یوم پیدائش 01 اگست 1923
ہر ایک آنکھ کو ذوق جمال دے یا رب
دلوں کو عشق و وفا کا جلال دے یا رب
ہے میرے ذہن رسا میں جو اک تصور حق
مرا قلم اسی سانچے میں ڈھال دے یا رب
زباں سے بات جو نکلے ہمیشہ حق نکلے
لسان صدق کو حسن مقال دے یا رب
اس عہد زور میں اس کا سنبھلنا مشکل ہے
تو ہی شریفوں کی پگڑی سنبھال دے یا رب
کھٹک رہا ہے دلوں میں مرے حریفوں کے
بہت دنوں سے جو کانٹا نکال دے یا رب
نفس میں گرمیٔ ایمان بوزر و سلماں
دلوں میں سوز اویس و بلال دے یا رب
جو خواہشوں میں گھرا ہو وہ تجھ سے کیا مانگے
تجھے جو دینا ہے وہ بے سوال دے یا رب
وفا ملک پوری
یوم پیدائش 01 اگست 1923
تمام رات وہ جاگا کسی کے وعدے پر
وفا کو آ ہی گئی نیند رات ڈھلنے پر
جو سب کا دوست تھا ہر انجمن کی رونق تھا
کل اس کی لاش ملی اس کے گھر کے ملبے پر
وہ ذوق فن ہو کہ شاخ چمن کہ خاک وطن
ہر اک کا حق ہے مرے خوں کے قطرے قطرے پر
حقیقتیں نظر آئیں تو کس طرح ان کو
تعصبات کی عینک ہے جن کے چہرے پر
چمن میں یوں تو تھے کچھ اور آشیاں لیکن
گری جو برق تو میرے ہی آشیانے پر
کرم مجھی پہ تھا سب باغبان و گلچیں کا
کسی نے قید کیا اور کسی نے نوچے پر
یہ دشت حزن ہے کرب و بلا کا صحرا ہے
چلے گا کون یہاں اب وفاؔ کے رستے پر
وفا ملک پوری