Urdu Deccan

Sunday, July 31, 2022

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

یوم پیدائش 25 جولائی 

یہی صدا مجھے اکثر سنائی دیتی ہے 
سکون کس کو بتوں کی خدائی دیتی ہے 

وہ آدمی جو ہمیشہ مرے خلاف رہا 
اسی کی مجھ پہ حکومت دکھائی دیتی ہے 

محبتیں ہی سکھاتی ہیں ہر سبق لیکن 
بہت سے درس ہمیں بے وفائی دیتی ہے 

یہ انگلیاں ہی قلم بن کے چلنے لگتی ہیں 
یہ چشم نم ہی مجھے روشنائی دیتی ہے 

کسی کے عشق نے یوں دل کو کر دیا روشن 
کہ روشنی سی ہر اک سو دکھائی دیتی ہے 

سلوک ایک سا کرتی نہیں ہے الفت بھی 
ملن کسی کو کسی کو جدائی دیتی ہے 

نہیں ہے دور مری روح کے قریب ہے وہ 
جھلک اسی کی تو مجھ میں دکھائی دیتی ہے 

نہ ایسی دنیا سے امید اے ولاؔ رکھنا 
جو نیکیوں کے صلے میں برائی دیتی ہے

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی



نسیم فائق

یوم پیدائش 25 جولائی 1970

ایسے بہکاوے میں آنے کو میں تیار نہیں
راہ کے بیچ ہوا کی کوئی دیوار نہیں

مجھ کو خائف نہیں کرتی ہے ہوا کی یورش
میں کسی حاکم مغرور کی دستار نہیں

رسم قائم ہوئی دنیا کی برائی کرنا
کون ہے وہ جسے دنیا سے سروکار نہیں

خوب پہچانتی ہے ملک کی مٹی مجھ کو
یہ بتائے گی وفادار ہوں غدار نہیں

اٹھ گیا ٹی وی کی خبروں سے بھروسہ میرا
سب رٹائے ہوئے جملے ہیں سماچار نہیں

اپنے ملبوس قلندر پہ ہوں نازاں فائق
حاکم وقت کا میں حاشیہ بردار نہیں

نسیم فائق



سید مسرور عابدی شرفی قادری

یوم وفات 24 جولائی 2022

دل پر تقاضے درد کے ہر دم ہیں اور بھی
اک تیرے غم سے ہٹ کے کئی غم ہیں اور بھی

ہم کو خبر نہیں کہ کہاں کھوگئی نظر
حسنِ تجلیات کے عالم ہیں اور بھی

اظہارِ آرزو سے پشیماں ہے زندگی
وہ حسن اتفاق سے برہم ہیں اور بھی

کیا کیا امید ہم کو بہاروں سے تھی مگر
دامن گلوں کے پہلے سے کچھ نم ہیں اور بھی

چارہ گری کا آپ کی شاید اثر یہ ہے
اب دل کے زخم ، قابلِ مرہم ہیں اور بھی

تنہا پسندیوں نے جو تنہا کیا ہمیں
نزدیک رہ کے دور مگر ہم ہیں اور بھی

مدہم چراغِ گل جو ہیں مسرور آج کل
گلشن میں دن بہار کے کچھ کم ہیں اور بھی

سید مسرور عابدی شرفی قادری

 


کمال جعفری

یوم پیدائش 25 جولائی 1949

ابھی دکھی ہوں بہت اور بہت اداس ہوں میں 
ہنسوں تو کیسے کہ تصویر درد و یاس ہوں میں 

قریب رہ کے بھی تو مجھ سے دور دور رہا 
یہ اور بات کہ برسوں سے تیرے پاس ہوں میں 

بھٹک رہا ہوں ابھی خار دار صحرا میں 
مگر مزاج گلستاں سے روشناس ہوں میں 

جو تیرگی میں دیا بن کے روشنی بخشے 
اس اعتماد کی ہلکی سی ایک آس ہوں میں 

خود اپنے ہاتھ سے سیتا ہوں اور پہنتا ہوں 
اس عہد نو کا وہ بکھرا ہوا لباس ہوں میں 

کمالؔ مجھ کو نئی نسل یاد رکھے گی 
کتاب زیست کا اک ایسا اقتباس ہوں میں

کمال جعفری


 

غزالہ تبسم

یوم پیدائش 24 جولائی 

کھو گئے جانے کہاں پیار لٹانے والے
یاد آتے ہیں بہت لوگ پرانے والے

اتنی مہنگائی میں بچتا ہی نہیں کچھ صاحب
نوکری ایک ہے اور چار ہیں کھانے والے

کچھ بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتا ہے یہاں
تھے قطاروں میں کھڑے صبح سے پانے والے

