Urdu Deccan

Sunday, September 18, 2022

خواجہ جاوید اختر

یوم پیدائش 02 سپتمبر 1964

پوچھا ہی نہیں اس نے کبھی حال ہمارا 
بس یوں ہی گزر جاتا ہے ہر سال ہمارا 

رہتی ہے خبر سارے زمانے کی ہمیں بھی 
پھیلا ہے بہت دور تلک جال ہمارا 

مشکل ہے کسی کام کا ہونا بھی یہاں پر 
ہو جاتا ہے ہر کام بہ ہر حال ہمارا 

ہم نے تو نمائش بھی لگائی نہیں پھر بھی 
بازار میں چل جاتا ہے ہر مال ہمارا 

پہچان زمانے سے الگ ہی ہے ہماری 
ملتا نہیں ہر ایک سے سر تال ہمارا 

ممکن ہے کہ بن جائیں شہنشاہ غزل ہم 
ویسے تو ارادہ نہیں فی الحال ہمارا

خواجہ جاوید اختر


 

رحمت الہی برق اعظمی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1911

بہت روشن ہم اپنا نیر تقدیر دیکھیں گے 
جب آغوش تصور میں تری تصویر دیکھیں گے 

حریم دل کے گرداگرد وہ تنویر دیکھیں گے 
جلال مہر انور کو بھی بے توقیر دیکھیں گے

نگاہ دل سے جس دن اسوۂ شبیر دیکھیں گے 
خلیل ﷲ اپنے خواب کی تعبیر دیکھیں گے 

جنون عشق کے الزام میں اے خوش نوا قمری 
گلے میں تو نے دیکھا طوق ہم زنجیر دیکھیں گے 

الم ہو رنج ہو غم ہو بلا ہو شادمانی ہو 
جو تو نے لکھ دیا اے کاتب تقدیر دیکھیں گے 

خدا کی راہ میں سب کچھ لٹا کر بیٹھنے والے 
خدا کی کل خدائی اپنی ہی جاگیر دیکھیں گے 

مرا اعمال نامہ دھل گیا اشک ندامت سے 
فرشتے کیا کریں گے کچھ نہ جب تحریر دیکھیں گے 

ستم گاروں کو مل جائے گا اپنے ظلم کا بدلہ 
کبھی آہ غریباں کو نہ بے تاثیر دیکھیں گے 

محبت ہی بنا اے برقؔ ہے تخلیق عالم کی 
محبت ہی کو ہر عالم میں عالم گیر دیکھیں گے

رحمت الہی برق اعظمی 



بختیار نواز

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1969

ہمارے لب پہ ہماری صدا میں زندہ ہے
وہ حرف حق جو ابھی کر بلا میں زندہ ہے

نہیں ہے پہلی سی شدت مری محبت میں 
مگر کشش تری ہر اک ادا میں زندہ ہے

تمہارے سامنے اظہار کر سکا نہ مگر
طلب تمہاری مری ہر دعا میں زندہ ہے

اسی لئے تو مخالف ہوا ہے شہر مرا
چراغ جاں مرا اب تک ہوا میں زندہ ہے

وہی چراغ ہدایت ہے نسل نو کے لئے
وہ ایک سچ جوا بھی کر بلا میں زندہ ہے

نواز ما نگتے رہنا برائیوں سے نجات
کہ عافیت اسی خوف خدا میں زندہ ہے



بختیار نواز

 

بلقیس ظفیر الحسن

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1938

زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں
اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں

زخم کا اپنے مداوا کسے منظور نہیں
ہاں مگر کیوں کسی قاتل کو مسیحا سمجھیں

شعبدہ بازی کسی کی نہ چلے گی ہم پر
طنز و دشنام کو کہتے ہو لطیفہ سمجھیں

خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے
ہم تو شعلوں سے نہ گزریں گے نہ سیتا سمجھیں

چھوڑیئے پیروں میں کیا لکڑیاں باندھے پھرنا
اپنے قد سے مرا قد، شوق سے چھوٹا سمجھیں

کوئی اچھا ہے تو اچھا ہی کہیں گے ہم بھی
لوگ بھی کیا ہیں ذرا دیکھیے کیا کیا سمجھیں

ہم تو بیگانے سے خود کو بھی ملے ہیں بلقیسؔ
کس توقع پہ کسی شخص کو اپنا سمجھیں

بلقیس ظفیر الحسن


 

