Urdu Deccan

Wednesday, August 17, 2022

توصیف تبسم

یوم پیدائش 03 اگست 1928

کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں 
فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں 

دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں 
رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں 

تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے 
خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں 

وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز 
تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں 

اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی
کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں 

جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے
خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں

توصیف تبسم


 

ثمینہ ثاقب

یوم پیدائش 02 اگست 1994

مجھے کہانی کے کردار سے محبت تھی 
کہ جس میں سائے کو دیوار سے محبت تھی 

وہ اس لئے بھی نہیں چھوڑتا تھا ساتھ مرا 
اسے بھی اپنے عزادار سے محبت تھی 

کچھ اس لئے بھی میں صحرا سے آ گئی جنگل 
مری سرشت میں اشجار سے محبت تھی 

عزیز تر مجھے چادر تھی جس طرح اپنی 
اسے بھی ویسے ہی دستار سے محبت تھی 

گواہی دیں گے سبھی اس کی پارسائی کی 
وہ عام تھا مجھے کردار سے محبت تھی 

میں ہجرتوں کی ثمینہؔ ہوں اس لئے قائل 
مرے رفیق کو اس پار سے محبت تھی

ثمینہ ثاقب


 

پرکاش فکری

یوم پیدائش 02 اگست 1931

رفتہ رفتہ سب مناظر کھو گئے اچھا ہوا 
شور کرتے تھے پرندے سو گئے اچھا ہوا 

کوئی آہٹ کوئی دستک کچھ نہیں کچھ بھی نہیں 
بھولی بسری اک کہانی ہو گئے اچھا ہوا 

ایک مدت سے ہمارے آئینے پہ گرد تھی 
آنسوؤں کے سیل اس کو دھو گئے اچھا ہوا 

بیکلی کوئی نہ تھی تو دل بڑا بے زار تھا 
اب حوادث درد اس میں بو گئے اچھا ہوا 

رنگ اپنا ہو نمایاں شوق بے جا تھا ہمیں 
راستوں کی دھول میں ہم کھو گئے اچھا ہوا 

بے سبب روتا تھا فکریؔ اور رلاتا تھا ہمیں 
اب زمانہ ہو گیا اس کو گئے اچھا ہوا 

پرکاش فکری


سید انور ظہیر

یوم پیدائش 01 اگست 1963

کارِ دنیا میں بہت نام ہمارے دل کا
ابھی دیکھوگے بہت کام ہمارے دل کا

نام پر تیرے دھڑکتا تھا مگرجانے کیوں
نام تو نے کیا بد نام ہمارے دل کا

نہ لگاتے اسے دنیا ترے ہنگام میں گر
برا ہوتا بڑا انجام ہمارے دل کا 

نہ ستارے ہیں ، نہ پتھر ، نہ ہی جگنو رہبر 
پھر بھی روشن ہے ہر اک گام ہمارے دل کا 

سید انور ظہیر



توفیق ساگر

یوم پیدائش 01 اگست 1980

مری سچائی ہر صورت تری مٹھی سے نکلے گی
انگوٹھی گر کے دریا میں کسی مچھلی سے نکلے گی

فقیروں کو تو اپنی شان و شوکت کیا دکھاتا ہے
حکومت سارے عالم کی مری گٹھری سے نکلے گی

میں تنہا ہی نہیں جو بے سبب سچ بول دیتے ہیں
یہ بیماری غریبوں کی ہراک بستی سے نکلے گی

غریبی دور کرنے آسماں سے کون آئے گا
خزانے سے بھری گگری اسی مٹی سے نکلے گی

اندھیرا دیکھنا خود لے کے آئے گا دیا میرا
کسی دن روشنی ساگرؔ اسی آندھی سے نکلے گی

توفیق ساگر


 

تنویر صہبائی

یوم پیدائش 01 اگست 1944

ہر گام پہ ہے کتنے مسائل کا سامنا
اس مختصر حیات میں کیا کیا کرے کوئی

تنویر صہبائی

انور بیگ چمن

یوم پیدائش 01 اگست 1920

جب سے وہ چشمِ التفات نہیں
جی رہا ہوں مگر وہ بات نہیں

ہائے یہ گردشیں زمانے کی
دل مرا مائلِ حیات نہیں

جی حضوری نہیں مرا شیوہ
مصلحت میرے بس کی بات نہیں

ایسا برہم ہوا جہاں کا نظام
کوئی آسودۂ حیات نہیں

تجھ کو قدرِ حیات کیا معلوم
تو ابھی وقفِ حادثات نہیں

جب چمنؔ چار سو اندھیرے ہوں
کیسے کہہ دوں یہ دن ہے رات نہیں

انور بیگ چمن

 

