Urdu Deccan

Thursday, September 29, 2022

عمران اسلام

یوم پیدائش 28 سپتمبر 1993
نظم...مجھے کون پڑھے گا

مَیں تم سے محبت کیوں کروں
اگر تم میری طرف نہیں دیکھتے
مَیں تمھیں کیوں لکھوں
اگر آپ میری کتاب نہیں پڑھتے
شاعری کیسے لکھوں
اگر آپ میری حوصلہ افزائی نہیں کرتے
مَیں یہاں کیسے زندہ رہوں گا
اگر آپ میرا ساتھ نہیں دیتے
آپ کو مجھ سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں
صرف مجھے خوش کرنے کے لیے
میرے لیے کچھ کریں
آپ واقعی کیا کر سکتے ہیں
مَیں تم سے نہیں پوچھ رہا ہوں
ذرا میرے خیالات کی قدر کرو
مَیں تعریفیں نہیں چاہتا
میرے الفاظ بھی پڑھ لو
اگر مَیں غریب ہوں، تو کیا حرج ہے
اگر مَیں کالا ہوں تو میرا کیا قصور
آپ تمام دروازے بند کر سکتے ہیں
میں آپ سے درخواست کرتا ہوں
بس میرا کام پڑھیں!

عمران اسلام


 

ثمر بلیاوی

یوم پیدائش 27 سپتمبر 1940

ناصحا چھپ چھپا کے مے نوشی
کیا یہی تیری پارسائی ہے

ثمر بلیاوی



ثاقب قمری مصباحی

یوم پیدائش 27 سپتمبر 2001

وحشتِ ہجر ہے، اندیشۂ تنہائی ہے
بابِ ہستی کا عجب قصۂ تنہائی ہے

جس طرف دیکھتا ہوں سایۂ تنہائی ہے
آخرش تا بہ کجا حیطۂ تنہائی ہے!!

وہ کہ جس قبر پہ میلہ سا لگا رہتا تھا
آج خستہ سا وہاں کتبۂ تنہائی ہے

پھر سے اِک بار وہی جرم کیا ہے میں نے
پھر سے اِک بار مجھے خدشۂ تنہائی ہے

میں تو بس معنیِ مصداق اسی لفظ کا ہوں!
مصحفِ زیست میں جو صیغۂ تنہائی ہے

عالمِ وصل کی لذت سے میں واقف ہی کہاں
میرے حصے میں تو بس گوشۂ تنہائی ہے

آج کل نیند سے اس طرح میں چونک اُٹھتا ہوں
جیسے خوابوں پہ مِرے قبضۂ تنہائی ہے

عشق کا ایک جزیرہ ہے مِرا دل ثاقب
اور پھر اس میں فقط موجۂ تنہائی ہے

ثاقب قمری مصباحی


 

