Urdu Deccan

Tuesday, June 28, 2022

مہر افروز

یوم پیدائش 25 جون

تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے 
کیا کہ بیتے ہوئے لمحوں کو سزا دی جائے

گرچہ موجود زمیں پر ہیں طلبگار بہت 
دل میں جس شخص کی چاہت ہے، بجھا دی جائے؟

وقت زندان سا ہے، لمحے ہیں زنجیر بہ کف 
 یہ ہوا آج زمانے میں اڑا دی جائے؟

تاج گل کی ہیں طلب رکھتے زمانے والے 
مالا خاروں کے انھیں آج تھما دی جائے!!

یاد کی ریت پھسلتی ہی رہی تارۂ شب
دن کو یہ ریت ہوائوں میں ملا دی جائے؟

داستاں لکھتے رہے چشم بہ نم عمر تمام
سبھی اوراق جلا کر جو ہوا دی جائے

شب کی آوارگی و دشت نوردی دن کی 
میری تخلیق کے پہلو میں سلا دی جائے

آئینہ بن کے سسکتی ہوئی آنکھیں میری
محفل یار ،کہ پھر آج سجادی جائے

میں ہوں گرداب، تماشائی ہو تم ساحل کے 
دیکھنا زور ،سمندر میں جو وادی آئے

دل کی نگری ہوئی پھر آج دعا کا مسکن 
کیوں نہ پھر آج محبت کو دعا دی جائے 

ہوگئے آج سے بس صاحبِ عرفاں ہم بھی 
یہ بھی افواہ سرِ ہجر اڑادی جائے

منتظر دید کے ہیں مہر زمانے والے 
منتظر عید کے کہتے ہیں فسادی جائے 

مہر افروز

 

 

عظیم الدین احمد

یوم پیدائش 25 جون 1880
نظم موت و حیات 

ایک دھوکا ہے سمجھتے ہو جسے موت و حیات 
غور سے دیکھو نہ جیتا ہے نہ مرتا کوئی 

آہ کچھ کھیل نہیں عالم امکاں کا وجود 
ذرہ ذرہ میں چمکتا ہے خود آرا کوئی 

پردۂ عالم تکویں میں چھپا کر خود کو 
انجمن بند ہوا ہے چمن آرا کوئی 

آپ ہر رنگ میں کرتا ہے تماشا اپنا
یاں نہ گلشن ہے نہ دریا ہے نہ صحرا کوئی 

موت وہ کھیل ہے جس میں نہیں چھینا جھپٹی 
نہ خوشی سے مگر اس کھیل کو کھیلا کوئی 

زندگی کھیل کے پردے کا وہ رخ ہے جس سے 
جھانک کر اپنا تماشا ہے دکھاتا کوئی

عظیم الدین احمد



م۔لئیق انصاری

یوم پیدائش 25 جون

آ گیا ہے اب دل صدچاک سے ہوتا ہوا
ایک آنسو دیدہء نمناک سے ہوتا ہوا

جسم خوں آلود میرا دیکھ کر پوچھو نہ کچھ
آ رہا ہوں بستئ سفاک سے ہوتا ہوا

عالم وارفتگی میں آج دیوانہ ترا
تجھ تک آیا ہے خس و خاشاک سے ہوتا ہوا

منزل انسانیت تک آج آخر آ گیا
خاک کا پتلا غبار خاک سے ہوتا ہوا

آخرش آ کر مری غزلوں کی زینت بن گیا
میرا لہجہ وسعت افلاک سے ہوتا ہوا

دشت و صحرا ہی نہیں منزل پہ اپنی میں لئیق
آ گیا ہوں عالم ادراک سے ہوتا ہوا

  م۔لئیق انصاری



فراز شاہد

یوم پیدائش 24 جون 2001

خون پیتی ہے پیاس پانی کی 
واہ کیا بات ہے جوانی کی 

در حقیقت وہ اس کی دوزخ ہے 
ہم سمجھتے ہیں موج زانی کی 

یونہی دریا خراب کر ڈالا 
پیاس تھی چند گھونٹ پانی کی 

دھیرے دھیرے بنا خدا پہ یقین 
پہلے تو سب نے بد گمانی کی 

میری کوشش تو صرف اتنی ہے 
مجھ پہ قسمت نے مہربانی کی

اپنا کردار ہے سفر ہی سفر 
کوئی منزل نہیں کہانی کی 

میں کہ ایماندار تھا شاہد
زندگی نے غلط بیانی کی

فراز شاہد


 

