Urdu Deccan

Saturday, June 25, 2022

آدتیہ پنت ناقد

یوم پیدائش 19 جون 1971

صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے 
وفاداری کی کچھ قیمت نہیں ہے 

جہاں سے وہ گیا تھا میں وہیں ہوں 
مگر جینے میں وہ لذت نہیں ہے 

زباں پہ تلخیاں آنکھوں میں غصہ 
مگر کردار میں خست نہیں ہے 

وقار اپنا نہیں کوتاہ لیکن 
ترے رتبے سی بھی قامت نہیں ہے 

رہے مٹی کی خوشبو یاد ہر دم 
تو سانسیں روکتی غربت نہیں ہے 

جہالت میں پلی دنیا میں شاید 
تعقل سے بڑی نعمت نہیں ہے 

چلا چل سر اٹھا کر یار ناقدؔ 
لگی اب تک کوئی تہمت نہیں ہے

آدتیہ پنت ناقد



ابرار کرتپوری

یوم وفات 18جون 2022
نعت

ارتقا کا ،روشنی کا ،خواب کا، تعبیر کا
دینِ احمدؐ راستہ ہے سر بسر تعمیر کا 

روشنی کی منزلیں پنہاں علومِ نو میں ہیں
ہے حصول ِعلم و دانش راستہ تنویر کا

آئیے اب چاند تاروں پر کمندیں ڈال دیں
آیۂ قرآں میں ہم کو حکم ہے تسخیر کا

عظمت ِانساں بھی معراج کی بے مثل ِشب 
اور کمالِ ارتقا سائنس کی تدبیر کا

سب کتابوں سے بشارت جن کے آنے کی ملی
نامِ احمدؐ ہے ہمارے صاحب ِتطہیر کا 

آپؐ کے کردار کا سکہّ جما ہے ہر طرف
دو جہاں میں غلغلہ ہے خلق کی تاثیر کا

بھیجتا ہے خالقِ اکبر محمدؐ پر درود
ہے علَم اونچا مرے سرکار کی توقیر کا

ابرار کرتپوری


اظہر نواز

یوم پیدائش 18 جون 1995

ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے 
ہم ترے شہر میں آئے ہیں محبت کے لئے 

وہ بھی آخر تری تعریف میں ہی خرچ ہوا 
میں نے جو وقت نکالا تھا شکایت کے لئے 

میں ستارہ ہوں مگر تیز نہیں چمکوں گا 
دیکھنے والے کی آنکھوں کی سہولت کے لئے 

تم کو بتلاؤں کہ دن بھر وہ مرے ساتھ رہا 
ہاں وہی شخص جو مشہور ہے عجلت کے لئے 

سر جھکائے ہوئے خاموش جو تم بیٹھے ہو 
اتنا کافی ہے مرے دوست ندامت کے لئے 

وہ بھی دن آئے کہ دہلیز پہ آ کر اظہرؔ 
پاؤں رکتے ہیں مرے تیری اجازت کے لئے

اظہر نواز



ادیب سہیل

یوم پیدائش 18 جون 1927

کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے 
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے 

کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس 
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے 

اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا 
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے 

صورت‌ گران عصر کا تھا انتظار کش 
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے 

روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ 
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے

ادیب سہیل



بشریٰ اعجاز

یوم پیدائش 18 جون 1959

محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا 
بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا 

گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحن دل میں ہم کو 
گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا 

اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہر آرزو کی
پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا 

