Urdu Deccan

Tuesday, June 28, 2022

رحمت النساء ناز

یوم پیدائش 28 جون 1932

جب دل کا درد منزلِ شب سے نکل گیا
محسوس یہ ہوا کوئی طوفان ٹل گیا

اب تو ہے صرف آمدِ فصلِ بہار یاد
دل ایک پھول تھا جو سرِ شاخ جل گیا

جب تک کسی کا نقشِ کفِ پا ہمیں ملا
ہم سے کچھ اور دور زمانہ نکل گیا

ہر گُل کے ساتھ ساتھ ہے اک پاسبانِ گُل
گُل چیں کو ارتباطِ گل و خار کھل گیا

کچھ رہروانِ شوق بھٹکنے سے بچ گئے
ہم کیا سنبھل گئے کہ زمانہ سنبھل گیا

ممکن نہیں کہ بزمِ طرب تک پہنچ سکیں
اب کاروانِ شوق کا رستہ بدل گیا

اے نازؔ غم نہیں جو فرشتہ نہ بن سکا
کیوں اہرمن کے روپ میں انسان ڈھل گیا

رحمت النساء ناز


 

سنبل چودھری

یوم پیدائش 27 جون

حصے میں کب تھا اب تجھے جتنا پہن لیا
کم فائدہ ذیادہ خسارہ پہن لیا

سب کو مقامِ خاص دیا ایک وقت تک
پھر میں نے سب سے جو ملا دھوکا ، پہن لیا

میں نے سنی تھی داستان اک دن فراق کی
وحشت سے خود پہ خون کا دریا پہن لیا

گونگے کی خامشی مجھے روداد لگتی ہے
میں نے تبھی تو چپ کا لبادہ پہن لیا

کم سے نہ جاؤں میں بھی ذیادہ کے واسطے
جتنا مجھے ملا تھا تُو ، اتنا پہن لیا

سنبل چودھری



نزہت عباسی

یوم پیدائش 27 جون 1971

رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں 
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں 

کبھی برسوں گزرنے پر کہیں بھی کچھ نہیں ہوتا 
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمحے مار دیتے ہیں 

کبھی منزل پہ جانے کے نشاں تک بھی نہیں ملتے 
جو رستوں میں بھٹک جائیں تو رستے مار دیتے ہیں 

کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے 
ادھورے نا مکمل سے یہ قصے مار دیتے ہیں 

ہزاروں وار دنیا کے سہے جاتے ہیں ہنس ہنس کے 
مگر اپنوں کے طعنے اور شکوے مار دیتے ہیں 

مجھے اکثر یہ لگتا ہے کہ جیسے ہوں نہیں ہوں میں 
مجھے ہونے نہ ہونے کے یہ خدشے مار دیتے ہیں 

کبھی مرنے سے پہلے بھی بشر کو مرنا پڑتا ہے 
یہاں جینے کے ملتے ہیں جو صدمے مار دیتے ہیں 

بہت احساں

جتانے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے 
بہت ایثار و قربانی کے جذبے مار دیتے ہیں 

کبھی طوفاں کی زد سے بھی سفینے بچ نکلتے ہیں 
کبھی سالم سفینوں کو کنارے مار دیتے ہیں 

وہ حصہ کاٹ ڈالا زہر کا خدشہ رہا جس میں 
جو باقی رہ گئے مجھ میں وہ حصے مار دیتے ہیں 

جو آنکھوں میں رہیں نزہتؔ وہی تو خواب اچھے ہیں 
جنہیں تعبیر مل جائے وہ سپنے مار دیتے ہیں

نزہت عباسی


زاہد الحق

یوم پیدائش 26 جون 1977

الزام بتا کون مرے سر نہیں آیا 
حصے میں مرے کون سا پتھر نہیں آیا 

ہم جو بھی ہوئے ہیں بڑی محنت سے ہوئے ہیں 
کام اپنے کبھی اپنا مقدر نہیں آیا 

کچھ اور نہیں بس یہ تو مٹی کا اثر ہے 
ظالم کو کبھی کہنا ہنر ور نہیں آیا  

غزلیں تو بہت کہتے ہو لیکن میاں زاہدؔ 
اب تک تمہیں بننا بھی سخنور نہیں آیا

زاہد الحق


 

سعید رحمانی

یوم پیدائش 26 جون 1938

برہم مزاج ہونے لگا رہنماؤں کا
جاری ہے ہم پہ سلسلہ ان کی جفاؤں کا

آنے لگی ہیں شہری ہوائیں جو اس طرف
چہرہ بدلتا جاتا ہے اب میرے گاؤں کا

شہرِ ستم کی دھوپ لگی کرنے بدحواس
سب ڈھونڈنے لگے ہیں پتہ ٹھنڈی چھاؤں کا

اہلِ زمیں کے مسئلے باقی ہیں آج تک
کچھ لوگ سیر کرتے ہیں لیکن خلاؤں کا

محفوظ مجھ کو رکھتا ہے شدت کی دھوپ سے
ہے سر پہ سائبان جو ماں کی دعاؤں کا

خاموشیوں کی کھوج میں نکلا ہوں میں سعیدؔ
پیچھے ہے میرے کارواں تیکھی صداؤں کا

سعید رحمانی


رئیس اختر

یوم پیدائش 26 جون 1933
شمع رسالت کے پروانوں سے

ہردَور میں مردِ مومن ہی ، تاریخ کا عنواں کہلائے
قربان دل و جاں کر ڈالو جب نامِ محمدؐ آ جائے

 پھر روحِ عمل، پیغامِ وفا ، ہر ساز نفس تھّرائے
  ٹہری ہوئی غم کی راتوں میں اک نور کا پرچم لہرائے
  