اک تسلی کے سوا اور نہ دے پائے تھے کچھ
آج بھی چبھتے ہیں آنسو مجھے شانے والے

کھوکھلے رسموں رواجوں نے جتایا اکثر
ہاتھیوں کے ہی نہیں دانت دکھانے والے

کیسا انصاف کیا کرتا ہے اوپر والا
بھیگتے رہتے ہیں خود چھاؤنی چھانے والے

غزالہ تبسم



ذہین شاہ تاجی

یوم وفات 23 جولائی 1978

جو حق سے دور ہے وہ حق سمجھ نہیں سکتا 
سوائے ذق ذق‌ و بق بق سمجھ نہیں سکتا 

جو اپنی ہستی محدود کا ہے زندانی 
وہ رند ہستی مطلق سمجھ نہیں سکتا 

ورائے فہم بھی مفہوم کا تقید ہے 
بہ قید فہم جو مطلق سمجھ نہیں سکتا 

سمجھ سکا نہ جو حق کی کھلی ہوئی آیات 
حدیث مبہم و مغلق سمجھ نہیں سکتا 

جمال حق کو بجز حق کوئی نہ دیکھے گا 
کلام حق کو بجز حق سمجھ نہیں سکتا 

صفت کی ذات سے نسبت جسے نہیں معلوم 
وہ ربط دجلہ و ذورق سمجھ نہیں سکتا 

ظہور میں نظر آیا نہ جس کو الظاہر 
وہ فرق مصدر و مشتق سمجھ نہیں سکتا 

ذہینؔ فہم نہ ہو فہم حق میں جب تک گم 
حقیقت حق و نا حق سمجھ نہیں سکتا

ذہین شاہ تاجی



صائمہ اسما

یوم پیدائش 22 جولائی 1968

سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں 
اچانک ایک عجب بات یہ سنی کہ میں ہوں 

تلاش کر کے مجھے لوٹنے کو تھا کوئی 
مرے وجود کی خوشبو پکار اٹھی کہ میں ہوں 

کہ تیرگی میں پلی آنکھ کو یقیں آ جائے 
ذرا بلند ہو آہنگ روشنی کہ میں ہوں 

وہ خالی جان کے گھر لوٹنے کو آیا تھا 
مرے عدو کو خبر آج ہو گئی کہ میں ہوں 

نہ جانے کیسی نگاہوں سے موت نے دیکھا 
ہوئی ہے نیند سے بیدار زندگی کہ میں ہوں 

لپیٹ دو صف ماتم اٹھا رکھو نوحے 
پکارتا سر محشر سنا کوئی کہ میں ہوں

صائمہ اسما


 

رزاق اثر شاہ آبادی

یوم پیدائش 22 جولائی 1937

کانٹوں کی ہر خلش سے نئی لذتیں ملیں
اہل جنوں کو اس لئے چھالوں پہ ناز تھا

رزاق اثر شاہ آبادی


فضیل جعفری

یوم پیدائش 22 جولائی 1936

نومید کرے دل کو نہ منزل کا پتا دے 
اے رہ گزر عشق ترے کیا ہیں ارادے 

ہر رات گزرتا ہے کوئی دل کی گلی سے 
اوڑھے ہوئے یادوں کے پر اسرار لبادے 

بن جاتا ہوں سر تا بہ قدم دست تمنا 
ڈھل جاتے ہیں اشکوں میں مگر شوق ارادے 

اس چشم فسوں گر میں نظر آتی ہے اکثر 
اک آتش خاموش کہ جو دل کو جلا دے 

آزردۂ الفت کو غم زندگی جیسے 
تپتے ہوئے جنگل میں کوئی آگ لگا دے 

یادوں کے مہ و مہر تمناؤں کے بادل 
کیا کچھ نہ وہ سوغات سر دشت وفا دے 

یاد آتی ہے اس حسن کی یوں جعفریؔ جیسے 
تنہائی کے غاروں سے کوئی خود کو صدا دے

فضیل جعفری



راجیش ریڈی

یوم پیدائش 22 جولائی 1952

اِس شوخ پہ آ کر کبھی اُس شوخ پہ آکر
رکھ دیتا ہے دل روز مرا کام بڑھا کر

خط دے کے چلے آنا ہی کافی نہیں قاصد!
کچھ حال مرا اُن سے زبانی بھی کہا کر

اتنا نہ اچھل وعدہ پہ اُن کے دل ناداں 
سو بار کہا تجھ سے کہ آپے میں رہا کر

کرتے ہیں بہت رشک مرے رتجگے اُن پر
سوجاتے ہیں جو لوگ چراغوں کو بجھا کر

زنداں میں بھی ماحول بنائے رکھا ہم نے
زنجیر کی آواز میں آواز ملا کر

مشکل کوئی کرتا نہیں آسان کہ اب تو
دیوار بھی رکھ لیتی ہے سائے کو چھپا کر

ہے کون مصوّر جو دکھاتا ہے کرشمے
تصویر بنا کر کبھی تصویر مٹاکر

جس گھر کے لئے خاک اڑاتے رہے دن رات
دو دن نہ رہا وہ درودیوار میں آکر

رہنے بھی دے اشعار کے پیچھے کی کہانی
کیا ملنا ہے اب درد کی تفصیل میں جا کر

راجیش ریڈی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...