Urdu Deccan

Saturday, August 20, 2022

ظفر احمد صدیقی

یوم پیدائش 10 اگست 1955
دعا
اے خدا شمع محبت کو فروزاں کر دے 
داغ دل کو مرے صد رشک گلستاں کر دے 

جن کی راحت کو ہے خاموشئ ساحل کی تلاش 
ان کی ہمت کو پھر آوارۂ طوفاں کر دے 

جن کا دل ڈھونڈھتا ہے گوشۂ خلوت کا سکوں 
صورت نکہت گل ان کو پریشاں کر دے 

دور افتادۂ منزل کو وہ ہمت مل جائے 
جو ہر اک مرحلۂ شوق کو آساں کر دے 

دل مردہ کو ہو وہ جذبۂ بے تاب عطا 
مرض پستیٔ ملت کا جو درماں کر دے 

رو میں یہ موجۂ باطل کی بہا جاتا ہے 
فضل سے اپنے مسلماں کو مسلماں کر دے 

ظفر احمد صدیقی 


 

مشتاق جاوید

یوم پیدائش 10 اگست 1945

جب سے مری جاناں نے پھیری ہے نظر اپنی
بے کیف ہے حد درجہ یہ شام و سحر اپنی

پُرشور ہواؤں نے کیا حال کیا سب کا
اب خیر مناتی ہے ہر شاخِ شجر اپنی

جس روز سے گزرا ہے لشکر کسی ظالم کا
اس دن سے لرزتی ہے یہ راہ گزر اپنی

کل جس نے اجاڑی تھی دنیا مرے ارماں کی
کیوں اس کے دریچے پر رہتی ہے نظر اپنی

ہر ہاتھ میں پتھر ہے ، ہر راہ میں کانٹے ہیں
ہو زیست بھلا کیسے پھولوں کی بسر اپنی

پُرکھوں کی وراثت کے ہم لوگ امیں ٹھہرے
دنیا میں جدا سب سے ہے یار ڈگر اپنی

تنہائی کے عالم میں یہ سوچتا رہتا ہوں
اس شوخ کی باتوں سے کیوں چشم ہے تر اپنی

ہر سمت سے راہوں میں خنجر ہی چلے ہم پر
”اب اور سنائیں کیا رودادِ سفر اپنی“

جب توڑ لیا تم نے ہر رشتۂ دل ہم سے
کیوں ڈھونڈتی رہتی ہے پھر تم کو نظر اپنی

یہ کیسے جزیرے میں پہنچے ہیں قدم اپنے
جس جا نہیں ملتی ہے جاوید خبر اپنی

مشتاق جاوید 


 

