Urdu Deccan

Tuesday, June 28, 2022

رئیس اختر

یوم پیدائش 26 جون 1933
شمع رسالت کے پروانوں سے

ہردَور میں مردِ مومن ہی ، تاریخ کا عنواں کہلائے
قربان دل و جاں کر ڈالو جب نامِ محمدؐ آ جائے

 پھر روحِ عمل، پیغامِ وفا ، ہر ساز نفس تھّرائے
  ٹہری ہوئی غم کی راتوں میں اک نور کا پرچم لہرائے
  
ہر عزم و عمل سے ہو پیدا ، تعمیر و ترقی کا عالم
 ہر گام تمہارا دنیا کو ، کردار کا مطلب سمجھائے

ایماں کی حرارت سے اک دن یخ بستہ اندھیرے پگھلیں گے
کیوں وقت کا شکوہ ہو تم کو کیوں درد کا سورج گہنائے

پھر تازہ لہو امیدوں کا ، کانٹوں کی رگوں میں دوڑا دو
پھر جوشِ عمل ان راہوں میں تقدیرِ گلستان کہلائے

آوازِاذاں میں لرزاں ہے پیغام نبوت کا جلوہ
 ہمراہ ابھی تک چلتے ہیں، اُمیدِ شفاعت کے سائے
 
تم بندۂ حق ہو پھر تم سے ، قرآن کے اُجالے کہتے ہیں
جینے کی قسم اس طرح جیو خود موت بھی تم سے گھبرائے

 مسعود و مبارک ہے کتنا انساں کیلئے یہ آج کا دن
 ہرسانس رئیس اختر میری، اظہارِ عقیدت بن جائے
 
رئیس اختر



اطہر عزیز

یوم پیدائش 25 جون 1944

ابھرا جو چاند اونگھتی پرچھائیاں ملیں 
ہر روشنی کی گود میں تنہائیاں ملیں 

شہر وفا میں ہم جو چلے آئے دفعتاً 
ہر ہر قدم پہ درد کی شہنائیاں ملیں 

غنچے ہنسے تو حسن کا کوسوں پتہ نہ تھا 
روٹھی ہوئی کچھ ایسی بھی رعنائیاں ملیں 

ذہن خلش سے دیکھا جو ایوان خواب کو 
خواہش کو پوجتی ہوئی انگنائیاں ملیں 

خوشبو کے ریگ زار میں کیا جانے کیا ملے 
یادوں کے آئنے میں تو انگڑائیاں ملیں

اطہر عزیز


 

مہر افروز

یوم پیدائش 25 جون

تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے 
کیا کہ بیتے ہوئے لمحوں کو سزا دی جائے

گرچہ موجود زمیں پر ہیں طلبگار بہت 
دل میں جس شخص کی چاہت ہے، بجھا دی جائے؟

وقت زندان سا ہے، لمحے ہیں زنجیر بہ کف 
 یہ ہوا آج زمانے میں اڑا دی جائے؟

تاج گل کی ہیں طلب رکھتے زمانے والے 
مالا خاروں کے انھیں آج تھما دی جائے!!

یاد کی ریت پھسلتی ہی رہی تارۂ شب
دن کو یہ ریت ہوائوں میں ملا دی جائے؟

داستاں لکھتے رہے چشم بہ نم عمر تمام
سبھی اوراق جلا کر جو ہوا دی جائے

شب کی آوارگی و دشت نوردی دن کی 
میری تخلیق کے پہلو میں سلا دی جائے

آئینہ بن کے سسکتی ہوئی آنکھیں میری
محفل یار ،کہ پھر آج سجادی جائے

میں ہوں گرداب، تماشائی ہو تم ساحل کے 
دیکھنا زور ،سمندر میں جو وادی آئے

دل کی نگری ہوئی پھر آج دعا کا مسکن 
کیوں نہ پھر آج محبت کو دعا دی جائے 

ہوگئے آج سے بس صاحبِ عرفاں ہم بھی 
یہ بھی افواہ سرِ ہجر اڑادی جائے

منتظر دید کے ہیں مہر زمانے والے 
منتظر عید کے کہتے ہیں فسادی جائے 

مہر افروز

 

 