وفا ملک پوری

یوم پیدائش 01 اگست 1923

ہر ایک آنکھ کو ذوق جمال دے یا رب
دلوں کو عشق و وفا کا جلال دے یا رب

ہے میرے ذہن رسا میں جو اک تصور حق
مرا قلم اسی سانچے میں ڈھال دے یا رب

زباں سے بات جو نکلے ہمیشہ حق نکلے
لسان صدق کو حسن مقال دے یا رب

اس عہد زور میں اس کا سنبھلنا مشکل ہے
تو ہی شریفوں کی پگڑی سنبھال دے یا رب

کھٹک رہا ہے دلوں میں مرے حریفوں کے
بہت دنوں سے جو کانٹا نکال دے یا رب

نفس میں گرمیٔ ایمان بوزر و سلماں
دلوں میں سوز اویس و بلال دے یا رب

جو خواہشوں میں گھرا ہو وہ تجھ سے کیا مانگے
تجھے جو دینا ہے وہ بے سوال دے یا رب

وفا ملک پوری


یوم پیدائش 01 اگست 1923

تمام رات وہ جاگا کسی کے وعدے پر 
وفا کو آ ہی گئی نیند رات ڈھلنے پر 

جو سب کا دوست تھا ہر انجمن کی رونق تھا 
کل اس کی لاش ملی اس کے گھر کے ملبے پر 

وہ ذوق فن ہو کہ شاخ چمن کہ خاک وطن 
ہر اک کا حق ہے مرے خوں کے قطرے قطرے پر 

حقیقتیں نظر آئیں تو کس طرح ان کو 
تعصبات کی عینک ہے جن کے چہرے پر 

چمن میں یوں تو تھے کچھ اور آشیاں لیکن 
گری جو برق تو میرے ہی آشیانے پر 

کرم مجھی پہ تھا سب باغبان‌ و گلچیں کا 
کسی نے قید کیا اور کسی نے نوچے پر 

یہ دشت حزن ہے کرب و بلا کا صحرا ہے 
چلے گا کون یہاں اب وفاؔ کے رستے پر

وفا ملک پوری




 

مہندر پرتاپ چاند

یوم پیدائش 01 اگست 1935

جو نیکیوں سے بدی کا جواب دیتا ہے 
خدا بھی اس کو صلہ بے حساب دیتا ہے 

اسی کے حکم سے گھر بار اجڑ بھی جاتے ہیں 
وہی پھر ان کو بسانے کے خواب دیتا ہے 

بشر پہ قرض جو ہوتے ہیں کار ہائے جہاں 
تمام عمر وہ ان کا حساب دیتا ہے 

غرض یہ ہے نہ ہو فکر و عمل میں کوتاہی 
خدا دلوں کو اگر اضطراب دیتا ہے 

قصور اس میں بھی ہے والدین کا شاید 
جو بچہ ان کو پلٹ کر جواب دیتا ہے 

کٹی ہے عمر عذابوں میں دیکھنا ہے اب 
مزید کیا دل خانہ خراب دیتا ہے 

وہ آزماتا ہے کانٹوں سے صبر انساں کا 
پھر اس کے بعد مہکتے گلاب دیتا ہے 

سوال دید و ملاقات کر چکے ہیں چاندؔ 
اب آگے دیکھیے وہ کیا جواب دیتا ہے

مہندر پرتاپ چاند


 

شاہد صدیقی

یوم وفات 31 جولائی 1962

اے باغباں یہ جبر ہے یا اختیار ہے 
مرجھا رہے ہیں پھول چمن میں بہار ہے 

شاید اسی کا نام غم روزگار ہے 
وہ مل گئے تو اور بھی دل بے قرار ہے 

میں صاحب چمن ہوں مجھے اعتبار ہے 
شام خزاں کے بعد ہی صبح بہار ہے 

رہبر نے قافلے ہی کو مجبور کہہ دیا 
اب وہ قدم بڑھائے جسے اختیار ہے 

کلیاں ہیں زرد زرد فضائیں ہیں سرد سرد 
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں یہ فصل بہار ہے 

یوں تو نہ رک سکے گا ستم کا یہ سلسلہ 
جو کشتۂ ستم ہے وہی شرمسار ہے 

دیکھی ہیں میں نے باغ کی وہ حالتیں کہ اب 
میرے لئے خزاں کا نہ ہونا بہار ہے 

ثابت ہوا کہ رونق محفل ہے کوئی اور 
محفل جمی ہوئی ہے مگر انتظار ہے 

ہر صاحب جنوں کا گلستاں پہ حق نہیں 
جس کا لہو بہا ہے اسی کی بہار ہے

شاہد صدیقی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...