Urdu Deccan

Saturday, August 20, 2022

شمیم ہاشمی

یوم پیدائش 14 اگست 1947

چاہا بیاں کروں جوں ہے میرے خیال میں 
معنی الجھ کے رہ گئے لفظوں کے جال میں 

جیتا ہے کون بحث میں مورکھ سے آج تک 
بے کار کیوں الجھتے ہو تم قیل و قال میں 

لے جانے والے لوٹ کے سب کچھ چلے گئے 
ہم سوچتے ہی رہ گئے کالا ہے دال میں 

ممکن ہے ان کے در سے ٹکا سا ملے جواب 
لیکن نہ ہچکچائیے اپنے سوال میں 

رشتے کی بات کون کسی سے کرے یہاں 
اپنا بنا کے لوگ پھنساتے ہیں جال میں 

پھولوں کا دل کلی کی تمنا مری دعا 
کام آئے رنگ بن کے تمہارے جمال میں 

رکھتے ہیں ناپ تول کے وہ ہر قدم شمیمؔ 
پیاری لگے ہے ان کی ادا ٹیڑھی چال میں

شمیم ہاشمی


 

شاداب احسانی

یوم پیدائش 14 اگست 1957

اپنے جب عکس کو دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ایک دن ذات کا نشّہ بھی اتر جائے گا

آنکھیں برسات میں جب تیری گواہی دیںگی
ریت پر نام لکھا ہے وہ ابھر جائے گا

چاند کے پاس رکھی ہیں مری آنکھیں گروی
اس طرح قرض جو واجب ہےاتر جائے گا

آسماں پر جو ستارا ہے اسے مت دیکھو
دن سے پہلے نہ یہاں سے کوئی گھر جائے گا

صورتِ شعر ہی احکامِ خدا پر اب چل
ورنہ شاداب سمے یہ بھی گزر جائے گا

شاداب احسانی


 

رخسانہ نازی

یوم پیدائش 14 اگست 1972

دل میں شوقِ جمال رکھتی ہوں
اک عجب سا خیال رکھتی ہوں

زیست کی تلخیوں میں جینے کی
آپ اپنی مثال رکھتی ہوں

کیا کروں بے بسی کا عالم ہے
زندگی کا ملال رکھتی ہوں

لاکھ بھولیں مجھے وہ اے نازی
میں انہی کا خیال رکھتی ہوں

رخسانہ نازی



آغا شورش کاشمیری

یوم پیدائش 14اگست1917
امام الشہدا ( حضرت حسینؓ )

ٹل نہیں سکتا کسی حالت میں فرمان حسینؓ
ثبت ہے تاریخ کے چہرے یہ عنوان حسینؓ

معصیت سے بھی سوا ہے طاقت فسق و فجور
تھا کتاب اللہ کی تفسیر اعلان حسینؓ

سر کٹا کے دین ابراہیم کو زندہ کیا
دین قیم کا مرقع تھے جوانان حسینؓ

بڑھ گئی ان کے لہو سے کربلا کی آبرو
بن گیا تاریخ کی آواز میدان حسینؓ

ان کے ہونٹوں کو رسول اللہ نے بوسہ دیا
میں لکھوں، کیسے لکھوں، کیونکر لکھوں شان حسینؓ

منقبت شبیر کی انسان کے بس میں نہیں
حشر تک دونوں جہاں ہیں مرتبہ دان حسینؓ

جب کبھی ایثار و قربانی کی منزل آگئی
دیدہ و دل ٰمیں ترازو ہو گئی آن حسینؓ

مجھ میں وہ بوتا کہاں ان کی ثنا خوانی کروں
خود رسول اللہ ہیں شورش ثنا خوان حسینؓ

 آغا شورش کاشمیری



ریاض ندیمؔ نیازی

یوم پیدائش 13 اگست 1968

رسولِ پاکؐ کے در پر جو سر جھکاتے ہیں
خدا کی ذات کا بس وہ سراغ پاتے ہیں

وہ بے نوائوں کو دیتے ہیں عزت و تکریم
حقیر لوگوں کو وہ معتبر بناتے ہیں

زمانہ چلتا ہے پھر اُن کے آسرے پہ تمام
مِرے رسولؐ کو جو آسرا بناتے ہیں

رہِ حبیبِ خدا سے جو ہٹ کے چلتے ہیں
وہ ہر مقام پہ آخر فریب کھاتے ہیں

ہمارے ساتھ پرندے بھی باغِ طیبہ کے
تمھاری نعت بہ صد شوق گنگناتے ہیں

اُنھی کو مِلتا ہے قربِ خدا ندیمؔ فقط
جو اپنا ملجیٰ و ماویٰ اُنھیںؐ بناتے ہیں

ریاض ندیمؔ نیازی


 

