Urdu Deccan

Monday, September 26, 2022

نجم آفندی

یوم پیدائش 19 سپتمبر 1893

ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور 
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور 

اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر 
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور 

منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا 
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور 

اللہ گلہ کر کے میں پچھتایا ہوں کیا کیا 
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور 

کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور 

دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم 
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور 

یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو 
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور 

نجم آفندی

علی منظور حیدرآبادی

یوم پیدائش 19 سپتمبر 1896

غم کا گماں یقین طرب سے بدل گیا
احساس عشق حسن کے سانچے میں ڈھل گیا

ساتھ ان کے لے رہا ہوں میں گل گشت کے مزے
یہ خواب ہی سہی مرا جی تو بہل گیا

مجبور عشق چشم فسوں ساز سے ہوں میں
جادو مجھی پہ دوست کا چلنا تھا چل گیا

میں انتظار عید میں تھا عید آ گئی
ارمان دید دامن عشرت میں پل گیا

ہے برق جلوہ یاد مگر یہ نہیں ہے یاد
خرمن مرے غرور کا کس وقت جل گیا

پیمان عشق و حسن کی تجدید کے سوا
جو بھی خیال ذہن میں آیا نکل گیا

بڑھتے چلے ہیں آئے دن اسباب اضطراب
یادش بخیر آج کا وعدہ بھی ٹل گیا

منظورؔ کس زباں سے بتوں کو برا کہیں
ایماں ہمارا کفر کے دامن میں پل گیا

علی منظور حیدرآبادی



اسماعیل ظفر

یوم پیدائش 18 سپتمبر 1949

نہ جانے کون ہے جس کا انتظار مجھے
کسی بھی پہلو نہ ملتا ہے اب قرار مجھے

اگر وہ دوست ہے میرا تو دوریاں کیسی
اگر عدو ہے تو کرنے دے بے قرار مجھے

اگر ہے چاہ کوئی جرم تو سزا دینا
دل و دماغ پہ دے پہلے اختیار مجھے

میں تیری مانگ کو اپنے لہو سے بھر دوں گا
مگر ہے شرط ، محبت سے تو پکار مجھے

زمانے بھر کی خدایا اسے خوشی دے دے
جو کر رہا ہے زمانے میں سوگوار مجھے

مری حیات ، مسلسل غموں کی یورش ہے
ترا کرم ہے ، کیا تو نے شاہ کار مجھے

ہے اعتراف کہ میں ہوں گناہ گار مگر
نہ کرنا روزِ قیامت تو شرم سار مجھے

اسماعیل ظفر


 

نم اعظمی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

کہیں پہ ریت ، کہیں پر ہوں آب جیسا میں
نظر سے حدِّ نظر تک سراب جیسا میں

مرے وجود سے لپٹی ہیں رفعتیں میری
تمھارے شہر میں خانہ خراب جیسا میں

شعاعیں ڈھونڈتی رہتی ہیں میری تعبیریں
اندھیری رات کی پلکوں پہ خواب جیسا میں

مری ہی آگ مجھے روز و شب جلاتی ہے
اسی لیے تو کھلا ہوں گلاب جیسا میں

ہوائے غم نے اڑایا ورق ورق مجھ کو
فضائے دل میں ہوں بکھری کتاب جیسا میں

نم اعظمی


 

شوکت عظیم

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

ہماری روح وہ صندل کا پیڑ ہے جس میں
لپٹ گئی ہے تری یاد ناگنوں کی طرح

شوکت عظیم


 

ذیشان نیازی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1974

کہاں دریا کی طغیانی سے نکلا 
تعلق ریت کا پانی سے نکلا 

کسی کی یاد کا کانٹا تھا دل میں 
بہت مشکل تھا آسانی سے نکلا 

گریباں چاک آوارہ پریشاں 
جنوں صحرا کی ویرانی سے نکلا 

چمکتے چاند کا رشتہ بھی یارو 
رخ جاناں کی تابانی سے نکلا 

جو منظر مصرع اولیٰ میں گم تھا 
وہ منظر مصرع ثانی سے نکلا 

علاج درد دل ذیشانؔ دیکھا 
جنوں کی چاک دامانی سے نکلا 

ذیشان نیازی 



تحسین فراقی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1950

مجھ سا انجان کسی موڑ پہ کھو سکتا ہے 
حادثہ کوئی بھی اس شہر میں ہو سکتا ہے 

سطح دریا کا یہ سفاک سکوں ہے دھوکا 
یہ تری ناؤ کسی وقت ڈبو سکتا ہے 

خود کنواں چل کے کرے تشنہ دہانوں کو غریق 
ایسا ممکن ہے مری جان یہ ہو سکتا ہے 

بے طرح گونجتا ہے روح کے سناٹے میں 
ایسے صحرا میں مسافر کہاں سو سکتا ہے 

قتل سے ہاتھ اٹھاتا نہیں قاتل نہ سہی 
خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ تو دھو سکتا ہے 

جھوم کر اٹھتا نہیں کھل کے برسنا کیسا 
کیسا بادل ہے کہ ہنستا ہے نہ رو سکتا ہے 

جز مرے رشتۂ انفاس گرہ گیر میں کون 
گہر اشک شرر بار پرو سکتا ہے

تحسین فراقی



ظفر مرادآبادی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1951

تمام رنگ جہاں التجا کے رکھے تھے 
لہو لہو وہیں منظر انا کے رکھے تھے 

کرم کے ساتھ ستم بھی بلا کے رکھے تھے 
ہر ایک پھول نے کانٹے چھپا کے رکھے تھے 

سکون چہرے پہ ہر خوش ادا کے رکھے تھے 
سمندروں نے بھی تیور چھپا کے رکھے تھے 

مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند 
دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے تھے 

وہ جس کی پاک اڑانوں کے معترف تھے سب 
جلے ہوئے وہی شہپر حیا کے رکھے تھے 

بنا یزید زمانہ جو میں حسین بنا 
کہ ظلم باقی ابھی کربلا کے رکھے تھے 

انہیں کو توڑ گیا ہے خلوص کا چہرہ 
جو چند آئنے ہم نے بچا کے رکھے تھے 

یوں ہی کسی کی کوئی بندگی نہیں کرتا 
بتوں کے چہروں پہ تیور خدا کے رکھے تھے 

گئے ہیں باب رسا تک وہ دستکیں بن کر 
ظفرؔ جو ہاتھ پہ آنسو دعا کے رکھے تھے

ظفر مرادآبادی



محمد جلال الدین انصاری

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1932

دریا ہی دکھاتا ہے اکڑ اپنی ہمیشہ
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا

 محمد جلال الدین انصاری


 

راشد ذولفقار

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

بندشیں سخت نہ ہو جائیں مسیحاؤں کی
قید میں اپنی معیشت ہے کلیساؤں کی

قرض میں جکڑی ہوئی قوم کے بے حس حاکم
بود و باش ان کی ہمیشہ سے ہے راجاؤں کی

بے ہنر ہاتھوں میں شمشیر تھمانے کے لئے
پرچیاں کام دکھاتی ہیں شنا ساؤں کی

یوسف وقت سے پوچھو تو ذرا اے لوگو
زد پہ دامن ہے ترا کتنی زلیخاؤں کی

آخری بار ہے ساحل کا نظارا راشد
کشتیاں ڈوب چلیں میری تمناؤں کی

راشد ذولفقار



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...