Urdu Deccan

Friday, September 23, 2022

سلیم آکاش

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1990

یہ کس نے تم سےکہہ دیاکہ رائیگاں سفرگیا
سفر میں جاں چلی گئ تھی اس کےبعد گھرگیا

غمِ جہان کی مصیبتوں میں ہم کو ڈال کے
یہ بھوت عشق کا ہمارےسرسےیوں اترگیا

یہ کس نےتارِ بےنفٙس کوپھر نفٙس عطا کیا
بکھر بکھر کہ میں سمٹ رہاتھاپھربکھرگیا

سنو کوئی بھی فیصلہ کرو تو پہلے سوچ لو
 کہ میرے دل سے جب کوئی اتر گیا اتر گیا 

کسی نے راستے میں چھوڑا یار کام آ گئے 
میں آدھا جی رہا ہوں آدھا پچھلے سال مر گیا 

سلیم آکاش


 

برہم ناتھ دت قاصر

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1891

یہ اعتراف ہے اس ذاتِ کبریائی کا
کہ خود بتوں کو بھی اقرار ہے خدائی کا

پہنچ گیا وہ ترے آستانِ عالی تک
ملا ہے جادہ جسے عذرِ نارسائی کا

جو عشق کو ہے اِدھر ذوقِ دید کا لپکا
تو حسن کو ہے اُدھر شوق خود نمائی کا

بنایا پیکرِ تصویر محویّت نے مجھے
نہ وصل کی ہے مسرت نہ غم جدائی کا

وہ قتل گاہ میں ہے خنجر آزما قاصر
چلو کہ وقت ہے اب قسمت آزمائی کا

برہم ناتھ دت قاصر



درشن سنگھ

یوم پیدائش 14 سپتمبر 1921

کسی کی شام سادگی سحر کا رنگ پا گئی 
صبا کے پاؤں تھک گئے مگر بہار آ گئی 

چمن کی جشن گاہ میں اداسیاں بھی کم نہ تھیں 
جلی جو کوئی شمع گل کلی کا دل بجھا گئی 

بتان رنگ رنگ سے بھرے تھے بت کدے مگر 
تیری ادائے سادگی مری نظر کو بھا گئی 

میری نگاه تشنہ لب کی سر خوشی نہ پوچھئے 
کے جب اٹھی نگاہ ناز پی گئی پلا گئی 

خزاں کا دور ہے مگر وہ اس ادا سے آئے ہیں 
بہار درشنؔ حزیں کی زندگی پہ چھا گئی

درشن سنگھ



فانی بدایونی

یوم پیدائش 13 سپتمبر 1879

نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا 
وہ بھی اک رخ ہے تری انجمن آرائی کا 

آ چلا ہے مجھے کچھ وعدۂ فردا کا یقیں 
دل پہ الزام نہ آ جائے شکیبائی کا 

اب نہ کانٹوں ہی سے کچھ لاگ نہ پھولوں سے لگاؤ 
ہم نے دیکھا ہے تماشا تری رعنائی کا 

دونوں عالم سے گزر کر بھی زمانہ گزرا 
کچھ ٹھکانا بھی ہے اس بادیہ پیمائی کا 

خود ہی بیتاب تجلی ہے ازل سے کوئی 
دیکھنے کے لیے پردہ ہے تمنائی کا 

لگ گئی بھیڑ یہ دیوانہ جدھر سے گزرا
ایک عالم کو ہے سودا ترے سودائی کا

پھر اسی کافر بے مہر کے در پر فانیؔ
لے چلا شوق مجھے ناصیہ فرسائی کا

فانی بدایونی


 

ثریا شہاب

یوم وفات 13 سپتمبر 2019

اب دل کے دھڑکنے کی صدا بھی نہیں آتی
در بند ہیں ایسے کہ ہوا بھی نہیں آتی

حیران ہوں دو سہمے ہوئے ہاتھ اٹھائے
کیا مانگوں خدا سے کہ دعا بھی نہیں آتی

پر ہول ہے اس طرح سے سناٹے کا عالم
خود اپنی ہی چیخوں کی صدا بھی نہیں آتی

جو درد کے صحرا میں کبھی باد صبا تھی
اب شہر سے تیرے وہ ہوا بھی نہیں آتی

جس بات پہ ہم تیاگ چکے ہیں تری دنیا
وہ بات انھیں یاد ذرا بھی نہیں آتی

ثریا شہاب


 

