Urdu Deccan

Thursday, September 29, 2022

سیدہ سعدیہ فتح

یوم پیدائش 25 سپتمبر 

اوصاف محامد جیسے ہیں
دراصل وہ حاسد جیسے ہیں

ہر بات پہ نکتہ چینی کیوں ؟
کیا آپ بھی ناقد جیسے ہیں

بے داغ لبادہ اوڑھے ہوئے
مے خوار بھی زاہد جیسے ہیں

آنکھیں ہیں مگر ہیں نابینا
کیوں کہیے وہ شاہد جیسے ہیں

ہے دور مشینی تو انساں
کیوں ساکت و جامد جیسے ہیں

اے سعدیہ! صالح کوئی نہیں
سب اصلاً فاسد جیسے ہیں

سیدہ سعدیہ فتح


 

ساغر صدیقی

تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا

جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا

شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا

یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا

تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا

افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے لیا

بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا

ساغر صدیقی 



محمود طرزی

یوم وفات 24 سپتمبر 1890

خودی کی تاریک گھاٹیاں ہیں قدم قدم پر یقیں سے آگے
خدا ہی حافظ ہے ان کاطرزی ، بڑھے جو کوئے بتاں سے آگے

کبھی کلیسا میں جھانکتا ہے ، کبھی حرم میں پکارتا ہے
جو ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈ اس کو حدودِ کون و مکاں سے آگے

میں گرد تھا کارواں کی طرزی نہ پوچھیے اضطراب میرا
کبھی رہا کارواں کے پیچھے ، کبھی رہا کارواں کے آگے

محمود طرزی


 

نجیبہ عارف

یوم وفات 24 سپتمبر 1964

نگاہ و رخ پر ہے لکھی جاتی جو بات لب پر رکی ہوئی ہے 
مہک چھپے بھی تو کیسے دل میں کلی جو غم کی کھلی ہوئی ہے 

جو دل سے لپٹا ہے سانپ بن کر ڈرا رہا ہے بچا رہا ہے 
یہ ساری رونق اس اک تصور کے دم سے ہی تو لگی ہوئی ہے 

خیال اپنا کمال اپنا عروج اپنا زوال اپنا 
یہ کن بھلیوں میں ڈال رکھا ہے کیسی لیلا رچی ہوئی ہے 

ہم اپنی کشتی سراب گاہوں میں ڈال کر منتظر کھڑے ہیں 
نہ پار لگتے نہ ڈوبتے ہیں ہر اک روانی تھمی ہوئی ہے 

ازل ابد تو فقط حوالے ہیں وقت کی بے مقام گردش 
خبر نہیں ہے تھمے کہاں پر کہاں سے جانے چلی ہوئی ہے 

بھڑک کے جلنا نہیں گوارا تو میرے پروردگار مولا 
نہ ایسی آتش نفس میں بھرتے کہ جس سے جاں پر بنی ہوئی ہے

نجیبہ عارف


 

ظفر نسیمی

یوم پیدائش 24 سپتمبر 1921

نہ چھیڑ نام و نسب اور نسل و رنگ کی بات 
کہ چل نکلتی ہے اکثر یہیں سے جنگ کی بات 

تمہارے شہر میں کس کس کو آئنہ دکھلائیں 
ہزار طرح کے چہرے ہزار رنگ کی بات 

ہر ایک بات پہ طعنہ ہر ایک بات پہ طنز 
کبھی تو یار کیا کر کسی سے ڈھنگ کی بات 

میں اس کے وعدۂ فردا پہ کیا یقیں کرتا 
ہنسی میں ٹال گیا ایک شوخ و شنگ کی بات 

اٹھا ہے سنگ ملامت بہ نام شیشۂ دل 
قرار پائی ہے شیشے کے ساتھ سنگ کی بات 

عجیب حال ہے یاروں کی بے حسی کا ظفرؔ 
سکوت مرگ کا عالم رباب و چنگ کی بات

ظفر نسیمی



صادق نسیم

یوم پیدائش 24 سپتمبر 1924

اس اہتمام سے پروانے پیشتر نہ جلے
طواف شمع کریں اور کسی کے پر نہ جلے

ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے

ہمیں یہ دکھ کہ نمود سحر نہ دیکھ سکے
سحر کو ہم سے شکایت کہ تا سحر نہ جلے

چراغ شہر نہیں ہم چراغ صحرا ہیں
کسے خبر کہ جلے اور کسے خبر نہ جلے

تری دلیل بجا پر یہ کیسے مانا جائے
شجر کو آگ لگے اور کوئی ثمر نہ جلے

شعور قرب کی یہ بھی ہے اک عجب منزل
ہم اس کو غیر کی محفل میں دیکھ کر نہ جلے

یہ شام مرگ تمنا کی شام ہے صادقؔ
کوئی چراغ کسی طاق چشم پر نہ جلے

صادق نسیم



پرتو روہیلہ

یوم وفات 23 سپتمبر 1932

میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایا ہوتا 
دل زدہ کوئی گھڑی بھر کو تو ٹھہرا ہوتا 

