Urdu Deccan

Wednesday, August 17, 2022

سلمی صنم

یوم پیدائش 04 اگست

گلہ تم سے کوئی ہمارا نہ ہوتا 
مٹانا جو ٹہرا سنوارا نہ ہوتا

قفس میں اگر ساتھ ہمدم کا ملتا
فسردہ پرندہ بیچارا نہ ہوتا

زمانہ بڑے شوق سے دیکھتا ہے
ہمارا وجود اک نظارا نہ ہوتا

اگر کوئی تتلی کبھی ہاتھ آتی
تو بچپن کبھی اس کا ہارا نہ ہوتا

میں جان بہاراں بھلا کیسے بنتی
خزاں نے مجھے گر نکھارا نہ ہوتا

میں بار غم زندگی سہہ نہ پاتی
اگر کوئی میرا سہارا نہ ہوتا

صنم کو اگر شعر گوئی نہ آتی
کوئی کرب اس کو گوارا نہ ہوتا

سلمی صنم


 

شمس افتخاری

یوم پیدائش 04 اگست 1969

اک ذرا توقیر پانے کے لیے
جھوٹ کتنا بولتا ہے آدمی

شمس افتخاری



سیفی اعظمی

یوم پیدائش 04 اگست 1945

جو موج تند میں ہوش و حواس کھوتے ہیں
وہ اپنی کشتیاں خود آپ ہی ڈبوتے ہیں
 
وفا کی بھیک حسینوں سے مانگنے والے
بڑے عجیب ہیں ، پتھر پہ بیج بوتے ہیں

کسی کی یاد میں دہلیز پر دیئے نہ جلا
کواڑ سوکھی ہوئی لکڑیوں کے ہوتے ہیں

یہ شہر، شہر خموشاں ہے دیکھتے جاؤ
اسی کی گود میں سب لوگ آکے سوتے ہیں

خدا کے واسطے برباد کر نہ اشکوں کو
یہ وہ گہر ہیں کہ دامن ہی میں پروتے ہیں

قصاس خوں کا مرے کون ہے جو مانگے گا
حضور کس لئے دامن کو آپ دھوتے ہیں

کرم وہ کیوں نہ کرے گا، کہ حضرت سیفی
شراب پی کے سہی، غفلتوں پہ روتے ہیں

 سیفی اعظمی



روحی کنجاہی

یوم پیدائش 04 اگست 1936

میرے لیے وہ شخص مصیبت بھی بہت ہے
سچ یہ بھی ہے اس کی مجھے عادت بھی بہت ہے

ملتا ہے اگر خواب میں ملتا تو ہے کوئی
اس کی یہ عنایت یہ مروت بھی بہت ہے

اس نے مجھے سمجھا تھا کبھی پیار کے قابل
خوش رہنا ہو تو اتنی مسرت بھی بہت ہے

الفت کا نبھانا تو بڑی بات ہے لیکن
اس دور میں اظہار محبت بھی بہت ہے

جانے پہ بضد ہے تو کہوں اس کے سوا کیا
اے دوست تری اتنی رفاقت بھی بہت ہے

اک فاصلہ قائم ہے بدستور بہ ہر حال
حاصل مجھے اس شخص کی قربت بھی بہت ہے

جینا تو پڑے گا ہی بغیر اس کے بھی روحیؔ
حالانکہ مجھے اس کی ضرورت بھی بہت ہے

روحی کنجاہی



منظر ایوبی

یوم پیدائش 04 اگست 1932

شہر کا شہر حریف‌ لب و رخسار ملا 
نام میرا ہی لکھا کیوں سر دیوار ملا 

سوچتے سوچتے دھندلا گئے یادوں کے نقوش 
فکر کو میرے نہ اب تک لب اظہار ملا 

مشتہر کر دیا اتنا تری چاہت نے مجھے 
نام گھر گھر میں مرا صورت اخبار ملا 

جس کی قربت کو ترستا تھا زمانہ کل تک 
آج وہ شخص اکیلا سر بازار ملا 

میری سچائی کو اس وقت سراہا تو نے 
سر پہ جب باندھ کے میں جھوٹ کی دستار ملا 

آنکھوں آنکھوں ہی میں لہرائیں بہاریں منظرؔ 
اک شجر بھی نہ بھرے باغ میں پھل دار ملا 

منظر ایوبی



شکیل بدایونی

یوم پیدائش 03 اگست 1916

آج پھر گردش تقدیر پہ رونا آیا 
دل کی بگڑی ہوئی تصویر پہ رونا آیا 

عشق کی قید میں اب تک تو امیدوں پہ جئے 
مٹ گئی آس تو زنجیر پہ رونا آیا 

کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں 
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا 

