے جانے کتنے گُل ہوئی شمع تو معلوم ہوا ظلم ڈھائے ہیں ہوا نے کتنے کچھ تو ہو صرفِ حسابِ گُل بھی پھول برسائ...
-
یوم پیدائش 04 مارچ 1972 ہم وفا ڈھونڈ رہے ہیں اب تک دیکھ کیا؟ ڈھونڈ رہےہیں اب تک شہر میں موت بِکے ہے تیرے ہم قضا ڈھونڈ رہے ہیں اب تک اپنے ا...
-
یوم پیدائش 11 فروری 1927 چراغ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں نہ کوئی راہ گزر ہے نہ کوئی ویرانہ غم حیا...
-
یوم پیدائش 25 دسمبر 1952 مرے ثبوت بہے جارہے ہیں پانی میں کسے گواہ بناؤں سرائے فانی میں جو آنسوؤں میں نہاتے رہے سو پاک رہے نماز ورنہ کسے مل ...
-
بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ ...
-
یوم پیدائش 15 مارچ 1994 مانا اس کو گلہ نہیں مجھ سے کچھ تو ہے جو کہا نہیں مجھ سے حق نہیں دوستی کا ایسا کوئی جو کہ اس کو ملا نہیں مجھ سے ...
-
یوم پیدائش 03 فروری 1940 ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں کہ جن کے سائے...
-
یوم پیدائش 20 فروری 1917 تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے اس دن خدا...
-
یوم پیدائش 01 مئی 1954 آج کل ہوتا ہے رسوائی سے عزت کا ملاپ کاش ہو جاتا کبھی صورت سے سیرت کا ملاپ تیل میں پانی کبھی گھلتا نہیں ہے دوستو کیس...