Urdu Deccan

Saturday, June 25, 2022

احمد خیال

یوم پیدائش 13 جون 1979

کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں
خاک سے اٹھے ہیں سو خاک ہی ہونا ہے ہمیں

پھر تعلق کے بکھرنے کی شکایت کیسی
جب اسے کانچ کے دھاگوں میں پرونا ہے ہمیں

انگلیوں کی سبھی پوروں سے لہو رستا ہے
اپنے دامن کے یہ کس داغ کو دھونا ہے ہمیں

پھر اتر آئے ہیں پلکوں پہ سسکتے آنسو
پھر کسی شام کے آنچل کو بھگونا ہے ہمیں

یہ جو افلاک کی وسعت میں لیے پھرتی ہے
اس انا نے ہی کسی روز ڈبونا ہے ہمیں

احمد خیال



پریم دھون

یوم پیدائش 13 جون 1923

سینے میں سلگتے ہیں ارماں آنکھوں میں اداسی چھائی ہے 
یہ آج تری دنیا سے ہمیں تقدیر کہاں لے آئی ہے
 
کچھ آنکھ میں آنسو باقی ہیں جو میرے غم کے ساتھی ہیں 
اب دل ہیں نہ دل کے ارماں ہیں بس میں ہوں مری تنہائی ہے 

نا تجھ سے گلہ کوئی ہم کو نا کوئی شکایت دنیا سے 
دو چار قدم جب منزل تھی قسمت نے ٹھوکر کھائی ہے
 
کچھ ایسی آگ لگی من میں جینے بھی نہ دے مرنے بھی نہ دے 
چپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے بولوں تو تری رسوائی ہے

پریم دھون

اظہر وارثی بہرائچی

یوم وفات 12 جون 1969

کلی کی خندہ لبی گل کی مشق سینہ دری
تمام حسن فسوں کارکی کرشمہ گری

قبائے سبز ملی ہے حنا کی سرخی کو
بیاض لالہ کو بخشی گئی حنا جگری

ہے گل کے عارض رنگیں پہ قطرہ شبنم
جبین صبح پہ جیسے ستارۂ سحری

ہے لالہ گوں شفق شام سے بہار کا رخ
مہ و نجوم نے لیلائے شب کی مانگ بھری

یہ سارے شعبدہ ہائے طلسم کچھ بھی نہیں
دراصل ہے مرے ذوق نظر کی در بدری

 اظہر وارثی بہرائچی


 

ایوب خاور

یوم پیدائش 12 جون 1948

بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کریں 
تو جفا کار ہوا ہے تو وفا کس سے کریں 

آئنہ سامنے رکھیں تو نظر تو آئے 
تجھ سے جو بات چھپانی ہو کہا کس سے کریں 

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں 
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں 

زلف سے چشم و لب و رخ سے کہ تیرے غم سے 
بات یہ ہے کہ دل و جاں کو رہا کس سے کریں 

تو نہیں ہے تو پھر اے حسن سخن ساز بتا 
اس بھرے شہر میں ہم جیسے ملا کس سے کریں 

تو نے تو اپنی سی کرنی تھی سو کر لی خاورؔ 
مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کا گلہ کس سے کریں

ایوب خاور



ریاض ساغر

ستم یہ ہے شکستہ حال ہیں ہم اس ریاست میں،
ہمارے نام کا سکہ جہاں جاری رہا برسوں

ریاض ساغر

 

 

عبید اللہ علیم

یوم پیدائش 12جون 1939

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے

محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے 

میں وہ چراغ سر رہ گزار دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے 

ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے

عبید اللہ علیم

مہتاب اعظمی

یوم پیدائش 11جون

یہ ہی رہتا ہےاب ملال مجھے
تیرا آتا نہیں خیال مجھے

زخمِ دوراں سے اب نڈھال ہوں میں
درد ہجراں ، کہ اب سنبھال مجھے

اس کے عہد شکن کا ذکر ہی کیا
خود سے کرنا ہے کچھ سوال مجھے

خود قفس ہےیہ میری تنہائی
کر لیا جس نے یر غمال مجھے

اب مجھے وقت کی نہیں پرواہ
یادرکھتے ہیں ماہ و سال مجھے

 عشق میں معجزوں سے گزرا ہوں
کیوں کہ ہونا تھا با کمال مجھے

خود سے مہتاب آج مل پایا
خود سے کرنا ہے عرض حال مجھے

مہتاب اعظمی


 

ندیم نادم

یوم پیدائش 11 جون 1994

سر اٹھانے کی تو ہمت نہیں کرنے والے 
یہ جو مردہ ہیں بغاوت نہیں کرنے والے
 
مفلسی لاکھ سہی ہم میں وہ خودداری ہے 
حاکم وقت کی خدمت نہیں کرنے والے 

ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے 
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
 
ہاتھ آندھی سے ملا آئے اسی دور کے لوگ 
یہ چراغوں کی حفاظت نہیں کرنے والے 

عشق ہم کو یہ نبھانا ہے تو جو رکھ شرطیں 
ہم کسی شرط پہ حجت نہیں کرنے والے

پھوڑ کر سر ترے در پر یہیں مر جائیں گے 
ہم ترے شہر سے ہجرت نہیں کرنے والے

ندیم نادم


 

ریاض حازم

یوم پیدائش 11 جون

جو بھی انجام سے ڈر گئے مر گئے
ڈر کے زندہ رہے کیا رہے ؟ مر گئے

ایسے حالات پیدا ہوئے مر گئے
عشق سے جتنا پیچھے ہٹے مر گئے

ہم دکھوں کے اثاثے چھپائے ہوئے
عشق دل خواب آنکھیں لئے مر گئے

شہر کی ساری بدیاں فنا ہو گئیں
یہ بھی اچھا ہوا ہم برے مر گئے

رو کے دنیا سے کیا لینا کیا دینا تھا
کیا یہ بہتر نہیں چپ کئے مر گئے

ریاض حازم


 

ثناء اللہ ظہیر

یوم وفات 10 جون 2022

خود میں اترے اور طغیانی سے باہر آ گئے 
آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے 

اس کی رونق میں بہت سنسان سے لگتے تھے ہم 
شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے 

لفظ وہ جن کو زباں تک لانے کی ہمت نہ تھی 
آخر اک دن میری پیشانی سے باہر آ گئے 

دم بخود اس حسن کو ہی دیکھتے رہتے تھے ہم 
یوں برت ٹوٹا کہ حیرانی سے باہر آ گئے 

آستیں میں پل رہے تھے لیکن اک دن یوں ہوا 
سانپ آپس کی پریشانی سے باہر آ گئے 

وہ تعلق ہم کو قید خواب جیسا تھا ظہیرؔ 
کھل گئیں آنکھیں تو آسانی سے باہر آ گئے

ثناء اللہ ظہیر


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...