Urdu Deccan

Thursday, July 14, 2022

ایم۔ کے۔ اثر

یوم پیدائش 01 جولائی 1945

مرنے کی ادا اور ہے جینے کی ادا اور 
جو چاہوں سمجھنا بھی تو روکے ہے انا اور 

کچھ سوچ کے قدموں کو نہ دی ہم نے بھی جنبش 
الزام نہ رکھ جائے کہیں پھر سے ہوا اور 

تکمیل کی منزل ہی مری راہ فنا ہے 
کیوں مجھ کو دکھاتے ہو یہاں راہ بقا اور 

جب سے میں اکائی کا علم لے کے چلا ہوں 
احساس یہ ہوتا ہے جدا ہونے لگا اور

یہ سوچ کے کرتا نہیں طوفاں کا تعاقب 
ممکن ہے بدل جائے زمانے کی ہوا اور 

یہ کون سی منزل ہے کہ مٹھی نہیں کھلتی 
ہے جب کہ مرے سامنے اک کالی بلا اور

ایم۔ کے۔ اثر


 

علی عباس امید

یوم پیدائش 01 جولائی 1950

تعلقات کی گرمی نہ اعتبار کی دھوپ 
جھلس رہی ہے زمانے کو انتشار کی دھوپ 

غم حیات کے سائے مہیب ہیں ورنہ 
کسے پسند نہیں ہے خیال یار کی دھوپ 

ابھی سے امن کی ٹھنڈک تلاش کرتے ہو 
ابھی تو چمکی ہے یارو صلیب و دار کی دھوپ 

الم کی راہ گزر پر بہت ہی کام آئیں 
تمہاری یاد کی شمعیں ہمارے پیار کی دھوپ 

کمند ڈال دیں سورج پہ آؤ مل جل کر 
اب اور تیز نہ ہونے دیں روزگار کی دھوپ 

لبوں پہ مہر جگر خوں چکاں نظر حیراں 
اب اور کیسے جلائے گی یہ بہار کی دھوپ 

تمہارے شہر کی شیدا بدست یادوں کو 
تلاش کرتی رہی دل کے کوہسار کی دھوپ 

بہت قریب ہیں سائے حیات نو کے امیدؔ 
بہت ہی جلد ڈھلے گی اب انتظار کی دھوپ

علی عباس امید


 

علیم الدین علیم

یوم پیدائش 01 جولائی 1946

منگتوں کو سلطان بنایا میرے کملی والے نے
جب اپنا دربار سجایا میرے کملی والے نے

جس کو حقارت سے دنیا نے دیکھا اور منہ پھیر لیا
اس کو بھی سینے سے لگایا میرے کملی والے نے

مال وزر کی بات نہیں ہے یہ تو کرم کی باتیں ہیں
جس کو چاہا در پہ بلایا میرے کملی والے نے

گود میں لے کر دائی حلیمہ پیارے نبی سے کہتی تھی
میرا سویا بھاگ جگایا میرے کملی والے نے

جس پر اپنا رنگ چڑھایا میرے کملی والے نے
داتا فرید اور خواجہ بنایا میرے کملی والے نے

نعتِ علیم زباں پر آئی میری قسمت جاگ اٹھی
میرے نام کو بھی چمکایا میرے کملی والے نے

علیم الدین علیم



بسمل اعظمی

یوم پیدائش 01 جولائی 1946

اب چمن میں ہم نفس اور ہم زباں کوئی نہیں 
ہم نشیں کوئی نہیں ہے راز داں کوئی نہیں 

کس سے حال دل کہیں کس کو سنائیں حال زار 
چارہ ساز درد دل سوز نہاں کوئی نہیں 

کل بھی میں تنہا رہا ہوں اور تنہا آج بھی
کل وہاں کوئی نہ تھا اور اب یہاں کوئی نہیں 

فصل گل آتے ہی اٹھتی ہے صدائے زاغ و بوم 
غنچہ و گل اور بلبل شادماں کوئی نہیں 

نکتہ چیں محفل کی رونق بن گئے ہیں آج کل 
بزم یاراں میں ستم ہے نکتہ داں کوئی نہیں 

یوں تو کہنے کو سبھی تھے ہم سفیر و ہم خیال 
ہم سفر کوئی نہیں اب ہم عناں کوئی نہیں

بسمل اعظمی


 