پہلے قاصد کی نظر دیکھ کے دل سہم گیا 
پھر تری سرخئ تحریر پہ رونا آیا 

دل گنوا کر بھی محبت کے مزے مل نہ سکے
اپنی کھوئی ہوئی تقدیر پہ رونا آیا

کتنے مسرور تھے جینے کی دعاؤں پہ شکیلؔ
جب ملے رنج تو تاثیر پہ رونا آیا

شکیل بدایونی 



محمد باقر شمس

یوم پیدائش 03 اگست 1909

رسوا کرے مجھے کہ اسیرِ بلا کرے
جو چاہے وہ میرا دل درد آشنا کرے

راضی ہو میں وہ قتل کرے یا جفا کرے
بس میں کسی کے دل نہ کسی کو خدا کرے

موسیٰ نہ تاب لائے تبسم کی ایک دن
میں چاہتا ہوں روز یہ بجلی گرا کرے

میری طرح کا دل نہ کسی کو نصیب ہو
انکی طرح جواں نہ کسی کو خدا کرے

مقصود امتحاں مری ہمت کا ہے اگر
ہر روز آشیانہ پہ بجلی گرا کرے

بے کھٹکے آؤ حشر میں الٹے ہوئے نقاب
کس کی مجال ہے، جو تمہارا گلا کرے

ہاں! مسکرا کے ناز سے انگڑائی لیجیے
بجلی کسی کے دل پہ گرے تو گرا کرے

جس دل کی، شمسؔ! کوئی نہ حسرت نکل سکے
مر جائے وہ غریب تو آخر وہ کیا کرے

محمد باقر شمس


 

مہدی حسین خالص

یوم پیدائش 03 اگست 

مانا کہ بادشاہ و سکندر نہیں ہوں میں 
لیکن کسی کے باپ کا نوکر نہیں ہوں میں 

میں تھک چکا ہوں کرتے ہوئے خود کا انتظار 
کب تک کہونگا سب سے کہ گھر پر نہیں ہوں میں 

کس کو صدائیں دیتے ہو کس کو بلاتے ہو 
تم سے کہا نا اب مِرے اندر نہیں ہوں میں 

تو دانے ڈال میں نہیں آؤنگا جال میں 
شاہین ہوں کہ کوئی کبوتر نہیں ہوں میں 

یوں مجھ کو جان جان بلانا فضول ہے 
گر تجھ کو تیری جان سے بڑھ کر نہیں ہوں میں 

اب ایسی ویسی آنکھوں کو آتا ہوں میں نظر 
افسوس تیری آنکھوں کا منظر نہیں ہوں میں 

مہدی حسین خالص


 

ریحان خورشید رانا

یوم پیدائش 03 اگست 

برف ہوں دھوپ کھا رہی ہے مجھے
رائیگانی رلا رہی ہے مجھے

خود کو پہچاننے سے پہلے تک
ایک ہستی خدا رہی ہے مجھے

ایک در ہوں میں اور کچھ بھی نہیں
تیری دستک ڈرا رہی ہے مجھے

اپنے کانوں پہ رشک آتا ہے
تیری آواز آرہی ہے مجھے

ریحان خورشید رانا



شباب للت

یوم پیدائش 03 اگست 1933

حد ستم نہ کر کہ زمانہ خراب ہے 
ظالم خدا سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے 

اتنا نہ بن سنور کہ زمانہ خراب ہے 
میلی نظر سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے 

بہنا پڑے گا وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ 
بن اس کا ہم سفر کہ زمانہ خراب ہے 

پھسلن قدم قدم پہ ہے بازار شوق میں 
چل دیکھ بھال کر کہ زمانہ خراب ہے 

کچھ ان پہ غور کر جو تقاضے ہیں وقت کے 
ان سے نباہ کر کہ زمانہ خراب ہے 

آ غرق جام کر دیں ملے ہیں جو رنج و غم 
پیمانہ میرا بھر کہ زمانہ خراب ہے

گر بے ٹھکانہ ہیں تو نہیں شرمسار ہم 
اب کیا بنائیں گھر کہ زمانہ خراب ہے 

محنت شعور تجربہ تعلیم و تربیت 
سب کچھ ہے بے اثر کہ زمانہ خراب ہے 

دو روٹیاں نہیں نہ سہی ایک ہی سہی 
اس پر ہی صبر کر کہ زمانہ خراب ہے

شباب للت


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...