عائشہ بیگ عاشی

,یوم پیدائش 13 سپتمبر 

جو میری سوچوں کو روشنی دیں
نظر میں سورج اُگا رہی ہوں

سخن کی شاخِ خیالِ نو پر
میں رنگ و خوشبو کِھلا رہی ہوں

سجا کے حرفوں میں چاند تارے
رُخِ غزل جگمگا رہی ہوں

کشید کر کے گُلوں سے رنگت
دھنک زمیں پر سجا رہی ہُوں

حصار کر کے محبتوں کا
دِیے ہوا میں جلا رہی ہوں

ازل سے آبِ حیات عاشی
امیدِ جاں کو پلا رہی ہوں

عائشہ بیگ عاشی



نورالدین ثانی

یوم پیدائش 13 سپتمبر 1979

جو کچھ تھا میرے پاس وہ جاگیر بیچ کر
سپنے خرید لایا ہوں تعبیر بیچ کر

دیکھا گیا تڑپنا نہ بچوں کا بھوک سے
لایا ہے روٹی غازی بھی شمشیر بیچ کر

ماحول کر رہا ہے اشارہ یہ دیش کا 
گوبر خریدا جائے گا انجیر بیچ کر 

آپس میں مسلکی، جو لڑائی کے ہیں سبب
آرام سے وہ سوئے ہیں تقریر بیچ کر

 نورالدین ثانی


 

سراج آغازی جبلپور

یوم پیدائش 13 سپتمبر 1957

ہم تری راہ میں ثابت قَدَمی سیکھ گئے
نقشِ پا پڑھکے ترے راہبری سیکھ گئے

مکتَبِ عشق میں ہر چال تری سیکھ گئے
"ہم کہ چھوٹے ہیں مگر بات بڑی سیکھ گئے"

ہے نئے دور کی آوارہ ہواؤں کا اثر
تھے مہذب جو سبھی بے اَدَبی سیکھ گئے

مشکلیں کر کے وہ تقسیم پریشاں ہی رہے
مشکلیں جھیل کے ہم چارہ گری سیکھ گئے

غیر تو غیر تھے اپنوں کی نظر سے بھی گرے
بات ہم وقت پہ جب کرنا کھری سیکھ گئے

سوگئے ہم جو نمائش کدے میں رکھکے عصا
بچّے اس شہر کے سب جادوگری سیکھ گئے

پڑھکے آیاتِ وِلا کرتے ہی دم ان پہ سراج
دلّگی بھول کے وہ دل کی لگی سیکھ گئے

 سراج آغازی جبلپور


 

افسر دکنی

یوم پیدائش 13 سپتمبر 1949
ماں
ترے سائے میں مجھ کو راحت ہے ماں
ترے پاؤں کے نیچے جنت ہے ماں 

ترے کتنے احسان ، سر پر مرے
 حقیقت ہے ماں یہ حقیقت ہے ماں
  
میں تا عمر بس تیری خدمت کروں
یہی تو مرے دل کی حسرت ہے ماں

مجھے رات دن ، یاد آتی ہے تو
یہ میرے لئے اک سعادت ہے ماں

سکھائے ہیں آداب ، تونے مجھے
ترا پیار ہے اور عنایت ہے ماں

گزر جاؤں گا سخت راہوں سے میں
کہ حاصل مجھے تیری شفقت ہے ماں

افسر دکنی


 

دل ایوبی

یوم پیدائش 13 سپتمبر 1929

جاتے ہوئے نگاہ ادھر کر کے دیکھ لو
ہم لوگ پھر کہاں ہمیں جی بھر کے دیکھ لو

دیتا ہے اب یہی دل شوریدہ مشورہ
جینے سے تنگ ہو تو میاں مر کے دیکھ لو

رہنے کا دشت میں بھی سلیقہ نہیں گیا
یاں بھی قرینے سارے مرے گھر کے دیکھ لو

شاہان کج کلاہ زمیں بوس ہو گئے
تیور مگر وہی ہیں مرے سر کے دیکھ لو

سجدے میں دو جہان ہیں اے دلؔ ہمارے ساتھ
رتبے یہ آستان قلندر کے دیکھ لو 

دل ایوبی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...