اب تو وہ شاخ بھی شاید ہی گلستاں میں ملے 
کاش اس پھول کو اس وقت ہی توڑا ہوتا 

وقت فرصت نہیں دے گا ہمیں مڑنے کی کبھی 
آگے بڑھتے ہوئے ہم نے جو یہ سوچا ہوتا 

ہنستے ہنستے جو ہمیں چھوڑ گیا ہے حیراں 
اب رلانے کے لئے یاد نہ آیا ہوتا 

وقت رخصت بھی نرالی ہی رہی دھج تیری 
جاتے جاتے ذرا مڑ کے بھی تو دیکھا ہوتا 

کس سے پوچھیں کہ وہاں کیسی گزر ہوتی ہے 
دوست اپنا کبھی احوال ہی لکھا ہوتا 

ایسا لگتا ہے کہ بس خواب سے جاگا ہوں ابھی 
سوچتا ہوں کہ جو یہ خواب نہ ٹوٹا ہوتا 

زندگی پھر بھی تھی دشوار بہت ہی دشوار 
ہر قدم ساتھ اگر ایک مسیحا ہوتا 

ایک محفل ہے کہ دن رات بپا رہتی ہے 
چند لمحوں کے لئے کاش میں تنہا ہوتا

پرتو روہیلہ



شائستہ سحر

یوم وفات 23 سپتمبر 1975

کچھ بھی ہو تقدیر کا لکھا بدل 
چاہئے تجھ کو کہ اب رستا بدل 

بعد میں مجھ کو دکھانا آئنہ 
پہلے اپنا جا کے تو چہرہ بدل 

آگہی کا جس میں اک روزن نہ ہو 
اس مکان ذات کا نقشہ بدل 

میری وحشت ہے سوا اس سے کہیں 
بارہا اس سے کہا صحرا بدل 

نعمتیں دنیا کی سب مل جاتی ہیں 
ماں نہیں ملتا مگر تیرا بدل 

پھر رہا ہے کیوں تہی کاسہ لئے 
بار جو شانوں پہ ہے رکھا بدل 

ٹوٹی پھوٹی بان کا کیا آسرا 
آسماں سر پر اٹھا کھٹیا بدل 

رسم دنیا یوں بدل سکتی نہیں 
کب سحرؔ تجھ سے کہا تنہا بدل 

شائستہ سحر



شگفتہ طلعت سیما

یوم وفات 23 سپتمبر 

رنگ ہے پھول ہے خوشبو ہے صبا ہے کوئی
چمنِ زیست میں یوں جلوہ نما ہے کوئی

ساری دنیا کی نگاہوں سے ہے پردہ میرا
اور چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا ہے کوئی

میری شرکت بھی گوارہ نہیں شاید اُس کو
میرے آتے ہی تو محفل سے اٹھا ہے کوئی

دن وہی رات وہی ، صبح وہی شام وہی
ماسوا اس کے بھی جینے کی سزا ہے کوئی

خون آنکھوں سے چھلک کر جو ہتھیلی پہ گرا
وہ سمجھ بیٹھے کہ تحریرِ حنا ہے کوئی

کوئی ایسا بھی ہو سیما جو مناکر لائے
روٹھ کر مجھ سے بہت دور کھڑا ہے کوئی

شگفتہ طلعت سیما


 

راجہ مہدی علی خاں

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1915

محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے 
تڑپنا ان کی قسمت میں تو صبح و شام ہوتا ہے 

ہمیشہ کے لئے دنیا میں دو دل مل نہیں سکتے 
نظر ملنا جدائی کا ہی اک پیغام ہوتا ہے 

نہ دل میں چین ہے ہم کو نہ راتوں کو قرار آئے 
بتا دے کوئی دنیا میں کہاں آرام ہوتا ہے 

مری بربادیاں بھی دیکھ لیں تم نے جہاں والو 
جو کرتا ہے محبت وہ یوں ہی ناکام ہوتا ہے

راجہ مہدی علی خاں



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...