عظیم الدین احمد

یوم پیدائش 25 جون 1880
نظم موت و حیات 

ایک دھوکا ہے سمجھتے ہو جسے موت و حیات 
غور سے دیکھو نہ جیتا ہے نہ مرتا کوئی 

آہ کچھ کھیل نہیں عالم امکاں کا وجود 
ذرہ ذرہ میں چمکتا ہے خود آرا کوئی 

پردۂ عالم تکویں میں چھپا کر خود کو 
انجمن بند ہوا ہے چمن آرا کوئی 

آپ ہر رنگ میں کرتا ہے تماشا اپنا
یاں نہ گلشن ہے نہ دریا ہے نہ صحرا کوئی 

موت وہ کھیل ہے جس میں نہیں چھینا جھپٹی 
نہ خوشی سے مگر اس کھیل کو کھیلا کوئی 

زندگی کھیل کے پردے کا وہ رخ ہے جس سے 
جھانک کر اپنا تماشا ہے دکھاتا کوئی

عظیم الدین احمد



م۔لئیق انصاری

یوم پیدائش 25 جون

آ گیا ہے اب دل صدچاک سے ہوتا ہوا
ایک آنسو دیدہء نمناک سے ہوتا ہوا

جسم خوں آلود میرا دیکھ کر پوچھو نہ کچھ
آ رہا ہوں بستئ سفاک سے ہوتا ہوا

عالم وارفتگی میں آج دیوانہ ترا
تجھ تک آیا ہے خس و خاشاک سے ہوتا ہوا

منزل انسانیت تک آج آخر آ گیا
خاک کا پتلا غبار خاک سے ہوتا ہوا

آخرش آ کر مری غزلوں کی زینت بن گیا
میرا لہجہ وسعت افلاک سے ہوتا ہوا

دشت و صحرا ہی نہیں منزل پہ اپنی میں لئیق
آ گیا ہوں عالم ادراک سے ہوتا ہوا

  م۔لئیق انصاری



فراز شاہد

یوم پیدائش 24 جون 2001

خون پیتی ہے پیاس پانی کی 
واہ کیا بات ہے جوانی کی 

در حقیقت وہ اس کی دوزخ ہے 
ہم سمجھتے ہیں موج زانی کی 

یونہی دریا خراب کر ڈالا 
پیاس تھی چند گھونٹ پانی کی 

دھیرے دھیرے بنا خدا پہ یقین 
پہلے تو سب نے بد گمانی کی 

میری کوشش تو صرف اتنی ہے 
مجھ پہ قسمت نے مہربانی کی

اپنا کردار ہے سفر ہی سفر 
کوئی منزل نہیں کہانی کی 

میں کہ ایماندار تھا شاہد
زندگی نے غلط بیانی کی

فراز شاہد


 

افضل منہاس

یوم پیدائش 23 جون 1923

پہلے دھڑکن چھین کر انساں کو پتھرایا گیا
پھر نمائش کے لئے بازار میں لایا گیا

خالی کاسہ دے کے اک اندھے بھکاری کیطرح
دوسروں کے سامنے ہاتھ اس کا پھیلایا گیا

وقت نے مٹی کی دیرینہ رفاقت چھین لی
بد نصیبی دیکھئے دلدل میں دفنایا گیا

ہر نئی تہذیب ناگن بن کے اس کو ڈس گئی
کانچ کے برتن میں اس کو زہر پلوایا گیا

کہنا چاہا اس نے کچھ تو کٹ گئی اسکی زباں
کچھ لکھا اس نے تو دیواروں میں چنوایا گیا

افضل منہاس



Saturday, June 25, 2022

عزیز بگھروی

یوم پیدائش 23 جون 1932

ہم پرچمِ حیات اٹھائے ہوئے تو ہیں
آنکھیں ستم گروں سے ملائے ہوئے تو ہیں

ہر چند زخم زخم ہیں یہ رہروانِ شوق
کانٹوں سے پیرہن کو سجائے ہوئے تو ہیں

بے چہرہ ہو کے رہ گئے فن کار آج کے
ہم اپنا ایک نقش بنائے ہوئے تو ہیں

ہوں کامیابِ شوق کہ اب نامرادِ شوق
بازی سروں کی اپنے لگائے ہوئے تو ہیں

ظلمت کدے میں وہم و گماں کے عزیزؔ ہم
قندیل آگہی کی جلائے ہوئے تو ہیں

عزیز بگھروی



عبدالرحمٰن انصآر

یوم پیدائش 22 جون 1996

بھول بیٹھا ہوں دنیا داری کو 
تجھ کو چاہا ہے اس قدر میں نے

سرخ آنکھوں کی بس وجہ یہ ہے
تجھ کو سوچا ہے رات بھر میں نے

جانتا تھا کہ ہم جدا ہونگے
پھر بھی چاہا تجھے مگر میں نے

اپنے ہاتھوں سے کر دیا رخصت
جس کو چاہا ہے عمر بھر میں نے

عبدالرحمٰن انصآر



ثمر دہلوی

یوم پیدائش 21 جون 1899

کہتا ہے ان کا شعلہ عارض حجاب میں
ہم تو نہیں رہیں گے مقید نقاب میں

پھر ان کی یاد لیتی ہے سینے میں چٹکیاں
پھر درد سا اٹھا دلِ خانہ خراب میں

سب ختم کر دی اس نے محبت کی داستاں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

وہ ان کا خوابِ ناز میں شورش فزا سکوں
یہ میری خامشی کی روش اضطراب میں

ہے کشمکش ہی زیست کی وجہ قیامِ زیست
پنہاں سکوتِ قلب ہے پھر اضطراب میں

شکوہ بتوں سے جور کا ہے اے ثمر فضول
میں مبتلا ہوں اپنے ہی دل کے عذاب میں

ثمر دہلوی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...