اقبال خلش

یوم پیدائش 01 جولائی 1950

بھلے ہی ہست سے نابود ہوتا 
زیاں میرا کسی کا سود ہوتا 

میں جس کی آرزو میں مر رہا ہوں 
تصور میں تو وہ موجود ہوتا 

جمی ہے مصلحت کی برف ورنہ 
ہمارا حوصلہ بارود ہوتا 

ہوس کیونکر تمہیں بے چین کرتی 
سکون دل اگر مقصود ہوتا 

جو ہم کرتے نہ عزم حق نوائی 
امیر شہر کیوں نمرود ہوتا 

حسد کا تیل ہے تیرے دیے میں 
اجالا تو نہ ہوتا دود ہوتا 

طلسم آباد ہے شہر تخیل 
جسے میں سوچتا مشہود ہوتا 

خلشؔ مسلک ہے آفاقی ہمارا 
کسی سرحد میں کیوں محدود ہوتا

اقبال خلش


 

امان اللہ ساغر

یوم پیدائش 01 جولائی 1957

کون ہے جس سے مرے دل کا مکاں روشن ہے
اک دیا جیسے سر قریۂ جاں روشن ہے

ان بہاروں کے چراغوں کو بھلا کیا معلوم
شمع کی طرح سر دشت خزاں روشن ہے

آگ سلگی ہوئی اندر کی طرف ہوگی ضرور
ورنہ بیرون میں کیوں اتنا دھواں روشن ہے 

آکے یہ قافلۂ دل بھی کہاں ٹھہرا ہے
ہے یقیں اپنا منور نہ گماں روشن ہے 

آئینے نصب تو ہیں شہر کی دیواروں پر
عکس کا حسن وہ پہلے سا کہاں روشن ہے

وہ مجھے دیکھ کے ہو جاتا ہے غمگین بہت
گویا چہرے سے مرا درد نہاں روشن ہے

اس کے ہی نور سے ذرے ہیں منور ساغر 
جس کے انوار سے یہ کاہکشاں روشن ہے

امان اللہ ساغر


 

مصطفی اکبر

یوم پیدائش 01 جولائی 1958

بھر کے لے آیا ہوں آنکھوں میں لبِ ِیار کا رنگ
رخِ ہر گل پہ نظر آنے لگا پیار کا رنگ

پھر چلی بادِ بہاری کہ مچل اٹھّا ہے دل
پھر بہار آئی ہے گلگوں ہوا گلزار کا رنگ

اور مہکے گی ابھی حسنِ دل آرا کی بہار
اور نکھرے گا ابھی گلشن ِ اشعار کا رنگ

سات رنگوں میں وہی رنگ بہت اچھا ہے
جس سے مل جائے مرے یار کے رخسار کا رنگ

مصطفی اکبر


 

مخدوم ارشد حبیبی

یوم پیدائش 01 جولائی 1960

کس نے پایا مقام سورج کا
سارا عالم غلام سورج کا
مذہب و ملک تک نہیں محدود
ہے کرم سب پہ عام سورج کا

مخدوم ارشد حبیبی



شمیم غازی پوری

یوم پیدائش 01 جولائی 1962

ہماری روح وہ صندل کا پیڑ ہے جس سے
لپٹ گئی ہے تری یاد ناگنوں کی طرح

شمیم غازی پوری



فرزانہ جاناں

یوم پیدائش 01 جولائی 1977

دل لگ گیا جو کسی کے حسن و جمال سے
تھے اور ہی طرح کے نئے خدوخال سے

کیوں دسترس میں آ کے بھی میرا نہیں ہوا
کچھ بھی عیاں نہیں ہے صنم تیری چال سے

ہوتا ہے ہم کلام وہ شام و سحر مگر
آنکھوں میں لگ رہے تھے نئے کچھ سوال سے

جاناںؔ تو اس کی یاد میں کیسے سما گئی؟
پوچھیں گے ایک دن اسی باکمال سے

فرزانہ جاناں



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...