آفتاب عرشی

یوم پیدائش 09 اگست 1986

قاتلِ جاں ہے مگر جان سے پیارا پھر بھی
غیر کا ہو کے بھی لگتا ہے ہمارا پھر بھی

یہ الگ بات بھنور کے ہیں تقاضے اپنے
ڈوبتے ڈوبتے ساحل کو پکارا پھر بھی

زندگی ڈال نہ یوں مجھ پہ حقارت کی نظر
جیسے تیسے ہی سہی تجھ کو گزارا پھر بھی

منزلیں کھو ہی گئیں عرشیؔ مسافت میں مگر
کوئی دیتا ہی رہا مجھ کو سہارا پھر بھی

آفتاب عرشی



ترنم ریاض

یوم پیدائش 09 اگست 1960

بسر گر یوں ہی ہو تو کیا فائدہ ہے 
یہی زندگی ہو تو کیا فائدہ ہے 

ادھر میرے گھر میں نہیں کوئی کھڑکی 
ادھر چاندنی ہو تو کیا فائدہ ہے 

عیاں ہے نظر سے تری چور دل کا 
زباں قند سی ہو تو کیا فائدہ ہے 

مروت میں کوئی کہاں تک نبھائے 
کہ جاں پر بنی ہو تو تو کیا فائدہ ہے

ترنم ریاض



ارمان نجمی

یوم پیدائش 09 اگست 1940

گرتے ابھرتے ڈوبتے دھارے سے کٹ گیا 
دریا سمٹ کے اپنے کنارے سے کٹ گیا 

موسم کے سرد و گرم اشارے سے کٹ گیا 
زخمی وجود وقت کے دھارے سے کٹ گیا 

کیا فرق اس کو جڑ سے اکھاڑا گیا جسے 
ٹکڑے کیا تبر نے کہ آرے سے کٹ گیا 

تنہائی ہم کنار ہے صحرا کی رات بھر 
کیسے میں اپنے چاند ستارے سے کٹ گیا 

چلتا ہے اپنے پاؤں پہ اب آن بان سے 
اچھا ہوا وہ جھوٹے سہارے سے کٹ گیا 

دیواریں اونچی ہوتی گئیں آس پاس کی 
گھر میرا پیش و پس کے نظارے سے کٹ گیا 

نکلا تھا اک قدم ہی حد احتیاط سے 
شعلوں سے بچنے والا شرارے سے کٹ گیا 

آتا نہیں یقیں کہ نظر اس نے پھیر لی 
کیسے وہ اپنے درد کے مارے سے کٹ گیا

ارمان نجمی



مجید اختر

یوم پیدائش 08 اگست 

دل سے منظور تری ہم نے قیادت نہیں کی 
یہ الگ بات ابھی کھل کے بغاوت نہیں کی 

ہم سزاوار جو ٹھہرے تو سبب ہے اتنا 
حکم حاکم پہ کبھی ہم نے اطاعت نہیں کی 

ہم نے مالک تجھے مانا ہے تو سچا مانا 
اس لیے تیری کبھی جھوٹی عبادت نہیں کی 

دوستی میں بھی فقط ایک چلن رکھا ہے 
دل نے انکار کیا ہے تو رفاقت نہیں کی 

تو نے خود چھوڑا محبت کا سفر یاد تو کر 
میں نے تو تجھ سے الگ ہو کے مسافت نہیں کی 

جھوم اٹھے گا اگر اس کو سناؤں جا کر 
یہ غزل میں نے ابھی نذر سماعت نہیں کی 

اس کو بھی اپنے رویے پہ کوئی عذر نہ تھا 
ہم بھی تھے اپنی انا میں سو رعایت نہیں کی 

یہ تو پھر تجھ سے محبت کا تھا قصہ مری جاں 
میرے کس فعل پہ دنیا نے ملامت نہیں کی 

تو نے چرچے کیے ہر جا مری رسوائی کے 
میں نے خود سے بھی کبھی تیری شکایت نہیں کی 

دوستوں کو بھی رہی وقت کی قلت اخترؔ 
حال دل ہم نے سنانے کی بھی عادت نہیں کی

مجید اختر


 

برج لال رعنا

یوم پیدائش 08 اگست 1914

آپ اپنے رقیب ہیں ہم لوگ 
کس قدر بد نصیب ہیں ہم لوگ 

دولت درد سے ہیں مالا مال 
گو بظاہر غریب ہیں ہم لوگ 

ہم کو ہر حال میں اجڑنا ہے 
عاشقوں کا نصیب ہیں ہم لوگ 

جتنے اپنی خودی سے دور ہوئے 
اتنے ان سے قریب ہیں ہم لوگ 

پھر نہ سنورے بگڑ کے ہم شاید 
دشمنوں کا نصیب ہیں ہم لوگ 

موت سے کھیلتے ہیں شام و سحر 
زندگی کے قریب ہیں ہم لوگ 

ان کی نظروں سے دور ہیں پھر بھی 
ان کے دل سے قریب ہیں ہم لوگ 

ہم سے پوچھو حقیقتیں غم کی 
دیر سے غم نصیب ہیں ہم لوگ 

کس کو جا کر سنائیں حال اپنا 
اجنبی ہیں غریب ہیں ہم لوگ 

دوش ہستی پہ ہار ہیں رعناؔ 
آج کل کے ادیب ہیں ہم لوگ

برج لال رعنا


 

عاصی فائقی

یوم پیدائش 08 اگست 1930

پرانے لوگ نئے کاروبار دیتے ہیں 
خزاں خرید کے فصل بہار دیتے ہیں 

ضرور ان کو محبت سے واسطہ ہوگا 
جو رنج و غم کے عوض ہم کو پیار دیتے ہیں 

شب وصال کی لذت انہیں نصیب ہوئی 
جو انتظار کی گھڑیاں گزار دیتے ہیں 

ہمارے اشک محبت میں قیمتی ٹھہرے 
غم حیات کی قسمت سنوار دیتے ہیں 

ملن کی رت پہ بشر کیا درخت اور پودے 
سب اپنی اپنی قبائیں اتار دیتے ہیں 

ہماری جان کی قیمت چکا رہے ہیں وہ 
ملا کے خاک میں مشت غبار دیتے ہیں 

ہم اپنے آپ میں خود با وقار ہیں عاصیؔ 
جو بے وقار ہیں اپنا وقار دیتے ہیں

عاصی فائقی



Thursday, August 18, 2022

نثار نیپالی

یوم پیدائش 08 اگست 1950

منتظر جس کا میں ہر لمحہ رہا کرتا تھا
مل کے اس شخص سے کیوں آج بچھڑنا چاہوں

نثار نیپالی



افضال عاقل

یوم پیدائش 08 اگست 1966

عکسِ امید نگاہوں میں اتر تو آیا
صحنِ ظلمات میں اک چاند نظر تو آیا

فکر کی چھاؤں میں رہ رو کو ٹھہرنے کے لیے
خیر سے راہوں میں اک ایسا شجر تو آیا

بہہ گیا سیلِ حوادث میں وجود اپنا مگر
بعد سیلاب ستاروں کا نگر تو آیا

دشمنوں کو بھی گلے ہنس کے لگا لیتا ہے
لے کے پیغامِ وفا ایسا بشر تو آیا

آخری وقت میں بیمار کی پرشس کے لیے
ایک پل کو ہی سہی وہ مرے گھر تو آیا

سنگ ساروں میں وہ آئینہ بنا بیٹھا ہے
آئینہ داری کا بے باک ہنر تو آیا

حوصلہ ہنس کے بڑھاتا ہے جہادِ غم میں
ایسا اک شخص مقدر سے نظر تو آیا

سن کے حالاتِ زبوں وہ بھی تڑپ اٹھا ہے
دلِ ناداں کو تڑپنے کا ہنر تو آیا

مقتلِ عشق سے ناکام نہ لوٹا عاقل
زندگانی میں مری کام یہ سر تو آیا

افضال عاقل



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...