وحید عرشی

یوم پیدائش 27 سپتمبر 1943

گلوں کو رنگ ستاروں کو روشنی کے لئے 
خدا نے حسن دیا تم کو دلبری کے لئے 

تمہارے روئے منور کی ضو میں ڈوب گیا 
فلک پہ چاند جو نکلا تھا ہمسری کے لئے 

صنم ہزاروں نئے پتھروں کے اندر ہی 
تڑپ رہے ہیں ابھی فن آذری کے لئے 

ارے او برق تپاں پھونک دے نشیمن کو 
ترس رہا ہوں گلستاں میں روشنی کے لئے 

رہ وفا میں مرا کون ہے جو ہر سو سے 
غبار راہ اٹھی ہے پیمبری کے لئے 

نکل پڑا ہے جنوں تھام کر کے دست وفا 
اک اجنبی کا سہارا ہے اجنبی کے لئے

وحید عرشی



شمشاد شاد

اس قدر شور کہ ظلمت بھی لگی تھی ڈرنے
رات سونے نہ دیا آہِ دلِ مضطر نے

غالباً روح نے لبیک کہا تھا میری
خاک کو چاک پہ جوں ہی رکھا کوزہ گرنے

کس لیے خوف کو تم دل میں جگہ دیتے ہو
جان کتنوں کی یہاں لی ہے قضا کے ڈرنے

جن کی تعمیر میں شامل ہے پسینہ میرا
مجھ کو ٹھکرادیا یکسر انہی بام و درنے

خیر سے آنکھ چرانے کا نتیجہ ہے کہ آج 
ہر طرف سے دلِ انساں کو ہے گھیرا شر نے

گل کئی رنگ کے گلشن میں میسر تھے مگر
مجھ کو روکے رکھا الزامِ جفا کے ڈرنے

پھر دل وعقل کا چلتا ہی نہیں زور کوئی
آنکھ لگ جائے کسی سے جو محبت کرنے

شاد ان سر پھری موجوں کی خوشی کی خاطر
مسترد کتنے کناروں کو کیا ساگر نے

شمشاد شاد

قنبر حنفی

یوم پیدائش 26 سپتمبر 2001

سمجھائے کوئی آکے ذرا فلسفہ مجھے
ابلیس لگ رہے ہیں سبھی پارسا مجھے

لکھنا ہے تیرے حسن کے بارے میں اس لئے
مثلِ نجوم چاہئے کچھ قافیہ مجھے

میں عسکرِ ادب کا سپاہی بنوں یہاں
مل جائے اہلِ ذوق سے کچھ حوصلہ مجھے

منظور جس نظر کا تھا، کیوں دیکھتا ہے اب
تحقیر کی نظر سے وہی آشنا مجھے

پلکوں کے ساتھ دل بھی بچھاؤں میں راہ میں
تم سے نہیں ملا جو کچھ ان سے ملا مجھے

ہر وقت پوچھتا ہے کہ کیسا ہوں میں؟ بتا
سمجھا ہے تونے کیا رے کوئی آئینہ مجھے

قنبر ترے خلوص کو کیا نام دوں بتا
منزل سے پہلے چھوڑ گیا ہمنوا مجھے

قنبر حنفی



شاکر وارثی

یوم پیدائش 25 سپتمبر 1960

کانچ کے گھر کا عجب منظر نظر آنے لگا
ہر کسی کے ہاتھ میں پتھر نظر آنے لگا

ظالموں کو مل گئی جب چھوٹ سارے شہر میں
خون کا پیاسا ہراک خنجر نظر آنے لگا

ہوگئے مجھ سے جدا وہ ایک مدت ہوگئی
ان کا چہرہ خواب میں اکثر نظر آنے لگا

بھیک جب شاہ و گدا کو مل گئی شاکرؔ وہاں
سارا عالم ان کی چوکھٹ پر نظر آنے لگا

شاکر وارثی



سیدہ سعدیہ فتح

یوم پیدائش 25 سپتمبر 

اوصاف محامد جیسے ہیں
دراصل وہ حاسد جیسے ہیں

ہر بات پہ نکتہ چینی کیوں ؟
کیا آپ بھی ناقد جیسے ہیں

بے داغ لبادہ اوڑھے ہوئے
مے خوار بھی زاہد جیسے ہیں

آنکھیں ہیں مگر ہیں نابینا
کیوں کہیے وہ شاہد جیسے ہیں

ہے دور مشینی تو انساں
کیوں ساکت و جامد جیسے ہیں

اے سعدیہ! صالح کوئی نہیں
سب اصلاً فاسد جیسے ہیں

سیدہ سعدیہ فتح


 

ساغر صدیقی

تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا

جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا

شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا

یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا

تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا

افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے لیا

بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا

ساغر صدیقی 



محمود طرزی

یوم وفات 24 سپتمبر 1890

خودی کی تاریک گھاٹیاں ہیں قدم قدم پر یقیں سے آگے
خدا ہی حافظ ہے ان کاطرزی ، بڑھے جو کوئے بتاں سے آگے

کبھی کلیسا میں جھانکتا ہے ، کبھی حرم میں پکارتا ہے
جو ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈ اس کو حدودِ کون و مکاں سے آگے

میں گرد تھا کارواں کی طرزی نہ پوچھیے اضطراب میرا
کبھی رہا کارواں کے پیچھے ، کبھی رہا کارواں کے آگے

محمود طرزی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...