انجنا سندھیر

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1960

مدت سے کوئی ان کی تحریر نہیں ملتی 
کچھ دل کے بہلنے کی تدبیر نہیں ملتی 

ہر اک کو نہیں ہوتا عرفان محبت کا
ہر اک کو محبت کی جاگیر نہیں ملتی 

پنجاب کو دیکھو تو اک آگ کا دریا ہے 
کشمیر میں جنت کی تصویر نہیں ملتی 

اس دیش کے لوگوں نے چالیس برس پہلے 
اک خواب تو دیکھا تھا تعبیر نہیں ملتی

انجنا سندھیر



حبیب تنویر

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1923

بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی
زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی

پوچھتے رہتے ہیں غیروں سے ابھی تک میرا حال
آپ تک پہنچے نہیں شاید مرے اشعار ابھی

زندگی گزری ابھی اس آگ کے گرداب میں
دل سے کیوں جانے لگی حرص لب و رخسار ابھی

ہاں یہ سچ ہے سر بسر کھوئے گئے ہیں عقل و ہوش
دل میں دھڑکن ہے ابھی دل تو ہے خود مختار ابھی

کیوں نہ کر لوں اور ابھی سیر بہار لالہ زار
میں نہیں محسوس کرتا ہوں نحیف و زار ابھی

میں نہیں جا پاؤں گا یارو سوئے گلزار ابھی
دیکھنی ہے آبجوئے زیست کی رفتار ابھی

حبیب تنویر


 

منظور عارف

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1924

وہ وصل کی لذت میں گم ہے وہ سوز جدائی کیا جانے 
وہ روگ پرایا کیا سمجھے وہ پریت پرائی کیا جانے 

پروانۂ حسن کا شیدائی پاپی بھنورا رس کا لوبھی 
چاہت کو سودائی سمجھے اس کو ہرجائی کیا جانے 

محفل میں جسے معلوم نہیں احساس کی کروٹ کیا شے ہے 
وہ دل کی سونی وادی میں غم کی انگڑائی کیا جانے 

یہ خاک آلود جواں چہرے گل جن کی قسمیں کھاتے ہیں 
جو آرائش پر مرتا ہو ان کی رعنائی کیا جانے 

عارفؔ اپنا راز الفت یوں ہے جیسے منہ بند کلی 
یہ بھید زمانہ کیا سمجھے یہ راز خدائی کیا جانے

منظور عارف


 

حزیں صدیقی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1922

جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌ گریزاں کو
 ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو

کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی
 کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک رُوئے خنداں کو

کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا
 کبھی ہم بھی جنوں کا حق سمجھتے تھے گریباں کو

کہیں ایسا نہ ہو شیرازہِ ہستی بکھر جائے
 نہ دیکھو اس توجہ سے کسی آشفتہ ساماں کو

کسی کا دوست ہے کوئی نہ کوئی دشمنِ جاں ہے 
حزیں اپنے ہی سائے ڈس گئے کمبخت انساں کو

حزیں صدیقی


 

ندیم شعبانی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1975

بڑی حیرت میں ہے سوزِ نہاں تک
نہیں اُٹھنے دیا میں نے دھواں تک

ترے محلوں کے سنّاٹوں کے صدقے
جہاں گم ہو گیا شورِ فغاں تک

خبر پہنچا دے کوئی سوئے صحرا
بگولےآچکے ہیں گلستاں تک

سرِ تسلیم خم، ہر فیصلے پر
سوال اُٹھتا ہے یہ، آخر کہاں تک

چلو ڈھونڈیں سُراغِ زندگانی
مکاں کی دُور بیں سے ، لامکاں تک

وہ تیشہ زن بھلا اب کیا ملیں گے
جو رکھ دیں کاٹ کر کوہِ گراں تک

ندیمؔ ان چند سانسوں کے سہارے
چلو جیتے ہیں، مرگِ نا گہاں تک

ندیم شعبانی


 

اکرام وارثی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1968

کیا کیا بتائیں آپ کو شام و سحر سے ہم
تنگ آچکے ہیں آج بہت ہر بشر سے ہم

ہم کو ہمارے رب نے عطا کی ہے جب نظر
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

ماں کی دعائیں ساتھ لیں زادِ سفر کے ساتھ
جب بھی چلے سفر کے لیے اپنے گھر سے ہم

صیاد ہوگیا وہیں مقصد میں کامیاب
بازو جہاں سمیٹ لیے اپنے ڈر سے ہم

گھر تک ہمارے آگئیں دنیا کی آفتیں
محروم جب ہوئے ہیں تمھاری نظر سے ہم

ظالم زمانہ جینے نہیں دے گا پھر مجھے
خالی اٹھیں گے آج اگر تیرے در سے ہم

اکرم کبھی اڑے ہیں جو ہم حوصلوں کے ساتھ
آگے بہت نکل گئے شمس و قمر سے ہم

اکرام وارثی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...