کوئی تو بات کرنا چاہئے تھی خود سے آخر
کہیں تو مجھ کو بھی یہ دل لگانا چاہئے تھا 

کبھی تو اہتمام آرزو بھی تھا ضروری 
کوئی تو زیست کرنے کا بہانا چاہئے تھا 

مری اپنی اور اس کی آرزو میں فرق یہ تھا 
مجھے بس وہ اسے سارا زمانہ چاہئے تھا

بشریٰ اعجاز


معین لہوری رمزی

یوم پیدائش 17 جون 1951

خاموش  نگاہوں میں بھی پیغام بہت ہیں
اور عشق و محبت  کے بھی اصنام  بہت ہیں

تم شہرِ وفا میں رہو نظریں بھی جھکائے
بک جائیں یہ دل شہر میں بے دام  بہت ہیں

ہم ہی نہیں اس شہر میں لاکھوں ہی پڑے ہیں
مردانِ وفا شہر میں گل فام بہت ہیں

ہم  عزت و ناموسِ  نساء رکھتے  ہیں دل میں
چلنا ہو اگر ساتھ تو دو گام بہت ہیں

الفت کی نظر متمعِ  عشاق بہت  ہے
اور عشق میں جو پھنس گئے بدنام بہت ہیں

دل جیت کے جو حد میں  رہے  مرد  وہی ہے
تو عزت و توقیر بھی انعام  بہت ہیں

مرزے کی کہانی میں ہوا جو بھی ہوا  تھا
صحباں کی محبت میں یہ دشنام بہت ہیں

ہو سچی محبت  تو ہیں دشمن بھی ہزاروں
رانجھے کے لئے کہدو کے اقدام  بہت ہیں

معین لہوری رمزی



علیم اللہ حالی

یوم پیدائش 17 جون 1940

اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا
درد بن کر مری رگ رگ میں اتر آئے گا

ریگزاروں سے پرے کھینچ رہا ہے کوئی
جانے کس دشت میں دریا مجھے بھٹکائے گا

بھول جاؤں گا میں جب اپنی نواؤں کی کسک
اس کی آنکھوں میں لہو میرا اتر آئے گا

کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم
جانے یہ پیڑ کس آندھی میں اکھڑ جائے گا

ساتھ ہو جا کہ امنڈتی ہوئی لہریں ہیں قریب
جب اتر جائے گا دریا تجھے تڑپائے گا

میں اسی موڑ پہ مل جاؤں گا حالی تجھ سے
تو جہاں بھیڑ میں گم ہو کے بچھڑ جائے گا

علیم اللہ حالی



کاشف علی کاشف

یوم پیدائش 17 جون 1978

دلوں پر حکمرانی ہو رہی ہے
محبت جادوانی ہو رہی ہے

یہ صحرا سانس لینے لگ گیا اور
یہ ریت اب زندگانی ہو رہی ہے

ندی نے گیت ایسا گنگنایا
کہ رُت بھی پانی پانی ہو رہی ہے

یہ نیلاہٹ ہے آب و گُل میں کیسی
زمیں کیا آسمانی ہو رہی ہے

بدلتا جا رہا ہے عشق کاشف
وہ دیوانی ، دیوانی ہو رہی ہے

کاشف علی کاشف



اختر رضا سلیمی

یوم پیدائش 16جون 1974

تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے 
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے 

پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم 
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے 

مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے 
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے 

نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی 
سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے 

وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے 
ہماری در بدری بھی کسی ٹھکانے لگے 

میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے 

حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں 
ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے 

دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے 
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے 

رضاؔ وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں 
کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگے

اختر رضا سلیمی



اقبال ماہر

یوم پیدائش 16 جون 1919

 گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح 
دل پریشان ہے گرد رمِ آہو کی طرح

زلف گیتی کو بھی آئینہ و شانہ مل جائے
تم سنور جاؤ جو آرائشِ گیسو کی طرح

رقص کرتا ہے زر و سیم کی جھنکار پہ فن
مرمریں فرش پہ بجتے ہوئے گھنگرو کی طرح

آج بھی شعبدۂ اہلِ ہوس ہے انصاف
 دست بقّال میں پُرکار ترازو کی طرح 

آج یہ شام ہے مسموم دھوئیں کی مانند
کل یہی وقت تھا مہکے ہوئے گیسو کی طرح

 جو گل اندام مکینوں کو ترستے ہیں ہنوز
 شہر میں کتنے کھنڈر ہیں مرے پہلو کی طرح
 
 مدتوں ضبطِ محبت نے سنبھالا ہم کو
 تیرا دامن جو ملا گر گئے آنسو کی طرح
 
توڑ دیتی ہے سیاہ فام فضاؤں کا جمود
 یاد آکر تری اُڑتے ہوئے جگنو کی طرح
 
 ان گنت موڑ، صعوباتِ سفر راہ طویل
 کون اب دے گا سہارا ترے بازو کی طرح
 
محشرستانِ سکوں ہے مری ہستی ماهر
کسی شہباز کے ٹوٹے ہوئے بازو کی طرح

 اقبال ماہر

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...