مرنے کی ادا اور ہے جینے کی ادا اور
جو چاہوں سمجھنا بھی تو روکے ہے انا اور
کچھ سوچ کے قدموں کو نہ دی ہم نے بھی جنبش
الزام نہ رکھ جائے کہیں پھر سے ہوا اور
تکمیل کی منزل ہی مری راہ فنا ہے
کیوں مجھ کو دکھاتے ہو یہاں راہ بقا اور
جب سے میں اکائی کا علم لے کے چلا ہوں
احساس یہ ہوتا ہے جدا ہونے لگا اور
یہ سوچ کے کرتا نہیں طوفاں کا تعاقب
ممکن ہے بدل جائے زمانے کی ہوا اور
یہ کون سی منزل ہے کہ مٹھی نہیں کھلتی
ہے جب کہ مرے سامنے اک کالی بلا اور