طفیل احمد جمالی

یوم وفات 12 اگست 1974

پھر ہوئے بدنام،کہلانے لگے فرزانہ ہم
پھر کسی بستی میں آ نکلے دلِ دیوانہ ہم

ایک تنہا دل ، بھٹکتی روح ، اک پیاسی نظر
اے جنوں تیرے لیے لائے ہیں کیا پروانہ ہم

تیشہء فرہاد سے لے کر بہرِ دورِ فلک
آج تک دہرا رہے ہیں ایک ہی افسانہ ہم

انقلابِ میکدہ کی بات یوں کرتے ہیں لوگ
جیسے ہوں نا آشنائے ساقئ میخانہ ہم

اُس جہان دوش و فردا و بلند و پست سے
کتنی دور اور آ گئے اے لغزشِ مستانہ ہم

منظرِ دار و رسن میں ہم الجھ کر رہ گئے
ورنہ نکلے تھے بعزمِ کوچہء جانانہ ہم

چاند تاروں کے کھلنے مانگتے ہیں چرخ سے
اے جمالیؔ لائے ہیں کیا فطرتِ طفلانہ ہم

طفیل احمد جمالی

 

 

ذیشان الہی

یوم پیدائش 12 اگست 1990

بس تری حد سے تجھے آگے رسائی نہیں دی
میں نے گالی تو کوئی اے مرے بھائی نہیں دی

مجھکو ہر فکر سے آزاد سمجھنے والے
میرے ماتھے کی شکن تجھکو دکھائی نہیں دی

دل میں اک شور اٹھا ہاتھ چھڑانے سے ترے 
دیر تک پھر کوئی آواز سنائی نہیں دی

پھول کاڑھے ہیں مرے تلووں پہ وحشت نے مری
تپتے صحرا نے مجھے آبلہ پائی نہیں دی

ایک دوجے سے یوں وابستہ ہوئے ہم دونوں 
میں نے چاہا نہیں اس نے بھی رہائی نہیں دی

وصل آیا تھا ترے ہجر کا سودا کرنے
عشق کی ہم نے مگر پہلی کمائی نہیں دی

ہاتھ کیا سوچ کے کھینچا ہے ستم سے اس نے
میں نے زخموں کی تو ذیشان دہائی نہیں دی

ذیشان الہی



قمر الدین قمر

یوم پیدائش 12 اگست 1961

زور بازو کے چل گیا پتھر
مجھ سے آگے نکل گیا پتھر

اتنی شدت کہاں تھی شعلوں میں
کیسے آخر پگھل گیا پتھر

انگلیوں کی کرشمہ سازی ہے
کتنے سانچے میں ڈھل گیا پتھر

صرف چوما تھا میں نے پھولوں کو
جانے کیوں مجھ سے جل گیا پتھر

کتنی شہ زور تھیں قمر موجیں
سنگ ریزوں میں ڈھل گیا پتھر

قمر الدین قمر


 

ریحانہ بیگم

یوم پیدائش 12 اگست 1960

آپ کمزور کسی شے کو نہ ہرگزسمجھیں
ایک شعلہ بھی نشیمن کو جلاسکتا ہے

ریحانہ بیگم


 

محمد علی ظہوری

یوم پیدائش 12 اگست 1932

جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئے
اللّٰه کی رحت کے آثار نظر آئے

منظر ہو بیاں کیسے، الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمدﷺ کا دربار نظر آئے

بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی
پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے

دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں رہتے
جب سامنے آنکھوں کے غم خوار نظر آئے

مکے کی فضاوں میں، طیبہ کی ہواوں میں
ہم نے تو جدھر دیکھا سرکارﷺ نظر آئے

چھوڑ آیا ظہورؔی میں دل و جان مدینے میں
اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے

محمد علی ظہوری


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...