Urdu Deccan

Friday, July 15, 2022

محشر فیض آبادی

ذلیل و خوار ہو کر ہر طرف سے خوب آیا ھے 
نہ جانے کون سے نالے میں جاکے ڈوب آیا ھے 
میں جب تھانے سے لوٹا تو پڑوسن نے کہا میری 
بہارو پھول برساؤ مرا محبوب آیا ھے 

محشر فیض آبادی

نازاں جمشید پوری

یوم پیدائش 01 جولائی 1950

بدلے میں دعاؤں کے کبھی زر نہیں لیتے 
احسان کسی کا بھی قلندر نہیں لیتے 

خود منزل مقصود لپٹ جاتی ہے ان سے 
رہبر کا سہارا وہ کہیں پر نہیں لیتے 

سو جاتے ہیں بورے پہ چٹائی پہ کہیں بھی 
مفلس تو کبھی مخملی بستر نہیں لیتے 

ہو جائے جہاں رات وہیں دن کو بسیرا 
بے چارے یہ بنجارے کہیں گھر نہیں لیتے 

سب لوٹ لیا کرتے ہیں بلوائی فسادی 
اجڑے ہوئے لوگوں کا مقدر نہیں لیتے 

اشکوں سے ہی ہم پیاس بجھا لیتے ہیں نازاںؔ 
خوددار ہیں کچھ ایسے سمندر نہیں لیتے

نازاں جمشید پوری


ضمیر الدین احمد عرش گیاوی

یوم وفات 01 جولائی 1936

ہمارے جامۂ ہستی کو اک دن چاک‌ ہونا تھا 
ہوئے تھے خاک سے پیدا ہمیں پھر خاک ہونا تھا

ترے غمزے تیری شرمیلی آنکھوں سے یہ کہتے ہیں 
تمہیں جلاد ہونا تھا تمہیں سفاک ہونا تھا

ازل سے مرغ دل کو خطرۂ صیاد کیا ہوتا 
کہ اس کو تو اسیر حلقۂ فتراک ہونا تھا

ہوائے دامن جاناں نہ اپنی خاک تک پہنچی 
مقدر میں تو ممنون مزار پاک ہونا تھا

عدو کیونکر نہ آ جاتا یکایک بزم عشرت میں 
اسے بشاش ہونا تھا مجھے غم ناک ہونا تھا

سیہ بختی مری بھی او قلم ہم دم نہ کیوں ہوتی 
میرے سینے کو بھی ترے ہی صورت چاک‌ ہونا تھا

نہ ہوتی دل میں الفت اپنی کیوں قاتل کے ابرو کی 
کہ مجھ کو تو قتیل خنجر سفاک ہونا تھا

جلال الدین احمد کیوں نہ جاتا عرشؔ دنیا سے 
مجھے مرگ پسر میں مرتے دم غم ناک ہونا تھا

ضمیر الدین احمد عرش گیاوی



بشیر احمد شہید

یوم پیدائش 01 جولائی 1916

دل کے ہر داغ کو سینے سے لگائے رکھیے
خانۂ دل میں یہ فانوس جلائے رکھیے

زندگی وقت کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے
دیدہ و دل کو قرینے سے سجائے رکھیے

شام غم کا جو فسانہ تھا وہ اب ختم ہوا 
صبح امید کا ماحول بنائے رکھیے

اپنے اخلاص و محبت کے ہیں قائل سب لوگ
زندگانی کا یہی رنگ جمائے رکھیے

میں ابھی چپکے سے پی آتا ہوں مے خانے سے
زاہدوں کو ذرا باتوں میں لگائے رکھیے

رازداں اپنا فرشتہ نہیں انساں ہی تو ہے 
دل کے ہر راز کو دل میں ہی چھپائے رکھیے

یہ جو ہے فرصت امروز غنیمت ہے شہیدؔ
آج کے کام کو کل پر نہ اٹھائے رکھیے

بشیر احمد شہید



محبوب خزاں

یوم پیدائش 01 جولائی 1930

ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے 
جینے کی شکایت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے 

کتراتے ہیں بل کھاتے ہیں گھبراتے ہیں کیوں لوگ 
سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے 

آنکھوں میں نمک ہے تو نظر کیوں نہیں آتا 
پلکوں پہ گہر ہیں تو بکھر کیوں نہیں جاتے 

اخبار میں روزانہ وہی شور ہے یعنی 
اپنے سے یہ حالات سنور کیوں نہیں جاتے 

یہ بات ابھی مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے 
پتھر ادھر آتے ہیں ادھر کیوں نہیں جاتے 

تیری ہی طرح اب یہ ترے ہجر کے دن بھی 
جاتے نظر آتے ہیں مگر کیوں نہیں جاتے 

اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو 
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے

محبوب خزاں



Thursday, July 14, 2022

ایم۔ کے۔ اثر

یوم پیدائش 01 جولائی 1945

مرنے کی ادا اور ہے جینے کی ادا اور 
جو چاہوں سمجھنا بھی تو روکے ہے انا اور 

کچھ سوچ کے قدموں کو نہ دی ہم نے بھی جنبش 
الزام نہ رکھ جائے کہیں پھر سے ہوا اور 

تکمیل کی منزل ہی مری راہ فنا ہے 
کیوں مجھ کو دکھاتے ہو یہاں راہ بقا اور 

جب سے میں اکائی کا علم لے کے چلا ہوں 
احساس یہ ہوتا ہے جدا ہونے لگا اور

یہ سوچ کے کرتا نہیں طوفاں کا تعاقب 
ممکن ہے بدل جائے زمانے کی ہوا اور 

یہ کون سی منزل ہے کہ مٹھی نہیں کھلتی 
ہے جب کہ مرے سامنے اک کالی بلا اور

ایم۔ کے۔ اثر


 

علی عباس امید

یوم پیدائش 01 جولائی 1950

تعلقات کی گرمی نہ اعتبار کی دھوپ 
جھلس رہی ہے زمانے کو انتشار کی دھوپ 

غم حیات کے سائے مہیب ہیں ورنہ 
کسے پسند نہیں ہے خیال یار کی دھوپ 

ابھی سے امن کی ٹھنڈک تلاش کرتے ہو 
ابھی تو چمکی ہے یارو صلیب و دار کی دھوپ 

الم کی راہ گزر پر بہت ہی کام آئیں 
تمہاری یاد کی شمعیں ہمارے پیار کی دھوپ 

کمند ڈال دیں سورج پہ آؤ مل جل کر 
اب اور تیز نہ ہونے دیں روزگار کی دھوپ 

لبوں پہ مہر جگر خوں چکاں نظر حیراں 
اب اور کیسے جلائے گی یہ بہار کی دھوپ 

تمہارے شہر کی شیدا بدست یادوں کو 
تلاش کرتی رہی دل کے کوہسار کی دھوپ 

بہت قریب ہیں سائے حیات نو کے امیدؔ 
بہت ہی جلد ڈھلے گی اب انتظار کی دھوپ

علی عباس امید


 

علیم الدین علیم

یوم پیدائش 01 جولائی 1946

منگتوں کو سلطان بنایا میرے کملی والے نے
جب اپنا دربار سجایا میرے کملی والے نے

جس کو حقارت سے دنیا نے دیکھا اور منہ پھیر لیا
اس کو بھی سینے سے لگایا میرے کملی والے نے

مال وزر کی بات نہیں ہے یہ تو کرم کی باتیں ہیں
جس کو چاہا در پہ بلایا میرے کملی والے نے

گود میں لے کر دائی حلیمہ پیارے نبی سے کہتی تھی
میرا سویا بھاگ جگایا میرے کملی والے نے

جس پر اپنا رنگ چڑھایا میرے کملی والے نے
داتا فرید اور خواجہ بنایا میرے کملی والے نے

نعتِ علیم زباں پر آئی میری قسمت جاگ اٹھی
میرے نام کو بھی چمکایا میرے کملی والے نے

علیم الدین علیم



بسمل اعظمی

یوم پیدائش 01 جولائی 1946

اب چمن میں ہم نفس اور ہم زباں کوئی نہیں 
ہم نشیں کوئی نہیں ہے راز داں کوئی نہیں 

کس سے حال دل کہیں کس کو سنائیں حال زار 
چارہ ساز درد دل سوز نہاں کوئی نہیں 

کل بھی میں تنہا رہا ہوں اور تنہا آج بھی
کل وہاں کوئی نہ تھا اور اب یہاں کوئی نہیں 

فصل گل آتے ہی اٹھتی ہے صدائے زاغ و بوم 
غنچہ و گل اور بلبل شادماں کوئی نہیں 

نکتہ چیں محفل کی رونق بن گئے ہیں آج کل 
بزم یاراں میں ستم ہے نکتہ داں کوئی نہیں 

یوں تو کہنے کو سبھی تھے ہم سفیر و ہم خیال 
ہم سفر کوئی نہیں اب ہم عناں کوئی نہیں

بسمل اعظمی


 

اقبال خلش

یوم پیدائش 01 جولائی 1950

بھلے ہی ہست سے نابود ہوتا 
زیاں میرا کسی کا سود ہوتا 

میں جس کی آرزو میں مر رہا ہوں 
تصور میں تو وہ موجود ہوتا 

جمی ہے مصلحت کی برف ورنہ 
ہمارا حوصلہ بارود ہوتا 

ہوس کیونکر تمہیں بے چین کرتی 
سکون دل اگر مقصود ہوتا 

جو ہم کرتے نہ عزم حق نوائی 
امیر شہر کیوں نمرود ہوتا 

حسد کا تیل ہے تیرے دیے میں 
اجالا تو نہ ہوتا دود ہوتا 

طلسم آباد ہے شہر تخیل 
جسے میں سوچتا مشہود ہوتا 

خلشؔ مسلک ہے آفاقی ہمارا 
کسی سرحد میں کیوں محدود ہوتا

اقبال خلش


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...