میری ہر بات پہ کہتی ہو کہ اچھا کیا ہے!
پہلے بتلاؤ کہ تم نے مجھے سمجھا کیا ہے
کچھ نہیں کچھ بھی نہیں تیری توجہ کے بغیر
تیری آنکھیں نہ رہیں تو مِرا چہرہ کیا ہے
یونہی پھرتے رہو اُس خواب کنارے ہر دم
پھر کہیں تم پہ کُھلے گا کہ وہ دریا کیا ہے
ملکوں ملکوں تو پھر آئے ہو مرے دوست مگر
گر گلی اسکی نہیں دیکھی تو دیکھا کیا ہے
پوچھنے آتے ہیں سڑکوں پہ ٹہلتے سائے
رات ساری تُو یہاں جاگ کے کرتا کیا ہے
اے دو عالم کے خدا اب تو بتا اپنی جا
اے قریبِ رگِ جاں بول یہ پردہ کیا ہے
بھرگیا ہوں جو لبالب کسی خوشبو سے عزیر
بند کھڑکی سے مِرے پھول نے بھیجا کیا ہے