افضل منہاس

یوم پیدائش 23 جون 1923

پہلے دھڑکن چھین کر انساں کو پتھرایا گیا
پھر نمائش کے لئے بازار میں لایا گیا

خالی کاسہ دے کے اک اندھے بھکاری کیطرح
دوسروں کے سامنے ہاتھ اس کا پھیلایا گیا

وقت نے مٹی کی دیرینہ رفاقت چھین لی
بد نصیبی دیکھئے دلدل میں دفنایا گیا

ہر نئی تہذیب ناگن بن کے اس کو ڈس گئی
کانچ کے برتن میں اس کو زہر پلوایا گیا

کہنا چاہا اس نے کچھ تو کٹ گئی اسکی زباں
کچھ لکھا اس نے تو دیواروں میں چنوایا گیا

افضل منہاس



Saturday, June 25, 2022

عزیز بگھروی

یوم پیدائش 23 جون 1932

ہم پرچمِ حیات اٹھائے ہوئے تو ہیں
آنکھیں ستم گروں سے ملائے ہوئے تو ہیں

ہر چند زخم زخم ہیں یہ رہروانِ شوق
کانٹوں سے پیرہن کو سجائے ہوئے تو ہیں

بے چہرہ ہو کے رہ گئے فن کار آج کے
ہم اپنا ایک نقش بنائے ہوئے تو ہیں

ہوں کامیابِ شوق کہ اب نامرادِ شوق
بازی سروں کی اپنے لگائے ہوئے تو ہیں

ظلمت کدے میں وہم و گماں کے عزیزؔ ہم
قندیل آگہی کی جلائے ہوئے تو ہیں

عزیز بگھروی



عبدالرحمٰن انصآر

یوم پیدائش 22 جون 1996

بھول بیٹھا ہوں دنیا داری کو 
تجھ کو چاہا ہے اس قدر میں نے

سرخ آنکھوں کی بس وجہ یہ ہے
تجھ کو سوچا ہے رات بھر میں نے

جانتا تھا کہ ہم جدا ہونگے
پھر بھی چاہا تجھے مگر میں نے

اپنے ہاتھوں سے کر دیا رخصت
جس کو چاہا ہے عمر بھر میں نے

عبدالرحمٰن انصآر



ثمر دہلوی

یوم پیدائش 21 جون 1899

کہتا ہے ان کا شعلہ عارض حجاب میں
ہم تو نہیں رہیں گے مقید نقاب میں

پھر ان کی یاد لیتی ہے سینے میں چٹکیاں
پھر درد سا اٹھا دلِ خانہ خراب میں

سب ختم کر دی اس نے محبت کی داستاں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

وہ ان کا خوابِ ناز میں شورش فزا سکوں
یہ میری خامشی کی روش اضطراب میں

ہے کشمکش ہی زیست کی وجہ قیامِ زیست
پنہاں سکوتِ قلب ہے پھر اضطراب میں

شکوہ بتوں سے جور کا ہے اے ثمر فضول
میں مبتلا ہوں اپنے ہی دل کے عذاب میں

ثمر دہلوی



سہیل اقبال

یوم پیدائش 21 جون 1972

جب بھی تیرا شباب لکھتا ہوں
حسرتوں کو عذاب لکھتا ہوں

تُو نے پوچھا نہ جو سوال کبھی
میں اُسی کا جواب لکھتا ہوں

کیا حقیقت ہے تیرے وعدوں کی
میں تو جیون کو خواب لکھتا ہوں

اپنے کھاتے میں ڈال کر کانٹے
تیری خاطر گلاب لکھتا ہوں

تجھ سے منسوب ہو ہی جاتی ہے
میں جو کوئی کتاب لکھتا ہوں

میرے نغموں میں رنج و غم ہی سہی
میں مگر ، لاجواب لکھتا ہوں

کانپ جاتا ہوں جب کبھی میں سہیلؔ
فکرِ روز ِحساب لکھتا ہوں

سہیل اقبال



شاعر علی شاعر

یوم پیدائش 20 جون 1966

چرچا ہر ایک آن ہے اردو زبان کا 
گرویدہ کل جہان ہے اردو زبان کا 

اس لشکری زبان کی عظمت نہ پوچھیے 
عظمت تو خود نشان ہے اردو زبان کا 

گمنامیوں کی دھوپ میں جلتا نہیں کبھی 
جس سر پہ سائبان ہے اردو زبان کا 

مشرق کا گلستاں ہو کہ مغرب کا آشیاں 
ویران کب مکان ہے اردو زبان کا 

سوداؔ و میرؔ و غالبؔ و اقبالؔ دیکھ لو 
ہر ایک پاسبان ہے اردو زبان کا 

اردو زبان میں ہے گھلی شہد کی مٹھاس 
لہجہ بھی مہربان ہے اردو زبان کا 

ترویج دے رہا ہے جو اردو زبان کو 
بے شک وہ باغبان ہے اردو زبان کا 

مہمان کہہ رہا ہے بڑا خوش نصیب ہے 
جو شخص میزبان ہے اردو زبان کا 

لوگو کہیں بھی اس میں پس و پیش کچھ نہیں 
اک معترف جہان ہے اردو زبان کا 

بولی ہے رابطے کی یہی جوڑتی ہے دل 
ہر دل میں ایسا مان ہے اردو زبان کا 

وسعت پذیر دامن اردو ہے آج بھی 
ہر گوشہ اک جہان ہے اردو زبان کا 

کرتا ہے آبیاری لہو سے ادیب جو 
وہ دل ہے جسم و جان ہے اردو زبان کا 

آئیں رکاوٹیں جو ترقی میں اس کی کچھ 
سمجھو یہ امتحان ہے اردو زبان کا 

پائے گا جلد منزل مقصود بالیقیں 
جاری جو کاروان ہے اردو زبان کا 

عزت سخنوران ادب کی اسی ہے 
شاعرؔ بھی ترجمان ہے اردو زبان کا

شاعر علی شاعر


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...