ہر عزم و عمل سے ہو پیدا ، تعمیر و ترقی کا عالم
 ہر گام تمہارا دنیا کو ، کردار کا مطلب سمجھائے

ایماں کی حرارت سے اک دن یخ بستہ اندھیرے پگھلیں گے
کیوں وقت کا شکوہ ہو تم کو کیوں درد کا سورج گہنائے

پھر تازہ لہو امیدوں کا ، کانٹوں کی رگوں میں دوڑا دو
پھر جوشِ عمل ان راہوں میں تقدیرِ گلستان کہلائے

آوازِاذاں میں لرزاں ہے پیغام نبوت کا جلوہ
 ہمراہ ابھی تک چلتے ہیں، اُمیدِ شفاعت کے سائے
 
تم بندۂ حق ہو پھر تم سے ، قرآن کے اُجالے کہتے ہیں
جینے کی قسم اس طرح جیو خود موت بھی تم سے گھبرائے

 مسعود و مبارک ہے کتنا انساں کیلئے یہ آج کا دن
 ہرسانس رئیس اختر میری، اظہارِ عقیدت بن جائے
 
رئیس اختر



اطہر عزیز

یوم پیدائش 25 جون 1944

ابھرا جو چاند اونگھتی پرچھائیاں ملیں 
ہر روشنی کی گود میں تنہائیاں ملیں 

شہر وفا میں ہم جو چلے آئے دفعتاً 
ہر ہر قدم پہ درد کی شہنائیاں ملیں 

غنچے ہنسے تو حسن کا کوسوں پتہ نہ تھا 
روٹھی ہوئی کچھ ایسی بھی رعنائیاں ملیں 

ذہن خلش سے دیکھا جو ایوان خواب کو 
خواہش کو پوجتی ہوئی انگنائیاں ملیں 

خوشبو کے ریگ زار میں کیا جانے کیا ملے 
یادوں کے آئنے میں تو انگڑائیاں ملیں

اطہر عزیز


 

مہر افروز

یوم پیدائش 25 جون

تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے 
کیا کہ بیتے ہوئے لمحوں کو سزا دی جائے

گرچہ موجود زمیں پر ہیں طلبگار بہت 
دل میں جس شخص کی چاہت ہے، بجھا دی جائے؟

وقت زندان سا ہے، لمحے ہیں زنجیر بہ کف 
 یہ ہوا آج زمانے میں اڑا دی جائے؟

تاج گل کی ہیں طلب رکھتے زمانے والے 
مالا خاروں کے انھیں آج تھما دی جائے!!

یاد کی ریت پھسلتی ہی رہی تارۂ شب
دن کو یہ ریت ہوائوں میں ملا دی جائے؟

داستاں لکھتے رہے چشم بہ نم عمر تمام
سبھی اوراق جلا کر جو ہوا دی جائے

شب کی آوارگی و دشت نوردی دن کی 
میری تخلیق کے پہلو میں سلا دی جائے

آئینہ بن کے سسکتی ہوئی آنکھیں میری
محفل یار ،کہ پھر آج سجادی جائے

میں ہوں گرداب، تماشائی ہو تم ساحل کے 
دیکھنا زور ،سمندر میں جو وادی آئے

دل کی نگری ہوئی پھر آج دعا کا مسکن 
کیوں نہ پھر آج محبت کو دعا دی جائے 

ہوگئے آج سے بس صاحبِ عرفاں ہم بھی 
یہ بھی افواہ سرِ ہجر اڑادی جائے

منتظر دید کے ہیں مہر زمانے والے 
منتظر عید کے کہتے ہیں فسادی جائے 

مہر افروز

 

 

عظیم الدین احمد

یوم پیدائش 25 جون 1880
نظم موت و حیات 

ایک دھوکا ہے سمجھتے ہو جسے موت و حیات 
غور سے دیکھو نہ جیتا ہے نہ مرتا کوئی 

آہ کچھ کھیل نہیں عالم امکاں کا وجود 
ذرہ ذرہ میں چمکتا ہے خود آرا کوئی 

پردۂ عالم تکویں میں چھپا کر خود کو 
انجمن بند ہوا ہے چمن آرا کوئی 

آپ ہر رنگ میں کرتا ہے تماشا اپنا
یاں نہ گلشن ہے نہ دریا ہے نہ صحرا کوئی 

موت وہ کھیل ہے جس میں نہیں چھینا جھپٹی 
نہ خوشی سے مگر اس کھیل کو کھیلا کوئی 

زندگی کھیل کے پردے کا وہ رخ ہے جس سے 
جھانک کر اپنا تماشا ہے دکھاتا کوئی

عظیم الدین احمد



م۔لئیق انصاری

یوم پیدائش 25 جون

آ گیا ہے اب دل صدچاک سے ہوتا ہوا
ایک آنسو دیدہء نمناک سے ہوتا ہوا

جسم خوں آلود میرا دیکھ کر پوچھو نہ کچھ
آ رہا ہوں بستئ سفاک سے ہوتا ہوا

عالم وارفتگی میں آج دیوانہ ترا
تجھ تک آیا ہے خس و خاشاک سے ہوتا ہوا

منزل انسانیت تک آج آخر آ گیا
خاک کا پتلا غبار خاک سے ہوتا ہوا

آخرش آ کر مری غزلوں کی زینت بن گیا
میرا لہجہ وسعت افلاک سے ہوتا ہوا

دشت و صحرا ہی نہیں منزل پہ اپنی میں لئیق
آ گیا ہوں عالم ادراک سے ہوتا ہوا

  م۔لئیق انصاری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...